پنجابی لوگ ہمہ اقسام کھیل کھیلتے ہیں۔ ان میں ہاکی اور کرکٹ سے لے کر کبڈی، کشتیاں اور کھدو کھوندی (ہاکی سے مشابہ کھیل) شامل ہیں۔ پنجاب میں 100 سے زائد روایتی کھیل موجود ہیں۔[1] بھارتی پنجاب کے لوگ کھیلوں میں خاص طور پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس چھوٹی سی ریاست میں 845 کھلاڑی ریاست کے محکمہ کھیل کے قائم کردہ مختلف کھیلوں کے تربیتی مراکز کے تحت کھیلوں پر اپنی پکڑ مضبوط کر رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ اپریل 2015ء میں حکومت پنجاب نے اسپورٹس اتھاریٹی آف انڈیا کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے ریاستی کھیلوں کی سہولتوں اور تربیتی مراکز میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماہرین کے مطابق سرکاری سطح پر تربیت یافتہ کھلاڑیوں کی تعداد آنے والے کچھ سالوں میں 1300 سے تجاوز کر جائے گی۔ اس سے ریاست میں کھیل کے پروان کے لیے زندہ تہذیب اور عوام میں کھیلوں کی جانب رغبت کا اندازہ ہوتا ہے۔[2]
پنجاب کے روایتی کھیلوں کے فروغ کے لیے بھارتی پنجاب کی ریاستی حکومت 2014ء سے پنجاب کے روایتی کھیلوں کو فروغ دینے کے اقدامات کر رہی ہے۔ ان کھیلوں میں کشتیاں جیسا ریاستی کھیل بھی شامل ہے۔[3]
پنجاب میں کھیلے جانے والے کھیل حسب ذیل ہیں۔
کرکٹ پنجابیوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ اس کھیل کی نظامت پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن کرتی ہے۔[4] کنگز ایلیون پنجاب موہالی میں تشکیل پانے والی ایک فرینچائزی ٹیم ہے جو انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلتی ہے۔
گتکا (پنجابی: ਗਤਕਾ) ایک روایتی جنوب ایشیائی مزاحمتی تربیت ہے جس میں لکڑی کی چھڑیوں کو تلوار کے طور پر مقابلے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ پنجاب کا ریاستی کھیل ہے۔
پنجاب 2010ء سے عالمی کبڈی کپ میں رابطے کا کام کر رہا ہے جو پنجاب گولائی دار طرز پر مبنی ہے۔ 2014ء میں مردوں کا عالمی کپ بھارت اور پاکستان کے بیچ کھیلا گیا تھا جسے بھارت نے 45-42 سے جیتا تھا۔[5] خواتین کا مقابلہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے بیچ کھیلا گیا تھا جسے بھارت نے 36-27 سے لگاتار دوسری بار جیتا تھا۔
اختتامی جلسہ گرو گوبند سنگھ اسٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا۔ مشاہیر میں عارف لوہار، مس پوجا، گِپی گریوال اور ستیندر ستی شامل تھے۔ امریکی موٹر سائیکل سوار نے بھی اس موقع پر اپنے کرتب دکھائے تھے۔[6]
عالمی کبڈی لیگ 2014ء میں متعارف ہوئی۔[7] یہ لیگ پنجاب کی کبڈی کے طے شدہ اصول اور رہنمایانہ خطوط پر عمل پیرا ہے، [8] جیساکہ گولائی دار کبڈی کی تعریف طے کی گئی ہے۔[9] یہ لیگ چار ممالک میں اگست 2014 سے دسمبر 2014ءکے بیچ مقابلے کروا چکی ہے۔[10] .
لمبی کودّی (پنجابی: ਲੰਬੀ ਕੌਡੀ) میں [11] پندرہ کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ایک گولائی دار پِچ بھی 15–20 فٹ کی ہوتی ہے۔ باہری حدود نہیں ہوتے، کھلاڑی ہر جگہ دوڑ سکتے ہیں۔ کوئی حکم (ریفری) نہیں ہوتا۔ مداخلت کار اپنے حملے کے دوران "کودّی، کودّی" کہتا رہتا ہے۔
سونچی کودّی (پنجابی: ਸੌਚੀ ਕੌਡੀ) [11] (اسے سونچی پکی/پنجابی: ਸੌਚੀ ਪੱਕੀ بھی کہا جاتا ہے) مکے بازی کے مشابہ ہے۔ یہ پنجاب کے مالوہ علاقے میں بے حد مقبول ہے۔ اس میں بے شمار کھلاری کھیل کے گولائی دار پِچ پر ہوتے ہیں۔ ایک بمبو جس پر لال رنگ کا کپڑا ہوتا ہے زمین میں گاڑھ دیا جاتا ہے، جس کے آگے جیتنے والا گشت کرتا ہے۔
سونچی کودّی میں مداخلت کار مدافعت کنندے کی صرف سینے پر زد لگائے گا۔ مدافعت کنندہ اس کے بعد مداخلت کار کا ہاتھ پکڑے گا۔ کھیل کی خطا کا اعلان ہو گا اگر جسم کے کوئی اور حصے کو پکڑا جائے۔ مدافعت کنندہ مداخلت کار کا ہاتھ پکڑکر اس کی حرکات پر روک لگاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ فاتح قرار پائے گا۔ اگر مداخلت کار مدافعت کنندے کی گرفت سے باہر آئے گا تو وہی فاتح قرار پائے گا۔[11]
