اسرائیل |
پاکستان |
---|
اسرائیل پاکستان تعلقات ان دو طرفہ تعلقات کو کہا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان اور یہودی مملکت اسرائیل کے درمیان میں رہے ہیں۔ یہ تعلقات غیر تسلیم شدگی سے لے کر سوویت افغان جنگ کے دوران میں قریبی تال میل تک ہر دور میں بدلتے رہے۔ ان دونوں مملکتوں کا قیام نظریاتی قرار دادوں پر مبنی رہا ہے (دیکھیے دو قومی نظریہ اور یہودیوں کا وطن) اور دونوں ہی ریاستیں برطانوی سلطنت سے آزاد ہو کر وجود میں آئی تھیں۔ درحقیقت پاکستان اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح پر باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں ہوئے اور تاحال یہی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل عرب ریاستوں سے کچھ معاہدے کر لے تو وہ اسرائیل سے علانیہ سفارتی تعلقات قائم کریں گے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اسرائیل مخالف تنظیم آزادی فلسطین سے قریبی تعلقات ہیں، مثلاً پہلے انتفاضہ کے موقع پر پاکستان کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے لیے رسد رسانی اور طبی امداد کا بندوبست کیا گیا تھا۔ نیز متعدد موقعوں پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی بنا پر ریاست ہائے متحدہ امریکا سے کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جب پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا افشا ہوا تو اسرائیل کو ہمیشہ ان جوہری صلاحیتوں سے خدشہ رہا۔ پاکستان میں بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے ان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکومت اسرائیل کی کچھ کلیدی شخصیتوں نے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر یہ حملہ نہیں ہو سکا۔
سنہ 1990ء کی دہائی میں اوسلو معاہدہ کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ کچھ نرم ہوا اور یہودی و پاکستانی نمائندوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی اولین ترجیح سفارتی تعلقات کا قیام رہی، جب کہ پاکستان نے اسرائیل کے تئیں اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق ان کی اس جارحانہ پالیسی کی اصل وجہ بالعموم عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب سے اتحاد کا مظاہرہ ہے۔ اوسلو معاہدے کا ایک اہم اثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پاکستان نے اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا جب تک کہ اسرائیل فلسطین تنارع کا ایک قابل قبول دو ملکی وجود کی شکل میں حل قبول نہ کیا جائے۔[1] پاکستان اور اسرائیل ان کے استنبول میں قائم سفارت خانوں کے ذریعے باہمی مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔2010ء میں ڈان کی ایک اشاعت کے مطابق یہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان کی کے خفیہ تحقیقاتی ادارے آئی ایس آئی نے واشنگٹن سے ملنے والی اطلاعات کے پیش نظر انقرہ میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے ممبئی میں ہونے ہونے ممکنہ 2008ء کے دہشت گرد حملے کی خبر موساد کے حوالے کی تھی جس میں یہودی ثقافتی مرکز بھی ایک اہم نشانہ تھا۔[2][3] اس حملے کے قریب ایک سال بعد نے سب سے پہلے ویکی لیکس اپنے انکشافات کے ذریعے یہ بات طشت از بام کی کہ پاکستان نے اسی استنبول میں قائم اپنے سفارت خانے کے ذریعے اسرائیل کو ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی۔[4]
