اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
کلیدی شخصیات
|
بارہ امامی شیعوں کے نزدیک بارہ امام انبیا کرام کے روحانی اور سیاسی وارث ہیں جنھوں نے انھیں عقل، علم و حکمت سکھائی ہے نیز ان کی پیروی میں مصائب برداشت کرنا ان کے پیروکاروں کے نزدیک ایک اہم خوش نصیبی ہے جو خدا کی جانب سے بخشی جاتی ہے۔ اگرچہ اماموں پر خدائی وحی نازل نہیں ہوتی لیکن انکا خدا سے ایک خاص رشتہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے خدا امام کی اور امام لوگوں کی ہدایت کرتا ہے۔ نیز اماموں کی ہدایت ایک خاص کتاب الجفر اور الجامیہ کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ امامت پر یقین رکھنا شیعہ اعتقاد میں ایک اہم جز ہے جس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے بندوں کی مسلسل رہنمائی کے لیے کوئی نا کوئی رہنما ضرور رکھتا ہے۔ شیعوں کے نزدیک ہر وقت مسلمانوں میں ایک امام زمانہ موجود ہوتا ہے، جسے تمام عقائد و قانون پر اختیار حاصل ہے۔ حضرت علی پہلے امام تھے ،اور شیعوں کے نزدیک یہی ائمہ پیغمبر اسلام کے حقیقی وارثین و جانشین ہیں نیز ان کی نسل حضرت فاطمہ کی نسل کے ذریعے پیغمبرﷺ سے ملنی چاہیے اور انکا مرد ہونا لازمی ہے۔ تمام ائمہ اپنے سے گذشتہ امام کے بیٹے تھے ماسوائے حضرت امام حسین کے جو اپنے سے گذشتہ امام حضرت حسن کے بھائی تھے۔ بارہویں امام کا نام مہدی ہے جو شیعوں کے نزدیک زندہ اور غیبت کبریٰ میں ہیں اور قیامت قریب وہ بحکم خدا ظہور ہوکر دنیا میں انصاف لائیں گے۔ بارہ امامی اورعلوی شیعوں کا ماننا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی بارہ جانشیوں والی حدیث میں ان بارہ اماموں کا ذکر موجود ہے۔ تمام ائمہ کو شیعوں کے نزدیک غیر طبعی موت ہوئی سوائے امام مہدی کہ جو ان کے نزدیک غیبت کبریٰ میں زندہ ہیں۔ ان بارہ اماموں کے سلاسل بہت سے صوفی سلسلوں میں بھی موجود نظر آتی ہیں جن میں ان حضرات کو اسلام کے روحانی سربراہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بیغمبر خدا ص کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بعد 12 حاکم ہوں گے اس کے بعد آپ نے کوئی فقرہ کہا جس کو میں نہ سن سکا (میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا تو) میرے باپ نے کہا کہ پیغمبر ص نے یہ فرمایا کہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔[1]
رسول پاک ص فرماتے تھے کہ جب تک تم لوگوں کے اوپر 12 خلیفہ رہیں گے اس وقت تک یہ دین قائم رہے گا۔[2]
رسول خدا ص نے فرمایا: میرے بعد 12 سردار ہوں گے اور پیشوا ہوں گے وہ سب قریش ہی سے ہوں گے۔ [3]
مولانا شبیر احمد عثمانی سورہ المائدہ کی آیت 12 (اور مقرر کیے ہم نے ان میں {یعنی بنی اسرائیل} میں 12 سردار) کی تفسیر میں 12 خلفاء کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جابر بن سمرہ کی ایک حدیث میں نبی کریم ص نے اس امت کے متعلق 12 خلفاء کی پیشین گوئی فرمائی۔ ان کاعدد بھی نقبائے بنی اسرائیل کے عدد کے موافق ہے اور مفسرین نے تورات سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماعیل ع سے حق تعالیٰ نے فرمایا: میں تیری ذریت سے 12 سردار پیدا کروں گا۔ غالباَ یہ وہی 12 ہیں جن کا ذکر جابر بن سمرہ کی حدیث میں ہے“.[4]
علامہ ابن خلدون اپنے مقدمہ تاریخ میں پہلے چاروں خلفاء کے بعد امام حسن ع کو پانچواں خلیفہ تسلیم کرتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں:
“معاویہ چھٹے خلیفہ ہیں اور ساتویں عمر بن عبد العزیز ہیں۔ باقی پانچ خلفاء اہلیبیت میں سے اولاد علی ع میں سے ہوں گے۔[5]