"گونگی کبڈی" (پنجابی: ਗੂੰਗੀ ਕਬੱਡੀ) ایک مقبول طرز ہے۔ یہاں مداخلت کار گفتگو کچھ نہیں کرتا مگر مخالف ٹیم کے کھلاڑی کو چھوتا ہے۔ جسے وہ چھوتا ہے، وہی کھلاری اسے روکنے کی کوشش کرے گا۔ یہ جدوچہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ خطِ آغاز تک پہنچ نہ جائے یا اپنی شکست تسلیم نہ کرے۔ دوسری صورت میں وہ ایک پوائنٹ کھودے گا جبکہ خطِ آغاز تک پہنچنے کی صورت میں ایک پوائنٹ جیتے گا۔[12]
ہاکی پنجاب کا ایک مقبول کھیل ہے۔ ریاست کی اپنی ٹیم پنجاب واریئرس ہاکی موجود ہے۔
دوسری ٹیم شیر پنجاب موجود ہے جو جالندھر میں تشکیل پانے والی پیشہ ورانہ ہاکی ٹیم ہے۔ اس نے عالمی سیریز ہاکی میں حصہ لیا تھا۔
بھارتی پنجاب میں فٹ بال کی نظامت پنجاب فٹ بال ایسوسی ایشن کرتی ہے جو قومی نظامت کے ادارے آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن سے ملحقہ ہے۔
کئی روایتی کھیل ہیں جنہیں بچے اور بڑے کھیلتے ہیں۔ ہاکی اور کرکٹ کی مقبولیت کی وجہ سے کچھ روایتی کھیلوں کا رواج کم ہو چکا ہے۔[11] تاہم ان کھیلوں کا پھیلاؤ کافی وسیع ہے اور اس مضمون میں ان میں سے چند کا احاطہ کیا گیا ہے۔
کسی کھیل کو کھیلنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے لیے کپتان منتخب ہو جسے داعی، میٹی پیٹ کہا جاتا ہے۔ کپتان کے انتخاب کا ایک طریقہ جو بچے استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ سارے کھلاڑی ایک درخت کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ ایک کھلاڑی دائرے میں یہ گاتے ہوئے جاتا ہے:
اینگن
تالی تلینگن
کالا
گڑ کہاوا بیل وادھوا
مول لی پترا
پترا گھوڑے آیا
ہاتھ کُتار ہی پر کُتار ہی
نکل تیری واری[11]
ਏਂਗਣ ਮੇਂਗਣ
ਤਲੀ ਤਲੈਂਗਣ
ਕਾਲਾ ਪੀਲਾਂ ਡੱਕਰਾਂ
ਗੂੜ ਖਾਵਾਂਂ ਬੇਲ ਵਧਾਵਾਂ
ਮੂਲੀ ਪੱਤਰਾਂ
ਪੱਤਰਾਂ ਵਾਲੇ ਘੋੜੇ ਆਏ
ਹੱਥ ਕੁਤਾੜੀ ਪੈਰ ਕੁਤਾੜੀ
ਨਿਕਲ ਬੱਲੀਐ ਤੇਰੀ ਵਾਰੀ
[11]
ایسا کہ کرایک ایک کھلاڑی کا باری باری سے انتخاب ہوتا ہے۔ جو آخری میں رہ جاتا ہے، وہ کپتان بنتا ہے۔
ہاکی کے مشابہ اس کھیل میں چِندیوں اور چھڑی سے بنے گیند کا استعمال ہوتا ہے جس کے کونے میں ایک فطری خم دار لکیر ہوتی ہے۔ چھڑی عمومًا درخت کی شاخ ہوتی ہے۔[13]
یہ کرکٹ سے ملتا جلتا ہے۔ گلی ڈنڈا ایک کم تربیت یافتہ لوگوں کا کھیل ہے۔ یہ دیہی پنجاب میں بے حد مقبول ہے۔ اس کھیل کو لڑکے انفرادی طور پر اور ٹیم واری اندازمیں کھلاڑیوں کی موجودگی کے حساب سے کھیلتے ہیں۔۔ اس کھیل کو کئی طریقوں سے کھیلا جا سکتا ہے جس کا انحصار ان اصولوں پر ہے جو کھیل کے شروع میں وضع ہوں۔ اس کھیل میں ایک سخت چھڑی جو تقریبًا تین فیٹ لمبی اور ایک چھوٹی سے لکڑی کا پرزہ جس کے تیز کونے ہوں، استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لکڑی کا ٹکڑا سے گُلی کہا جاتا ہے، چھڑی (ڈنڈے) سے ماری جاتی ہے۔ مخالف ٹیم کو اڑتی لکڑی کو پکڑکر رواں کھلاڑی کو آؤٹ کرنا ہوتا ہے۔[14]
یہ رسی کو دو ٹیموں کی جانب سے کھینچنے کا کھیلنا ہے۔ حالانکہ یہ مردوں کا کھیل ہے، یہ کھیل کبھی عورتوں کی جانب سے بھی کھیلا جاتا ہے۔[11]
کچھ لڑکے ایک درخت کے آگے جمع ہوتے ہیں۔ 2 ½ فیٹ کے قطر والا دائرہ اتارا جاتا ہے۔ اس دائرے میں ایک چھوٹی چھڑی رکھ دی جاتی ہے۔ ایک لڑکا چنا جاتا ہے تاکہ اس چھڑی کو چن کر جس قدر دور ہو سکتے اٹھا کر پھینکے اپنے پیروں کے نیچے جھکتے ہوئے۔ ایک اور لڑکے کو چنا جاتا ہے کہ وہ اس چھڑی کو چنے۔ اس دوران سبھی لڑکے درخت کی جانب بھاگتے ہیں۔ وہ لڑکا جو چھڑی کو جمع کرتا ہے، اسے اس دائرے میں رکھتا ہے۔ دوسرے لڑکے اس چھڑی کو اس لڑکے۔ کی جانب سے پکڑے جانے سے پہلے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ لڑکا جو اس چھڑی کو یہاں رکھے کسی دوسرے لڑکے کو چھولے، تب چھوئے جانے والے لڑکے کو میدان میں رہ کرایک اور کھلاڑی کو چھونا ہوتا ہے۔ اگر کو کھلاڑی چھڑی کو اصل کھلاڑی سے پہلے اٹھالے، تو یہ کھیل یہیں ختم ہوتا ہے اور نئے کھیل کا آغاز ہوتا ہے مگر اصل کھلاڑی ہی کو کسی دوسرے کھلاری کو چھونا ہوتا ہے۔[11]