2020ء میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ریاستہائے متحدہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ: "اسرائیل ریاستہائے متحدہ پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے"۔[5] خان نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ : "اسرائیل کی لابی سب سے طاقت ور ہے اور اس کی وجہ سے امریکا کی مشرق وسطٰی کی مکمل پالیسی اسرائیل کے قابو میں ہے۔"[6] تاہم جب خان سے راست طور پر یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق قائم کریں گے یا نہیں، تو اس پر خان نے اسرائیل فلسطینی تنازع پر پاکستان کے موقف کی دوبارہ تصدیق کی کہ اسرائیل اور پاکستان کے بیچ کسی قسم کا تعلق اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے لیے کوئی "منصفانہ فیصلہ" طے نہیں کیا جاتا۔ [7][8] دونوں ملک کے مئی 2021ء میں اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات میں اس وقت ایک نئی تلخی رو نما ہوئی جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے یروشلم تصادم، 2021ء پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کے "منظم ظلم و ستم" کی شدید مذمت کی گئی اور اطلاعات کے مطابق بیان کردہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔[9]
پاکستان اور اسرائیل کے بیچ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947ء میں کی گئی تھی، جب اسرائیل کے اولین وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے ایک تار جناح کو روانہ کیا جو پاکستانی کے اہم بانی اور ملک میں قائد اعظم کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تاہم جناح نے اس تار کا کوئی جواب نہیں دیا۔[10][11] 1949ء میں باور کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کراچی میں اپنی نمائندگی قائم کرنے کی کوشش کی تھی، جو اس وقت پاکستان کا دار الحکومت تھا یا پھر کم از کم دونوں ملکوں کے بیچ کھل کر تجارتی تعلقات رائج کرنا چاہتی تھی۔[12] اس سلسلے میں پہلی بار رابطہ برطانیہ میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر، اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں کے ایک وفد کے درمیان میں 1950ء کے آغاز میں ہوا تھا۔[12] پاکستانی حکومت سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ وہ افغانستان میں بسنے والے چند سو یہودیوں کو بھارت کے لیے گزرگاہ کا پروانہ دے تا کہ یہ لوگ اسرائیل میں جا کر آباد ہو سکیں۔[12] اس موقع پر پاکستان کی حکومت نے گزرگاہ کا پروانہ دینے سے انکار کر دیا تھا، بعد ازاں یہ یہودی براستہ ایران اسرائیل پہنچے تھے۔[12]
1952ء میں سر ظفر اللہ خان پاکستان کے وزیر خارجہ بنے۔ اور 14 جنوری 1953ء کو ظفراللہ خان اور امریکا میں اسرائیلی سفیر ابا ایبن کے مابین نیویارک میں ایک خفیہ ملاقات ہوئی، اس ملاقات کا موضوع دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات تھے۔ ظفراللہ خان نے اسرائیلی سفیر کو بتایا کہ ملک میں شدید مذہبی مخالفت کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ مستقبل قریب میں سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس کے باوجود کہ پاکستانی حکومت اسرائیل سے نفرت نہیں کرتی اور اسے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا عنصر سمجھتی ہے، جس کے بارے میں غور ہونا چاہیے۔‘‘ تاہم انھوں نے اس ملاقات میں سر دست ماہرین، طلبہ اور پروفیسروں کے باہمی دوروں کی منظوری کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر عرب اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے پر تیار ہوئے تو پاکستان معاہدہ کرنے کے حق میں اپنا وزن ڈالے گا۔
بعد ازاں مارچ اور اپریل 1954ء کے درمیان ظفراللہ خان نے یہ بیانات دینے شروع کیے کہ اسرائیل کو نہ تو تسلیم کیا جائے گا اور نہ پاکستان ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔[13] اس وزارتی دور کے دوران میں اسرائیل کے خلاف سخت گیر پالیسیاں اپنائی گئیں اور عرب ملکوں میں اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔[12] لہٰذا خان کی پالیسی عرب ممالک ہی سے کلیدی تعلقات قائم کرنے میں معاون رہی تھی۔[12]
