اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
دوہا ہندی، اردو شاعری کی ممتاز اور مقبول صنف سخن ہے جو زمانہ قدیم سے تا حال اعتبار رکھتی ہے۔دوہا ہندی شاعری کی صنف ہے جو اب اردو میں بھی ایک شعری روایت کے طور پر مستحکم ہو چکی ہے۔ اس کا آغاز ساتویں صدی اور آٹھویں صدی کا زمانہ بتایا جاتا ہے۔ دوہرا اور دو پد اس کے دوسرے نام ہیں۔ دوہے کے دونوں مصرعے مقفیٰ ہوتے ہیں۔ اپ بھرنش میں قافیہہ کا رواج دوہے سے شروع ہوا، ورنہ اس سے پہلے سنسکرت اور پراکرت میں قافیہہ نہیں تھا۔ دوہا، دو مصرعوں کی اپنی مختصر ترین ہیہت کی وجہہ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے ۔ دوہا ایک ہندی صنف سخن سے تعلق رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو میں شعر۔ مگر ہندی کا دوہا اردو کے غزل یا نظم کا حصہ شعر کی طرح پابند نہیں ہوتا بلکہ آزاد ہوتا ہے۔ یعنی ایک آزاد شعر کو دوہا کہہ سکتے ہیں۔ اس ہندی صنف کو اردو داں حضرات نے بھی اپنایا اور طبع آزمائی کرتے آ رہے ہیں۔ اس صنف میں ماہر ہندی دوہا نگاروں میں کبیر، تلسی داس، عبدالرحیم خان خانہ مشہور ہیں۔ کبیر کے دوہے، تلسی داس کے دوہے، رحیم کے دوہے ہندی ادب میں کافی مشہور ہیں۔اردو شعرا بھی اس صنف کو اپنایا اور آزمایا۔
ہر دوہا دو ہم قافیہ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر مصرعے میں 24 ماترائیں ہوتی ہیں۔ ہر مصرعے کے دوحصے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک حصے میں 13 اور دوسرے میں 11 ماترائیں ہوتی ہیں اور ان کے درمیان ہلکا سا وقفہ ہوتا ہے۔[1]
” | دنیا کیسی باوری پتھر پوجن جائے
گھر کی چکی کوئی نہ پوچھے جس کا پیسا کھائے |
“ |