لڑکے اس کھیل کو موسم سرما میں ایک کھمبا گاڑھ کر یہ کھیل کھیلتے ہیں اور اس سے ایک چار فٹ لمبی رسی جوڑتے ہیں۔ سبھی لڑکے اس کھمبے کے پاس اپنے جوتے اتارتے ہیں۔ رسی کو تھامنے والا (کلیدی کھلاڑی) دیگر لڑکوں کو ان کے جوتے حاصل کرنے سے روکتا ہے۔[11] اس کھیل میں اگر کوئی کھلاڑی دوسرے کھلاڑی کو چھوتا ہے تو وہ کھلاڑی کلیدی کھلاڑی (بندر) بن جاتا ہے اور یوں کھیل آگے بڑھتا رہتا ہے۔...[15]
یہ نوعمر لڑکوں کا کھیل ہے۔ لڑکے دو ٹیم بناتے ہیں۔ اول ٹیم ثانی سے دریافت کرتی ہے: گاؤں کے کس گھر میں 3 (x) یا 4(y) ہیں؟
اگر زیرسوال ٹیم صحیح جواب پیش کرتی ہے تو وہ جیتتی ہے۔ اگر نہیں تو شکست خوردہ ٹیم کو فاتح لڑکوں کو اپنی کمروں بٹھاکر پر سوال میں شامل گھروں تک لے جانا پڑتا ہے۔[11]
اس کھیل کو بہ یک وقت کئی کھلاڑی کھیل سکتے ہیں۔ یہ کھلاڑی ایک کلیدی کھلاڑی (داعی) کو چنتے ہیں۔ کھلاڑی نرم زمین کا انتخاب کرتے ہیں اور 9” چوڑے اور 6” گہرے گڑھے کھودتے ہیں۔ ہر گڑھا کھوٹی کہلاتا ہے۔ کھلاڑیوں کے مساوی کڑھے ہوں گے۔ کھیل کے میدان کے بیچ ایک وسیع تر گڑھا کھودا جاتا ہے جسے رب دی کھُوٹی یا رب کا گڑھا کہا جاتا ہے۔
داعی ہوا میں چِندیوں سے بنی ایک گیند کو پھینکتا ہے۔ اس کو پکڑنے والے کھلاڑی کو داعی اٹھاکر لے جاتا ہے تاکہ وہ داعی اسے گڑھے میں کِک کرے۔ اگر وہ ایسا کر سکتا ہے، تو یہ دو کھلاڑیاں کھیل میں اپنی جگہیں بدل دیتے ہیں۔ پھر داعی کو اٹھا لیا جاتا ہے تاکہ دوسرے کھلاڑیوں کو گیند پر کک مارنے کا موقع ملے۔ اگر کھلاڑی کسی دوسرے کھلاڑی کے گڑھے میں گیند ڈال دے، تو بھی جگہیں بدل جاتی ہیں۔ یہ بات سارے کھلاڑیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر گیند رب دی کھوٹی میں گرے تو وہ کھلاڑی جو یہ گیند اندر ڈالے دوسرے کھلاڑیوں کو اندر لینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ سبھی کھلاڑی زد میں آنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک کھیل کو زمین پر چوکور خانوں کے مجموعے کی شکل میں کھیلا جاتا ہے جن کی پیمائش 25 میٹر ہر کونے پر ہوتی ہے۔ ہر خانے مساوی پیمائش کے اتارے جاتے ہیں جن کے کونوں میں دو میٹر کی پٹی چھوڑدی جاتی ہے۔ اس مجموعے کے مرکز میں ایک پانچواں مربع ریت کے ڈھیر یا مٹی (مٹی دی ڈھیر (پنجابی: ਮਿਟੀ ਦੀ ਢੇਰੀ)) سے بھر دیا جاتا ہے۔ یہ نمک کی علامت ہے۔ اس مصورہ مجموعے کے باہر ایک اور خانہ شمالی کونے پر مرکزمیں اتارا جاتا ہے جو ایک گودام کی علامت ہے، اسے صندوق (پنجابی: ਸੰਦੂਕ) کہا جاتا ہے۔[11]
کلیدی کھلاڑی کو چنا جاتا ہے تاکہ نمک کو مرکزی مربع میں منتقل کیا جائے۔ دیگر کھلاڑی نمک حاصل کر کے راستوں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کلیدی کھلاڑی کا کام دیگر کھلاڑیوں کو پکڑنا ہے۔
کھیل شروع کرنے کے لیے ایک کھلاڑی کلیدی کھلاڑی کے ہاتھ چھوتا ہے اور وہ بھاگ کر چھوئے جانے سے بچ جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر دیگر کھلاڑی چار خانوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ قتل کیے جائیں گے اور "مدین" (پنجابی: ਮਦੀਨ) قرار دیے جاتے ہیں۔ کلیدی کھلاڑی ٹریک پر پیچھے نہیں جا سکتا ہے، جب تک کہ وہ ٹریک پر رہتے ہوئے کونے کے خانے تک نہ پہنچے۔ وہ خانوں کے مجموعے کے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔
وہ کھلاڑی جو نمک لے کر گودام کے اطراف بھاگتے ہیں وہ " نر" قرار دیے جاتے ہیں۔ پکڑے گئے کھلاڑی "مدین" بن جاتے ہیں۔ کلیدی کھلاڑی دیگر کھلاڑیوں کو پکڑنے کے بعد " نر" بن جائے گا۔ بہ صورت دیگر وہ "مدین" ہوگا۔ جب سارے کھلاڑی " نر" یا "مدین" بن جائیں گے، کھیل ختم ہو جائے گا۔