اسرائیل کی جنگ آزادی کے دوران اسرائیل کے واشنگٹن میں موجود سفارتی مشن کو اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان اس بات کی کوشش میں تھا کہ عربوں کو فوجی امداد فراہم کی جائے، جس میں یہ افواہیں بھی شامل تھیں کہ ایک پاکستانی فوجی دستہ فلسطین بھیجا جانے والا ہے تاکہ وہاں پر اسرائیل کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پاکستان نے چیکوسلوواکیا سے 250,000 رائفل خریدے تھے جو ظاہری طور پر عربوں کے لیے تھے۔ یہ بھی بات عام ہوئی کہ پاکستان نے اطالیہ سے تین جہاز مصر کے لیے خریدے تھے۔[14]
پاکستانی فضائیہ نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ اور 1973ء کی 6 روزہ جنگ جنگ یوم کپور میں حصہ لیا تھا۔ سیف الاعظم، جس نے ایک پاکستانی جنگ میں پائلٹ کے طور کام پر کیا تھا، نے کم از کم 4 اسرائیلی جہازوں کو مار کر گرا دیا تھا۔[15] جنگ یوم کپور کے بعد پاکستان اور پی ایل او نے ایک معاہدے پر دستخط کیا تاکہ پی ایل او کے افسروں کو پاکستانی فوجی اداروں میں تربیت فراہم کی جائے گی۔[16] 1982ء کی جنگ لبنان میں پاکستانی رضاکاروں نے پی ایل او کے لیے کام کیا تھا اور ان میں سے کچھ کو بیروت کے محاصرے کے دوران قید میں لے لیا گیا تھا۔ ٹائم کے مطابق فرانسیسی دانشور برنرڈ-ہنری لیوی نے یہ بھی دعوٰی کیا ہے کہ ڈینئل پرل، جو ایک امریکی اسرائیلی تھے، ان کو پاکستان کے ان عناصر کی جانب سے قتل کر دیا گیا تھا جنہیں آئی ایس آئی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ حالاں کہ اس کے لیے کوئی قابل تصدیق ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے، تاہم پرل کا یہ کردار کے وہ آئی ایس آئی اور القاعدہ کے بیچ روابط کی تہ تک پہنچ رہے تھے، ان کی موت کا سبب بنا۔[17] بی بی سی اور ٹائم سے موصولہ کچھ دیگر خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسندوں نے پرل کا قتل اس وجہ سے کیا کہ کیوں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ پرل ایک اسرائیلی موساد کا خفیہ ایجنٹ تھا جو امریکی صحافی کی آڑ میں ان کے ملک میں کام کر رہا تھا۔[18][19]
اس کے علاوہ، پاکستان کی مذہبی سیاسی و طلبہ جماعتیں جیسے کہ انجمن طلبہ اسلام ATI، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور عسکریت پسند گروہ جیسے کہ لشکر طیبہ سختی سے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور یہ لوگ مسلسل اس ملک کو دشمن اسلام اور دشمن پاکستان قرار دیتے آئے ہیں۔[20][21]
پاکستان اپنے شہریوں کو اسرائیل جانے سے منع کرتے آیا ہے اور ہر پاکستانی پاسپورٹ یہ عبارت رکھتا ہے "یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے۔"[22][23][24]
1980ء کے دہے میں اسرائیل نے منصوبہ بنایا کہ وہ بھارت کے تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر ہی پاکستان کی ابم سہولتوں پر حملہ کرے گا۔[25][26]
1981ء میں عراق کے نیوکلیر ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے مبینہ طور طور اسی طرز کا ایک حملہ پاکستان کی نیوکلیائی سہولتوں پر کرنے پر کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہوٹہ میں واقع ہیں۔ اس کے لیے بھارت سے مدد کی گزارش کی گئی۔ سیٹلائٹ سے دست یاب تصاویر اور انٹلی جنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اسرائیل نے مکمل پیمانے پر کہوٹہ سہولت کا تمثیلی نمونہ صحرائے نقب میں بنایا تھا جہاں ایف 16 اور ایف 15 کے اسکواڈرن ہواباز یہ امکانی حملے کی مشق بھی کر چکے تھے۔
