راجیندر یادو | |
---|---|
![]() | |
پیدائش | 28 اگست 1929 آگرہ، اتر پردیش، بھارت |
وفات | 28 اکتوبر 2013 نئی دہلی، India | (عمر 84 سال)
پیشہ | ناول نگار |
قومیت | بھارتی |
شہریت | بھارتی |
راجیندر یادو (انگریزی: Rajendra Yadav) (پیدائش:28 اگست 1929ء | وفات:28 اکتوبر 2013ء) ہندی زبان کے مصنف، ادیب، افسانہ نگار اور ہندی ادبی تحریک نئی کہانی کے سرخیلوں میں سے ہیں۔ وہ منشی پریم چند کے جاری کردہ مجلہ ہنس کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ پریم چند نے اس مجلے کو 1930ء میں نکالا تھا مگر 1953ء میں اس کی اشاعت بند کر دی تھی۔ راجیندر یادو نے پریم چند کے یوم ولادت (31 جولائی 1986ء) کے موقع مجلہ کو پھر سے نکالنا شروع کیا۔[1][2] راجیندر یادو کی اہلیہ منو بھنڈاری بھی ہندی زبان کی افسانہ نگار تھیں۔
ان کی ولادت 28 اگست 1920ء کو آگرہ، اتر پردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آگرہ میں ہی حاصل کی اور بعد میں میرٹھ میں پڑھنے لگے۔ انھوں نے 1949ء میں گریجویشن اور 1951ء میں آگرہ یونیورسٹی نے ہندی میں ایم اے کیا۔[3]ان کا پہلا ناول 1951ء میں منظر عام پر آیا۔ ناول کا نام پریت بولتے ہیں تھا۔ 1960ء میں انھوں نے اسی ناول کو دوسرا نام دے کر سارا آکاش کے نام سے شائع کیا۔ ہندی زبان کا یہ پہلا ناول تھا جس نے شدت پسند روایات کو کھلے رام چیلینج کیا۔ 1969ء میں باسو چٹرجی نے اسی نام سے ایک فلم بنائی۔[4] اس فلم کو مرنال سین کی بھوون شوم کی مدد سے ہندی میں بھی نشر کیا گیا۔[5] ان کا اگلا ناول اکھڑے ہوئے لوگ کے نام سے شائع ہوا جس میں ناول نگار نے ایک جوڑے کی کہانی پیش کی جو اپنے سماجی اور معاشی مسائل سے دوچار تھا۔ اس ناول میں پہلی دفعہ ہندی ادب میں لونگ ان پر کچھ لکھا گیا تھا۔ انھوں نے مزید دو ناول لکھے؛ کلتا اورشہ اور مات۔ ناول کے علاوہ انھوں نے متعدد کہانیاں لکھیں اور روسی زبان کے کئی مصنفین جیسے ایوان ترگنیف، انتون چیخوف اور البرٹ کامو کی کہانیوں کو ہندی میں ترجمہ کرکے پیش کیا۔