اب ہم برصغیر کے بزرگ عالم دین مولانا وحید الزمان خان حیدرآبادی نے اس حدیث کی شرح میں جو کچھ لکھا ہے نقل کرتے ہیں۔ مولانا کا علمی مرتبہ کتنا بلند ہے۔ یہ مفسر قرآن بھی ہیں۔ ان کی بخاری شریف کی مفصل شرح نو ضخیم جلدوں میں کراچی سے چھپ چکی ہے۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم، ابی داؤد، ابن ماجہ، نسائی شریف اور موطا امام مالک کے شارح ہیں۔ ان کی لغات الحدیث نامی حدیث شریف کی مکمل لغت کئی ضخیم جلدوں میں چھپ چکی ہے اس کے علاوہ کئی کتب کے مصنف ہیں۔
انھوں نے بارہ خلفا والی حدیث کی شرح کرتے وقت کئی دفعہ اپنا بیان تبدیل کیا ہے۔ ہر بیان بڑا دلچسپ اور دوسرے سے مختلف ہے۔[6] مولانا کا پہلا بیان حاشیہ بخاری سے ملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیں:
“ یہ بارہ خلفاء آنحضرت ص کی امت میں گذر چکے ہیں حضرت صدیق رض سے لے کر عمر بن عبد العزیز تک 14 حاکم گذرے ہیں۔ ان میں سے دو کا زمانہ انتہائی قلیل رہا ہے۔ ایک معاویہ بن یزید اور دوسرا مروان ان کو نکال ڈالو تو وہی 12 خلیفہ ہوتے ہیں“۔[7]
سنن ابی داؤد میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے اپنے پہلے بیان سے دستبردار ہو جاتے ہیں اور لکھتے ہیں:
“بظاہر یہ حدیث مشکل ہو گئی ہے۔ علما پر کیونکہ چار ہی خلیفہ ایسے گذرے ہیں جن سے دین قائم ہوا اور کل یا اکثر امت نے اس پر اتفاق کیا۔ باقی خلفائے عباسیہ اور بنو امیہ تو ظالم اور جابر رہے اگرچہ اکا دکا ان میں بھی عادل اور متبع شرع تھے“.[8]
لغات الحدیث میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تیسرا بیان یوں دیتے ہیں کہ
“ ان خلیفوں کے تعین میں بڑا اختلاف ہے۔ امامیہ نے 12 ائمہ کو مراد لیا ہے اور اہلسنت کے علما کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ۔ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ 12 خلیفہ کون کون تھے؟ بہرحال 5 خلیفہ ابوبکر رض، عمر رض، عثمان رض، علی رض اور حسن بن علی رض تو ان 12 میں تھے۔ اب 7 باقی رہے ممکن ہے وہ فاصلہ کے سات پیدا ہوں اور ان میں سے کچھ گذر گئے ہوں۔ کچھ باقی ہوں۔ امام مہدی ع سے 12 کی تعداد پوری ہو جائے گی“.[9]
لغات الحدیث ہی سے مولانا وحید الزمان کا چوتھا بیان ملاحظہ فرمائیں۔ یہ ١٢ خلفاء کون کون سے ہیں؟ لکھتے ہیں:
“اہلسنت کے علما ان میں سے تراش خراش کرتے ہیں اور خلفائے راشدین کے بعد کچھ لوگوں کو بنو امیہ میں سے لیتے ہیں۔ کچھ عباسیہ میں سے جو ذرا اچھے اور عادل گذرے ہیں۔ ہم نے ھدیتہ المھدی میں لکھا ہے کہ ان ١٢ امیروں سے ائمہ اثنا عشر (بارہ امام) مراد ہیں اور امارت سے دینی پیشوائی اور سرداری مراد ہے نہ کہ حکومت ظاہری۔ وللہ واعلم“۔[10]
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ھدیہ المھدی کی وہ عبارت بھی نقل کی جائے جو مولانا وحید الزمان نے ائمہ اثنا عشر کے بارے میں لکھی ہے۔ واضح رہے کہ مولانا کی کتاب ھدیہ المھدی میور پریس دہلی سے 1325ھ میں شائع ہوئی تھی۔ مولانا وحید الزمان نے اس میں حضرت علی ع سے لے کر حضرت امام مہدی ع تک بارہ ائمہ کے نام لکھے ہیں اور بیان کیا ہے کہ اگر ہم ان کے زمانے میں ہوتے تو ان کے ساتھ ہوتے۔ ائمہ اثنا عشر کا ذکر کرنے کے بعد مولانا وحید الزمان لکھتے ہیں: “یہی بارہ امام ہمارے امام ہیں یہی لوگ امرا ہیں۔ حقیقت میں منتہی ہوئی ان کی طرف خلافت رسول خدا ص اور ریاست دین متین کی۔ یہی لوگ آفتاب آسمان یقین ہیں۔“ ([11]
آخر میں مولانا وحید الزمان خدا کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں کہ
“ خداوند ہمارا حشر نشر کرنا ائمہ اثنا عشر کے ساتھ اور ثابت قدم رکھ ہم کو روز قیامت تک ان کی محبت پر“۔[12]