اس موقع پر، وہ کھلاڑی جو گودام کا علاقہ پار کریں گے اور " نر" بن چکے ہوں گے، وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں گے۔ ان سے 25 میٹر دو "مدین" زمرے کے لوگ قطار بنائیں گے۔ " نر" کھلاڑی "مدین" زمرے کے لوگوں سے پوچھیں گے: "بِل بچیا دی ماں، روٹی پکی اَے کی نہ؟" (ترجمہ: بِل کی ماں، کیا روٹیاں تیار ہیں؟) (پنجابی: ਬਿਲ ਬਚਿਆ ਦੀ ਮਾਂਂ. ਰੋਟੀ ਪਕੀ ਏ ਕਿ ਨਾ؟) اس موقع پر آگے آچکے "مدین" لوگ اگر نفی میں جواب دیں گے تو " نر" زمرہ یہی سوال دہرائے گا تاوقیکہ "مدین" زمرے کے لوگ ہاں میں جواب دیں۔ اس موقع پر سارے کھلاڑی ایک دوسرے کو پکڑے آگے بڑھیں گے۔ "مدین" کھلاڑی جنہیں " نر" کھلاڑی پکڑیں گے مرکزی مربع میں لائے جائیں گے۔ کھیل پھر سے شروع ہو گا مگر اس بار کلیدی کھلاڑی وہ ہو گا جو پہلے "مدین" بن چکا ہو۔[11]
اس کھیل کو کچھ لڑکیاں کپڑے کی سات پرتوں سے بنی گیند سے کھیلتی ہیں۔ اس گیند کو ایک ہاتھ پر اچھالا جاتا ہے جب لڑکی گنگنا رہی ہوتی ہے۔ وہ لڑکی جو سب سے زیادہ گائے فاتح قرار پاتی ہے۔[11]
ککلی ایک اور کھیل ہے جو بنیادی طور پر لڑکیوں کے لیے ہے۔ دو لڑکیاں اپنے ہاتھوں کو پکڑکر دائرے میں گھومتی ہیں۔ اس کھیل کو جسے ککلی کہا جاتا ہے، دو یا چار لڑکیوں یا ان کے مضروبہ اعداد کی جانب سے کھیلا جاتا ہے۔ ایک مقبول گیت یہ ہے:
ککلی کلیر دی
پگ میرے ویر دی
دوپٹا میرے بھائی دا
پھِٹے منہ جوائی دا
ਕਿਕਲੀ ਕਲੀਰ ਦੀ
ਪੱਗ ਮੇਰੇ ਵੀਰ ਦੀ
ਦੁਪੱਟਾ ਮੇਰੇ ਭਾੲੀ ਦਾ
ਫਿਟੇ ਮੂੰਹ ਜੁਵਾੲੀ ਦਾ
اس کھیل کو لڑکیوں کی دو ٹیموں کی جانب سے کھیلا جاتا ہے جس میں چھ چھ کھلاڑی ہوتے ہیں۔ پہلی ٹیم سے دو لڑکیاں فرش پر بیٹھتی ہیں۔ ان کے پاؤں سیدھے ہوتے ہیں اور ان کے پاؤں ایک دوسرے کو لگتے ہیں۔ دوسری ٹیم سے ایک لڑکی پہلی ٹیم کی لڑکی کے پاؤں پر چھلانگ لگاتی ہے، بنا انھیں چھوئے۔ اگر وہ کامیاب ہو جائے تو پہلی ٹیم سے دو لڑکیاں اس کی ٹیم میں شامل ہوجائیں گی۔ اس طرح اگلے کھلاڑی کے جھلانگ مارنے کا علاقہ اور وسیع ہو جائے گا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک پہلی ٹیم کی ساری لڑکیاں چھلانگ نہ مار چکی ہوں۔ اس کے بعد پہلی ٹیم کی کھلاڑی لڑکیاں زمین پر بیٹھتی ہیں اور دوسری ٹیم والوں کو چھلانگ لگانا ہوتا ہے۔[11]
کچھ کنکر، پتھر یا ٹوٹے مٹی کے برتن مزید ٹکڑے کر کے گھیٹا پتھر کھیلنے کے کام آسکتے ہیں۔ کھلاڑی ایک دائرہ فرش پر اتارتے ہیں اور 5 ٹکڑے دائرے میں پھینکتے ہیں۔ اس کھیل کا مقصد یہ ہے کہ ہر پتھر کو ہوا میں پھینکا جائے اور اس گرنے سے پہلے دیگر پتھروں کو چھوئے بنا اسے پکڑنا۔ کھلاڑی پر لازم ہے کہ وہ ہر پتھر کو ایک ہاتھ سے پکرے۔[11]
اسے اڈّا کھڈّا بھی کہتے ہیں۔ اس کھیل میں زمین پر 8 تا 10 خانے اتارے جاتے ہیں۔ سیدھے سے شروع کر کے خانوں پر نمبر لگائے جاتے ہیں اس طرح سے کہ دائیں طرف کے خانے نمبر پانچ میں ایک ترچھی لکیر اترجائے۔[11]
کھلاڑی لڑکی خانہ نمبر ایک پر پتھر پھینکے گی اور اس پر اچھل کر آئے گی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ پتھر مطلوبہ خانے سے باہر نہ آئے۔ جب وہ خانہ نمبر پانچ پر آئے گی، وہ دونوں پاؤں اسی خانے میں رکھ کر آگے کے خانوں میں جانا ہوگا۔
کچھ لڑکیاں ایک دائرے میں ٹھہرکر بازوؤں کو جوڑتی ہیں۔ ایک لڑکی درمیاں میں ہوتی ہے۔ دائرے کا علاقہ سمندر سمجھا جاتا ہے۔ دائرہ بنا رہی لڑکیاں بیچ میں کھڑی لڑکی سے باری باری سے پوچھتے ہیں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ وہ کہے گی ٹخنوں جتنا اور تب یہ لڑکیاں کہیں گی گھٹنے جتنا، ہاتھ تک، گردن تک پھیلاہؤا اور پھر "میں ڈوب رہی ہوں۔" اس کے بعد یہ لڑکی زمین پر گرجائے گی۔ دوسری لڑکیاں دائرہ توڑکر اسے بچائیں گی۔ یہ کھیل دوبارہ شروع ہو گا اور دوسری لڑکی درمیان میں ہوگی۔[11]
لڑکیاں قافیے کھیڈو (گیند) کے ساتھ گاتی ہیں، دراصل یہ قافیے اور کھیل بچوں کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ یہ سلسلے دن بھر اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب دس کی گنتی اور دسواں گیت نہ گایا جائے۔[16]