’ایشین ایج’ کے مطابق، صحاقی ایڈرین لیوی اور کیتھرین اسکاٹ کلارک نے اپنی مشترکہ انگریزی کتاب بعنوان ‘Deception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy’ میں یہ بات واضح کی کہ اسرائیلی فضائیہ کہوٹہ پر ہوائی حملے کا ارادہ رکھتی تھی۔ یہ حملہ 1980ء کے دہے میں بھارت کی ریاست گجرات کے جامنگر کے فضائی ٹھکانے سے کرنا تھا۔ کتاب کا دعوٰی ہے کہ “مارچ 1984ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مہر رضامندی بھی ثبت کر دی تھی جس سے کہ بھارت، پاکستان اور اسرائیل نیوکلیائی تصادم کے بے حد قریب آگئے تھے۔[27]
مقالہ نمبر 41، میک نائر جسے یو ایس اے ایف کی ایئر یونیورسٹی نے شائع کیا تھا (مقالے کا انگریزی عنوان India Thwarts Israeli Destruction of Pakistan's "Islamic Bomb" تھا)، بھی اس منصوبے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے مطابق “اسرائیل کی دل چسپی پاکستان کے کہوٹہ ری ایکٹر کو تباہ کرنے میں اس وجہ سے تھی کی وہ "اسلامی بم" کو روک دے گا۔ اس کی پیش رفت کو بھارت کی جانب سے روک دیا گیا کیوں کہ 1982ء میں اسرائیلی جنگی جہازوں کو درکار ایندھن کی فراہمی سے اس نے انکار کر دیا۔ یہ بھارت کی پالیسی سبھی بیرونی فوجی ہوائی / بحری جہازوں کے لیے رہی ہے۔ اسرائیل اپنی جانب سے ممکنہ حملے کو ایک مشترکہ بھارتی اسرائیلی کارروائی بنانا چاہ رہا تھا تاکہ اس حملے کی پوری ذمے داری صرف اسی کے سر پر نہ رکھی جائے۔[28]
یکم اکتوبر 2015ء کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک امکانی بے چینی کی صورت حال کو اس وقت ٹال دیا جب انھوں نے نیو یارک کی سیرافینا میں اپنے عشائیے کو منسوخ کر دیا کیوں کہ وہاں پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی رات کے کھانے پر آ رہے تھے۔ شریف اپنے اس سخت یقین کے لیے جانے جاتے ہیں کہ "فلسطین پر اسرائیل کی بربریت عریاں حیثیت رکھتی ہے۔"[29]
ایک دوسرے کے ساتھ ان تمام مخاصمتوں کے باوجود دونوں ممالک کے بارے میں اطلاعات موجود ہیں کہ ان لوگوں ڈائریکٹوریٹس قائم کیے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ انٹلی جنس تعاون جاری رکھا جا سکے۔[4]
پاکستان کے اسرائیل ساتھ دفاعی تعاون کی تاریخ 1980ء کے ابتدائی دہے سے تعلق رکھتی ہے جب پاکستان کے صدر اور فوجی عملے کے صدر جنرل جنرل ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ اسرائیل کے موساد کے ساتھ معاملتوں کے لیے ایک خفیہ ڈائریکٹوریٹ قائم کرے۔[30] یہ انٹلی جنس دفاتر دونوں ممالک کے سفارت خانوں میں بنائے گئے جو واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھے جہاں موساد، آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مل ایک مکمل دہے تک مخالف سوویت کارروائی کو جاری تھا، جس کا علامتی نام آپریشن سائیکلون رکھا گیا تھا۔[31] اس تعاون کے حصے کے طور پر اسرائیل نے سوویت ساختہ ہتھیاروں کو افغان باغیوں کو فراہم کیا تھا جو سوویت یونین سے افغانستان میں لڑ رہے تھے اور اسی طرح اسرائیل پاکستانی فوج کو بھی پتھیار فراہم کر رہا تھا۔[31]
ویکی لیکس نے ریاستہائے متحدہ کے ایک سفارتی دستاویز کو جاری کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی نے خفیہ طور پر انٹلی جنس کی معلومات موساد کو فراہم کی ہے۔ آئی ایس آئی نے ایک تبادلہ خیال کی روداد حاصل کی تھی کہ اسرائیلی شہریوں کو ستمبر اور نومبر 2008ء کے بیچ حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے ( جیسا کہ 26 نومبر کے ممبئی حملے ہوا تھا، جس کے نشانوں میں ایک یہودی مرکز — دی نریمن ہاؤز بھی تھا)۔[32] اس بات کی بھی اطلاع دی گئی ہے کہ پاکستان کے لفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا موساد کے ساتھ سیدھے تعلقات بنائے ہوئے تھے۔[33]
اسرائیل اور پاکستان، دونوں سرد جنگ کے دوران مغربی ممالک کے اتحادی تھے، جب بھارت سوویت یونین کا اتحادی تھا۔ بھارت نے افغانستان پر سوویت قبضے کی حمایت کی تھی اور سوویت حامی قائد محمد نجیب اللہ کی مدافعت کی تھی۔ پاکستان اور اسرائیل نے سوویت قبضے کی مخالفت کی تھی اور اسرائیل افغان باغیوں کو پاکستان کے توسط سے ہتھیار بھی فراہم کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے بعض فلسطینی گروہوں جیسے کہ پی ایل او سے سوویت یونین کی فراہم کردہ ہتھیاروں کو ضبط بھی کر چکا ہے۔[31]
کچھ اسرائیلی قائدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جانے چاہیے کیوں کہ ممکن ہے کہ پاکستان اسرائیل اور عالم اسلام کے ایک پل کا کام کر سکتا ہے جس میں عرب ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔[34] حالانکہ ان دو ممالک نے سرکاری طور پر تعلقات قائم نہیں کیے ہیں، دونوں ممالک کے بیچ کئی معاملتیں انجام پائی ہیں۔[35] جنگ نیوز کے مطابق اس طرح کی کئی خبریں گشت کر رہی ہیں کہ کئی سرکردہ پاکستانی شخصیات اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔[36]
1992ء میں بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے فوری بعد واشنگٹن میں موجود پاکستانی خاتون سفیر عابدہ حسین نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اپنے ایک بیان سے بھونچال پیدا کر دیا۔ وہ اپنے اس خیال کے اظہار کی وجہ ارباب اقدار کے ہاتھوں سر زنش کے سے بھی ہو کر گذری ہیں کہ “اگر تنازع کے فریقین (عرب اور اسرائیلی) اپنے اختلافات سلجھا لیتے ہیں، تو پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔” اس موقع پر اسلام میں فلسطین کی کلیدی اہمیت کے پیش نظر ایک پاکستانی تبصرہ نگار نے پوچھا کہ: “محترمہ سفیر صاحبہ، اسلام کا تیسرا مقدس ترین شہر القدس (یروشلم) طاقت کے زور پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور یہودی سلطنت کا حصہ بنا لیا گیا ہے اور آپ ایک نسل پرست، غیر منصفانہ اور غیر انسانی حکومت کو تسلیم کرنے کا نذرانہ پیش کرنا چاہتی ہیں؟”
فلسطین کی جانب سے اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کو پاکستان کچھ دانشور طبقوں کی جانب سے پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔ اس کی وجہ سے کچھ عرب حکومتیں جو اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنا چاہتے ہیں شدید تنقید کا نشانہ بنے۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی بجائے یہ لوگ پاکستان کے انکار کو ان تمام اسلامی ممالک کے لیے نمونہ قرار دیتے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ سلامتی کے طلب گار ہیں۔ ایک تبصرہ نگار کے الفاظ اس طرح تھے:
” | فلسطین کے یاسر عرفات اور اردن کے شاہ حسین کی طرح اسرائیل کو تسلیم کرنا... گویا القدس شریف کے قبضے کو تسلیم کرنا ہے۔ اگر (خدانخواستہ)، اسرائیل مکہ و مدینہ پر قبضہ کرے اور عرب ممالک اسے تسلیم کریں، تو کیا باقی عالم اسلام اسے تسلیم کرے گا؟ | “ |