پنگُڑھا ایک کھیل ہے جسے کم عمر لڑکیاں کھیلتی ہیں۔ عمومًا اس کھیل میں آٹھ کھلاڑی لڑکیاں ہوتی ہیں جن میں سے چار فرش پر بیٹھکر اپنے پاؤں ایک دوسرے کو چھونے دیتی ہیں۔ کھڑے رہنے والی چار کھلاڑی لڑکیاں فرش پر موجود لڑکیوں کے ہاتھ پکڑتی ہیں اور بائیں ہاتھ اور سیدھے ہاتھ کو دھیمی رفتار سے گھماتی ہیں۔ یہ حرکات رفتہ رفتہ تیز ہوتی ہیں جس سے بیٹھی ہوئی لڑکیوں کو زمین پر بیٹھ کر سواری کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ کھڑی رہنے والی لڑکیاں تب بیٹھی لڑکیوں کی جگہ لیتی ہیں اور کھیل یوں ہی جاری رہتا ہے۔[11]
اسے اکثر لڑکے کھیلتے ہیں۔
یہ گولیوں کا کھیل ہے۔
یہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں جانب سے کھیلا جاتا ہے۔ اسے عمومًا دو ٹیموں کی جانب سے کھیلا جاتا ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ عمودی لکیریں اتارنا ہوتا ہے۔[16]
یہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں جانب سے کھیلا جاتا ہے۔ یہ کھیل ایک چھوٹے صحن میں کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل میں ایک چھوٹی حدبندی والا میدان ایک پتھر کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔[16]
پنجاب چیس ایسوسی ایشن پیشہ ورانہ طور پر کھیل کی نظامت کرتی ہے۔[17]
یہ بھی ایک ہمہ جنس کھیل ہے۔ اس کے لیے دو ٹیم درکار ہیں۔ ایک ٹیم چھپتی ہے اور دوسری انھیں تلاش کرتی ہے۔ مگر اس سے پہلے ایک آواز لگائی جاتی ہے۔[16]
یہ بھی ایک ہمہ جنس بچوں کا کھیل ہے۔ بچے دائرے بناکر بیٹھتے ہیں اور وہ بچہ جس کے ہاتھ میں کپڑا ہوتا ہے دائرے میں گاتے ہوئے گھومتا ہے: یہ ایک طرح کی دھمکی ہوتی ہے دائروں میں بیٹھے بچے پیچھے مڑکر نہ دیکھیں۔ اس کپڑے کو بچے کے پیچھے گرادیا جاتا ہے۔ اگر یہ پھینکنے والے بچے کو بچے دوسرا بچہ پھینکنے کے دوران دیکھ لے، تو وہ اسے پکڑسکتا ہے اور یہ بچہ اس بچے کی جگہ لے لے گا۔[16]
اس کھیل کے دوران گایا جانے والا گیت اس طرح ہے:
کوکلا چپاکی جمعرات آئی اے
جیرا اگے پچے ویکھے
اودی شامت آئی اے
مطلب:.[18]
کوکلا چپاکی، آج جمعرات ہے "
جو یہاں وہاں دیکھے گا
سزا پائے گا۔
ਕੋਕਲਾ ਚਪਾਕੀ ਜੁਮੇ ਰਾਤ ਆੲੀ ੲੇ
ਜੈਹੜਾ ਅਗੇ ਪਿਛੇ ਦੇਖੇ
ਉਹਦੀ ਸ਼ਾਮਤ ਆੲੀ ਏ
یہ کھیل بچوں کے دو گروپوں کی جانب سے کھیلا جاتا ہے۔ ایک گروپ گیدڑ (پنجابی: ਗਿੱਦੜ)) بنتا ہے۔ جبکہ دوسرا چوگیان (پنجابی: ਚੋਗੀਆ)) یا کپاس چننے والوں کا ہوتا ہے۔ چوگیان یہ گاتے ہیں اور اپنے ارکان کو بلاتے ہیں کہ وہ کھیتوں میں آئیں مگر یہ بھی آگاہ کرتے ہیں کہ آگے گیدڑ موجود ہیں۔
ਅੱਲੀਏ ਪਟੱਲੀਏ
ਕਪਾਹ ਚੁਗਣ ਚੱਲੀਏ
ਮੂਹਰੇ ਬੈਠੇ ਗਿੱਦੜ
ਪਿਛਾਂਹ ਮੁੜ ਚੱਲੀਏ
الیے پٹالیے
کپاہ چُگن چلیے
موہرے بیتھر گیدڑ
پیچھاہ مڑ چلیے
چوگیان ٹیم ایک لائن کے اوپر سے کود کر کھیت سے کپاس چننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ گیدڑ اس ٹیم کا تعاقب کرتے ہیں۔ اگر یہ گیدڑ دوسرے ٹیم کے کھلاڑ کو پکڑلیتے ہیں، وہ کھلاڑی بھی گیدڑ بن جائے گا۔ جب سب گیدڑ بن جائیں گے تو کھیل پھرسے شروع ہوگا۔[11]
اس کھیل میں تقریبًا 15 بچے حصہ لیتے ہیں۔ کلیدی کھلاڑی زمین پر بیٹھتا ہے اور باقی لوگ اُس کے اردگرد ایک دائرہ بناتے ہیں اور اپنی مٹھیوں کو ایک دوسرے کی مٹھیوں کے اوپر کرتے ہیں۔ پھر وہ بچے کلیدی کھلاڑی سے پوچھتے ہیں:[11]
ਭੰਡਾ ਭੰਡਾਰੀਆ
ਕਿੰਨਾ ਕੁ ਭਾਰ
بھانڈا بھنڈاریا
کِنا کو بھار
ترجمہ:
بھانڈا بھنڈاریا
وزن کیا ہے؟
کلیدی کھلاڑی کا جواب یوں ہوگا:
ੲਿਕ ਮੱਠੀ ਚੁੱਕ ਲੈ
ਦੂੲੀ ਤਿਆਰ
اک مٹھی چُک لائی
دوئی تیار
ترجمہ:
اک مٹھی اٹھاؤ
دوسری تیار ہے
جیسے ہی آخری کھلاڑی اپنی مٹھیوں کو اٹھاتا ہے، سبھی بچے یہ گاتے ہوئے بھاگتے ہیں:
ਹਾੲੇ ਕੁੜੇ ਦੰਦੲੀਆ ਲੜ ਗਿਆ
ਬੂੲੀ ਕੁੜੇ ਦੰਦੲੀਆ ਲੜ ਗਿਆ
ہائے کُڑھے ڈنڈایا لڑھ گیا
بوئی کُڑھے ڈنڈایا لڑھ گیا
ترجمہ:
میں کاٹا جاچکا ہوں
میں کاٹا جاچکا ہوں
اس کے بعد کلیدی کھلاڑی دوسروں کے پیچھے بھاگے گا اور کسی دوسرے کھلاڑی کو پکڑے گا تاکہ کھیل پھر سے شروع ہو۔[11]
کوکا کنگڑے میں بچوں کے دو گروہ بنتے ہیں: ایک گروہ مالکوں کا اور دوسرا نوکروں کا۔ کھلاڑیوں کی تعداد یا ان کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔[11]
اس کھیل کو کھیلنے کے لیے گاؤں کی گلی کو برابر حصوں بانٹا جاتا ہے، جسے ہر گروہ استعمال کرتا ہے۔ ہر گروہ گھروں کے پوشیدہ حصوں پر زیادہ سے زیادہ لکیریں اتارے گا۔ مقصد یہ ہے کہ مخالف ٹیم کو ان لکیروں کو پانے سے روکنا۔
دونوں ٹیمیں گلی کے مرکزی حصے میں داخل ہوتے ہیں۔ ہر ٹیم کا ایک کھلاڑی “کوکا کنگڑے” (پنجابی: ਕੂਕਾਂ ਕਾਂਘੜੇ) یا “پٹ پٹیلے” (پنجابی: ਪਟ ਪਟੀਲੋ) کہے گا۔ اس موقع پر دونوں گروہ لکیریں اتارتے ہیں۔
وہ گروہ جو پہلے لکیریں اتارنا ختم کرتا ہے، ایک کھلاڑی کو مرکز میں بھیجے گا تاکہ وہ “کوکا کنگڑے” یا “پٹ پٹیلے” پکارے۔ اس موقع پر سبھی کھلاڑی لکیریں اتارنا روک دیتے ہیں۔
دونوں ٹیمیں گلی کے مخالف ٹیم والے حصے پر آتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ دوسری ٹیم کی اتاری گئی لکیروں کو ڈھونڈ نکالا جائے اور ان لکیروں کو کاٹنے والی لکیریں اتاری جائیں۔ اس کام کے بعد ٹیمیں نقطۂ آغاز پر جمع ہوتی ہیں۔
دونوں گروہ گنتی کریں گے کہ ان کی کتنی لکیریں کاٹ دی گئی ہیں اور کتنی بے نشان رہ گئی ہیں۔ جیتنے والی ٹیم وہ ہو گی جو سب سے زیادہ غیر نشان زدہ لکیریں پیش کرسکتی ہو۔
اسے پِٹُھو گرم بھی کہا جاتا ہے۔[19]
پتنگ بازی خاص طور پر عمومی تہوار جیسے کہ بسنت اور لوہڑی میں بے حد مقبول ہے۔ لوہڑی میں پتنگ بازی پنجاب کے کچھ حصوں میں بے حد مقبول ہے۔ لوگ چھتوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور مختلف چھوٹی بڑی اور رنگ برنگی پتنگیں اڑاتے ہیں۔
اونٹوں اور بیل گاڑیوں کے مقابلے، مرغوں کی لڑائیاں، کبوتربازی، چکورے بازی اور بٹیربازی جیسے مقابلے پنجاب میں منعقد ہوتے ہیں۔
چوپڑھ ایک بے حد قدیم کھیل ہے۔ اس بات کا بھی حوالہ موجود ہے کہ یہ کھیل مہابھارت کے دور میں بھی مقبول تھا۔ مزید یہ کہ راجا رسالُو میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک شہزادے نے چوپڑھ کھیلا تھا۔
چوپڑھ کو چوپٹ اور سارا پسا (پنجابی: ਸਾਰਾ ਪਾਸਾ) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کھیل میں انہماک کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چار کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ اگر زائد کھلاڑی موجود ہوں تو چار چار لوگوں پر مشتمل ٹیمیں بنائی جاتی ہیں اور ہر ٹیم میں دونوں جانب دو دو کھلاڑی ہوتے ہیں۔ اس کھیل کے حسب ذیل کی ضرورت ہوتی ہے:[11]
ایک کھلاڑی کوڑیوں کو ہوا میں اچھالتا ہے تاکہ “پاؤ” (پنجابی: ਪਾਉ) کا حصول ممکن ہو۔ یہ اس طرح ممکن ہے:
گوٹا (رنگین کپڑا) اس طرح حرکت میں لایا جا سکتا ہے:
چوپڑھ پر رنگین گوٹا حرکت میں لانے کے لیے ایک پاؤ ضروری ہے۔ اگر ایک کھلاڑی ایک پاؤ رکھتا ہے تو وہ چوپڑھ پر ایک گوٹا حرکت میں لا سکتا ہے۔ اگر اس کے پاس دو پاؤ ہوں، تو خانے آگے بڑھ سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مخالف کو گوٹا کو "ختم" کیا جائے۔ اس کے لیے مخالف اتنے ہی پوائنٹ حاصل کرتا ہے جتنے کہ گوٹے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر گوٹے کو "ختم" نہیں کیا جا سکتا، تو وہ اس مربع پر رہے گا جہاں چرخہ موجود ہو۔
اس کھیل کو زمین پر کئی خانوں کے مجموعے کو اتارکر کھیلا جاتا ہے۔ اس میں 5 صفیں اور 5 قطاریں اتاری جاتی ہیں جن سے 25 مربع جات بنائے جاتے ہیں۔ اوپری اور نچلی صفوں پر ایک درمیانی خانہ ہوتا ہے، جسے کاٹ (X) کا نشان لگایا جاتا ہے۔ ایضًا مرکزی خانے کو بھی کاٹ (X) کا نشان لگایا جاتا ہے۔[11]