اسرائیل کے سابق سفیر برائے بھارت مارک سوفر کئی منفرد اقدامات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کوششوں میں کچھ ایسی کوششیں شامل تھیں جن کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو اسرائیل کے نزدیک لانا اور اسرائیلی سفارت خانے کے دائرۂ کار کو برصغیر میں توسیع دینا۔ انھی اقدامات میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ بھارت میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کی ویب سائٹ کو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں جاری کرنا۔ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ بھارت میں کسی بھی بیرونی سفارت خانے نے اپنی ویب گاہ کو بہ یک وقت ہندی اور اردو میں جاری نہیں کیا۔ کچھ سفارت خانوں نے اپنی ویب گاہ کا ہندی میں ترجمہ ضرور کیا ہے، مگر یہ ترجمہ ہندی زبان کے بھارت میں سرکاری موقف، بیش تر ثقافتی نوعیت اور جذبہ خیر سگالی کے طور پر کیا گیا ہے۔ ہندی کے بر عکس اردو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے اور کچھ ریاستی حکومتوں کی جانب سے دوسری سرکاری زبان کا موقف حاصل کر چکی ہے۔ تاہم اردو بھارت کے زیادہ تر جدید اسکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی ہے اور اس وجہ سے اکثر غیر مسلم اور کئی مسلمان نوجوان اس زبان اور اس کے رسم الخط سے بالکل ناآشنا ہیں۔ پھر بھی مسلمانوں کے مذہبی ادب کی اس زبان میں موجودگی اور دینی مدارس کی اس زبان میں ذریعہ تعلیم کی وجہ سے اردو زبان کو عام طور سے مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ لہذا یہ واضح کیا گیا کہ اسرائیلی سفارت خانہ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتا ہے اور یہ ایک سرکاری طور پر کوشش ہے۔[38] اس بات کو مزید تقویت اس وجہ سے بھی حاصل ہوئی کہ 3 ستمبر 2008ء کو مارک سوفر اجمیر پہنچ کر وہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دیے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی اسرائیلی سفارت کار نے کسی مسلمان درگاہ یا مقام زیارت پر حاضری دی ہو۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس موقع پر دنیا میں قیام امن کے لیے تصوف کی بھی پر زور حمایت کی۔ انھوں نے تصوف کا موازنہ قبالہ سے کیا جو یہودیوں میں تصوف کی ایک قسم ہے۔[39]
سفارت خانے کی ویب گاہ کے اردو ترجمے کے پس پردہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اردو بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اس وجہ سے یہ بھی ایک پیام ممکن ہے کہ دہلی میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ اپنے دائرۂ کار کو غالبًا پاکستان تک توسیع دینا چاہتا ہے۔ جیسا کہ سنگاپور میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ اپنا دائرہ کار مشرقی تیمورتک بھی رکھتا ہے، شاید وہ پاکستان تک توسیع دے سکتا ہے۔[40] خود مارک سوفر نے 2008ء اپنے دورۂ اجمیر کے وقت منعقدہ صحافتی کانفرنس میں اس بات کو آشکارا کر دیا کہ کچھ مسلمان ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں اور اگر پاکستان بھی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے کا خواہش مند ہے تو اسرائیل اس کا مثبت جواب دے گا۔ انھوں نے اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کے متاثر ہونے یا اس معاملے میں اثر انداز ہونے کو ایک سرے سے خارج کر دیا۔[39]
سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ کے تعلقات کی مدافعت کی۔ وہ پہلے پاکستانی مسلمان ہیں جن کا ہاریٹز کی مصنفہ دانا ہارمن نے لندن میں انٹرویو لیا۔[41]
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے بھی پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی حمایت کی تھی۔[42] تشبیہ سید ایک معروف پاکستانی نژاد امریکی تھے جنھوں نے کھل کر اپنے کئی کالموں اور نگارشات میں اسرائیل کی حمایت کی تھی۔ یہ سلسلہ ان کے پورے صحاقی کیریئر میں جاری رہا۔[43]
2016ء میں ایک پاکستانی پی ایچ ڈی اسکالر اور مصنف، ملک شاہ رخ نے اسرائیل پاکستان فرینڈشپ گروپ شروع کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے لیے مہم چلاتا ہے۔[ا]