دو سے چار کھلاڑی اس کھیل کو کوڑیوں (پنجابی: ਕੌਡੀਆਂ) کی مدد سے کھیل سکتے ہیں۔ ایک کھلاڑی کوڑیوں کو زمین پر پھینکے گا۔ اگر ایک کوڑی سیدھے گرے اور تین اوندھی، کھلاڑی ایک جگہ آگے بڑھ سکتا ہے اور اگلے خانے میں داخل ہو سکتا ہے۔ اگر تین سیدھی گریں اور ایک اوندھی، کھلاڑی تین خانے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اگر کوڑیاں اوندھی گریں، کھلاڑی آٹھ خانے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اگر چار کوڑیاں سیدھی گریں، کھلاڑی چار خانے آگے بڑھ سکتا ہے۔
اگر ایک کھلاڑی آٹھ خانے آگے بڑھے، وہ کوڑیاں پھر سے اچھال سکتا ہے۔ اگر چار کوڑیاں اوندھی گریں، تو وہ کھلاڑی پھر سے کوڑیاں اچھال سکتا ہے۔ اگر تیسری بار اچھالنے پر کھلاڑی کی ساری کوڑیاں زمین پر اوندھی گریں، تو وہ کھلاڑی پھر سے پہلے خانے پر جاکر پھر سے کھیل سکتا ہے۔
یہ کھیل خانوں کے مجموعے کے اطراف پھر سے جاکر درمیانی خانہ پہنچ کر پھر سے شروع ہوتا ہے۔
یہ کھیل پنجاب میں کھیلا جاتا ہے۔[11] یہ ایک قدیم کھیل ہے جسے دو لوگ کھیلتے ہیں۔ اس کھیل کا مقصد یہ ہے کہ مخالف کھلاڑی کے ٹکڑوں پر چھلانگ لگاتے ہوئے انھیں ختم کیا جا سکے۔
اس کھیل کو بہ یک وقت صرف دو کھلاڑی کھیل سکتے ہیں۔
بورڈ دونوں طرف چار چار خانوں کے مجموعے رکھتا ہے۔ اس میں ایک ہیرے کی شکل کا مربع ہو تا ہے اور ایک X کا نشان ہوتا ہے۔ یہ ہیرا چاروں طرف کے درمیانی نکات کو گھیرتا ہے، جبکہ X کا نشان ان چاروں طرفوں کو خانوں کے مجموعے کے ختم تک لے جاتا ہے۔ ہر کھلاڑی کے دس ٹکڑے (حصے) ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک، ایک لکڑی کے ٹکڑا رکھتا ہے اور دوسرا، بارہ پتھر۔[21]
متبادل طور پر، ہر کھلاڑی بارہ گوٹیاں رکھ سکتا ہے اور ہر کھلاڑی کو گوٹیوں کا رنگ مختلف ہو سکتا ہے۔ ہر بارہ گوٹیوں کے سیٹ کو گوٹا (پنجابی: ਗੋਟਾ) کہا جاتا ہے۔ حالانکہ گوٹیوں کے رنگ کی کوئی قید نہیں ہے، تاہم ہر کھلاڑی کے پاس ایک ہی رنگ کی گوٹیاں ہونا چاہیے۔
دونوں کھلاڑیوں کی گوٹیاں سطری انقطاعی نکات پر رکھ دی جاتی ہیں۔ ان کے مرکز میں ایک خالی جگہ رہتی ہے۔
پنجاب میں اس کھیل کو زمین پر خانوں کے مجموعوں کو اتارکر بھی کھیلا جا سکتا ہے۔[11]
اس کھیل کا مقصد مخالف کھلاڑی کے ٹکڑوں (گوٹیوں) کو ختم کرنا ہے۔ کھلاڑی باری باری سے گوٹیوں کو حرکت میں لاتے ہیں۔ ہر باری میں گوٹی ایک قدم آگے ہو سکتی ہے یا وہ ایک یا اس سے زائد چھلانگ لگا سکتی ہے۔ عام طور سے گوٹیاں ایک متصل مقام بڑھ سکتے ہیں جو 3,4,5,8 کے طور پر نشان زدہ ہوتا ہے، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ گوٹی کہاں موجود ہے۔
ایک چھلانگ میں، گوٹی متصلہ گوٹی کے اوپر سے آگے جاکر غیر مقبوضہ مقام لے سکتی ہے، اسی سِمت میں جیسے کہ مخالف کھلاڑی کی گوٹی جہاں ہو۔ تاہم، اس مقام سے ایک گوٹی چھلانگ مارکر دیگر موجود مقامات کو بھی اسی طرح جا سکتی ہے، جس سے مخالف کی دوسری گوٹیاں ختم مانی جا سکتی ہیں۔ ایک گوٹی سے زائد پر چھلانگ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس کھیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ چھلانگ لگانے کے راستوں کو پاکر حملہ کرنا چاہیے، جس سے مخالف کی گئی گوٹیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔ اختتام پر، حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ مخالف کو آپ کی گوٹیوں کو ختم کرنے سے روکا جائے۔ اس میں استحصال کے بھی مواقع ہو سکتے ہیں جب ایک گوٹی کی قربانی ایسے امکانات فراہم کرتی ہے کہ آپ مخالف کھلاڑی کی ایک سے زائد گوٹیوں کو ختم کر سکتے ہیں۔[21]
بھارتی ریاست پنجاب میں کھیل کے محکمے کا قیام 1975ء میں ہوا تھا۔ اس محکمے کی پرستی کے تحت پنجاب کے کئی کھیل کے میدان کی اہم شخصیات نے کافی عمدہ مظاہرہ دیا تھا اور عالمی میدان میں نام کمایا تھا۔ ان میں فلائنگ سکھ ملکھا سنگھ، اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے اور ارجنا ایوارڈ یافتہ ایس سرجیت سنگھ، اولمپک کھلاڑی جرنیل سنگھ ڈِھلّوں، ارجنا ایوارڈ یافتہ پریم چند ڈیگرا اور پدما شری کے اعزاز یافتہ پرگٹ سنگھ اس کی چند مثالیں ہیں۔ پنجاب ریاست سے بھارت کے ہر کھیل کے شعبے میں کئی بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔[22]
موجودہ طور پر پنجاب بھارت کی وہ واحد ریاست ہے جہاں ایسٹرو ٹرف ہاکی میدان (Astro Turf hockey fields) اور جدید ترین کھیل کے شعبے کی سہولتیں سب سے زیادہ ہیں۔ پنجاب ریاست کی عمدہ کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2001ء میں پنجاب میں منعقدہ 31 ویں بھارت کے قومی کھیلوں میں 163 تمغے حاصل کرتے ہوئے اسے راجا بھالیندر سنگھ ٹروفی حاصل ہوا تھا۔ پنجاب کو 2002ء میں حیدرآباد، دکن میں منعقد ہونے والے 32 ویں قومی کھیلوں میں دوسرا مقام حاصل ہوا۔ اس موقع پر اسے 146 تمغے حاصل ہوئے تھے جس میں 54 طلائی، 37 چاندی کے اور 55 کانسی کے تمغے حاصل ہوئے۔[22]
ہر سال مختلف علاقوں میں ہو نے والے بھارت کے قومی کھیلوں میں پنجاب کا مظاہرہ کافی اچھا رہا ہے۔ ذیل کے جدول سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے:[22]
سال | مقام کا نام | طلائی تمغوں کی تعداد | چاندی کے تمغوں کی تعداد | کانسی کے تمغوں کی تعداد | کل محصلہ تمغوں کی تعداد |
---|---|---|---|---|---|
1994ء | پونے، مہاراشٹر | 26 | 27 | 31 | 84 |
1997ء | بنگلور اور میسور، کرناٹک | 44 | 28 | 40 | 112 |
1999ء | اِمْپَھال، منی پور | 34 | 31 | 42 | 107 |
2001ء | بھارت کی ریاست پنجاب | 61 | 44 | 58 | 163 |
2002ء | حیدرآباد، دکن | 54 | 37 | 55 | 146 |
2007ء | گوہاٹی، آسام | 25 | 39 | 40 | 104 |
بھارتی ریاست پنجاب میں کھیل کے محکمے کی ذمے داریاں اس طرح طے کی گئی ہیں:
اسپورٹس کونسل پنجاب نجاب میں کھیل کے محکمے کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو حسب ذیل فرائض انجام دیتا ہے:
پنجاب کی ریاست قدیم زمانے سے ورزش اور کھیل کے لیے شہرت رکھتی ہے۔ یہ تہذیب آج بھی رواں ہے۔ تاہم بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ گلی ڈنڈا، تیر اندازی اور پٹھو جیسے روایتی کھیل جو دیہی پنجاب کی شناخت بن چکے تھے، اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں۔ ان کی جگہ جیدید دور میں مقبول بیرونی ممالک سے یہاں جگہ پانے والے کھیل کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال لے رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں جدید کھیلوں کا عالمی سطح پر مقبول ہونا ایک اہم وجہ ہے۔ دوسری وجہ عوام کا رجحان ہے۔ اِسٹاپو جیسا کھیل جو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں جانب سے کھیلا جاتا تھا،اس کی خصوصیت یہ تھی کہ کھیل کا دائرہ ایک چھوٹی حدبندی والا میدان تھا ایک پتھر کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔ اس عمل میں آج کے بچے دل چسپی نہیں رکھتے۔ اسی طرح کھیل کی صورت گری اور جاذبیت کے اعتبار سے گلی ڈنڈا اور پٹھو کے مقابلے نئی نسلیں کرکٹ میں کشش پاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں رسہ کشی اور کبڈی کے لیے درکار وقت ٹیلی ویژن بینی میں صرف ہو رہا ہے۔[23]
اگرچیکہ نوجوانوں کی کھیلوں کی ترجیحات میں فرق آ رہا ہے، تاہم پھر بھی کھیلوں کے لیے دلچسپی قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی ہر جامعہ یا کالج میں کھیل کی سہولتیں دست یاب ہیں۔[24][25][26][27] پنجاب کے اکثر نوجوان طلبہ مقامی یا قومی سطح کے کھیل کے مقابلوں کا حصہ رہ چکے ہیں، جس کا ان کی جامعات اور کالجوں نے اپنی ویب سائٹوں پر خصوصی تذکرہ کیا ہے۔[28][29] ریاستی حکومت جدید کھیلوں کے فروغ کے لیے تربیت گاہیں اور اسٹیڈیم بنا رہی ہے۔ اور ان اداروں میں نوجوانوں شمولیت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے، جو ریاست کی صحت مند ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔[30]
پنجاب کی ریاست نے کھیل کے میدان میں ہمیشہ ہی قائدانہ مقام قائم رکھا ہے...