برطانیہ کے محکمہ کاروبار، ایجاد اور صلاحیت کے مطابق 2013ء کی اطلاع ہے کہ اسرائیل نے فوجی ٹیکنالوجی کو پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ 2011ء میں پاکستان نے برطانیہ سے آلات کو خریدنا شروع کیا جنہیں بعد میں پاکستان بھیجنا تھا۔ اس میں کئی برق رفتار جنگی نظام اور طیاروں کے اجزا شامل تھے۔[44] اسرائیل نے اس خبر کی تردید کی اسے گم راہ کن قرار دیا۔[45]
فٹ بال وہ واحد کھیل ہے جس میں یہ دو ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے 1960ء کے ایشین کپ کوالیفائروں میں دیکھے گئے تھے۔ ومبلڈن اوپن میں اسرائیلی ٹینس کھلاڑی عامر حداد نے پاکستانی کھلاڑی اعصام الحق کے ساتھ تیسرے دور کا ڈبلز کھیلا۔ اسرائیلی اور پاکستانی ٹیم، جس میں ایک اسرائیلی اور ایک پاکستانی تھا، سرخیوں کا حصہ بنی۔[46] یہ دل چسپ ساجھے داری ایس اوپن مقابلوں میں بھی دیکھی گئی جہاں ان کھلاڑیوں کے ہموطن جمع ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ متحدہ طور پر ان دونوں کھلاڑیوں نے آرجنٹینا کے ماریانو ہوڈ اور سیباسچین پریٹو کو شکست دی تھی۔ [47]
ڈان کیزیل، جو ایک اسرائیلی نژاد جرمن کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں، پاکستانی کرکٹ ٹیم کے تربیت کار اور فزیوتھراپسٹ رہ چکے ہیں۔ وہ لاہور میں قیام پزیر تھے۔[48]
{{حوالہ ویب}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے: |dead-url=
(معاونت)پاکستان اور اسرائیل کا آپسی رشتہ بیک وقت محبت اور نفرت کا ہے۔ گو کہ ہم تل ابیب سے نفرت کرتے ہیں لیکن بہت سے پاکستانیوں نے ان دونوں ملکوں کے مابین خوشی خوشی یہ کہہ کر یکسانی تلاش کرنا شروع کی کہ اسرائیل اور پاکستان دونوں کا قیام مذہبی بنیادوں پر ہوا ہے۔
پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اگر اسرائیل سے یہودیت نکال دی جائے تو یہ ریاست تاش کے پتوں کی طرح دھڑام سے گر جائے اور اسی طرح اگر پاکستان سے اسلام کو نکال دیا جائے اور اسے سیکولر بنایا جائے تو یہ بھی بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ —ضیاء الحق، حکمرانِ پاکستان، دسمبر 1981ء
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في: |accessdate=
(معاونت)
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف |deadurl=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في: |accessdate=
(معاونت)
{{حوالہ خبر}}
: الوسيط غير المعروف |deadurl=
تم تجاهله (معاونت)، نمونہ در "افغان جنگ کے دوران میں پاکستان نے اسرائیل ہتھیار حاصل کر لیے"۔ ڈیلی ٹائمز مانیٹر۔ 20 جولائی 2003۔ 2003-09-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف |deadurl=
تم تجاهله (معاونت)
45. برنرڈ-ہنری لیوی، فلسفی
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في: |date=
(معاونت)
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في: |accessdate=
(معاونت)
حداد اور قریشی کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ وہ کھیل کے میدان کے آگے کی دوستی بھی زیادہ گرم جوشی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ جداگانہ طور سے کہیں زیادہ اکٹھے کامیاب رہے ہیں۔ اکیلے کھلاڑیوں کے طور یہ دونوں چیلنجر ٹورنامنٹوں میں مقابلے جیتنے کے لیے کڑی محنت کرتے ہیں۔ دوسرے کھلاڑیوں سے جوڑی بنانے سے وہ کبھی سب سے عمدہ 100 میں اپنا مقام نہیں بنا پائے ہیں۔
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في: |access-date=
(معاونت)
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في: |accessdate=
(معاونت)
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف |deadurl=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في: |accessdate=
(معاونت)