رویندر کوشیک | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 اپریل 1952 شری گنگانگر، راجستھان |
وفات | 2001 پاکستان |
وجہ وفات | سل ، امراض قلب |
طرز وفات | طبعی موت |
مقام نظر بندی | سینٹرل جیل لاہور |
قومیت | بھارت |
مذہب | اسلام [1] |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کراچی |
پیشہ | بھارت کی سراغ رسانی ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسیس ونگ کے لیے جاسوسی |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی ، اردو |
ملازمت | را ، پاک فوج |
کارہائے نمایاں | پاکستانی فوج میں میجر کے طور پر ظاہری کارگردگی |
عسکری خدمات | |
عہدہ | میجر |
درستی - ترمیم |
رویندر کوشیک بھارت کی سراغ رسانی ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسیس ونگ کے ایک جاسوس تھے۔ وہ پاکستانی فوج میں اہم دستاویزات حاصل کرنے کے لیے ایک مسلمان نام اور پاکستانی شناخت کے ساتھ بھرتی ہوئے تھے اور اسی مقصد کے لیے کام کرتے رہے، حالانکہ ان کے عہدے کی مسلسل ترقی ہوتی گئی تھی۔
رویندر کوشیک شری گنگانگر، راجستھان میں 11 اپریل 1952ء کو پیدا ہوئے تھے۔[2]
رویندر کوشیک مختلف ناٹکوں میں اداکاری کیا کرتے تھے۔ 1975ء میں بھارتی فوج کے کچھ عہدے داروں نے لکھنؤ میں ان کے ایک ناٹک میں اداکاری کے دوران متاثر ہوئے اور اپنے مقصد کے لیے انھیں چنا۔[2]
بھارتی فوج نے رویندر کو تربیت دی۔ اس دوران انھیں مبادیات اسلام اور اردو زبان سکھائی گئی۔ اس کے ساتھ پاکستان کا جغرافیہ اور مہم کی تفصیلات فراہم کیے گئے۔ ایک نیا نام نبی احمد شاکر تجویز کیا گیا۔[3]
رویندر نے جامعہ کراچی سے ایل ایل بی کیا۔ وہ پاکستانی فوج میں بھرتی ہوا اور جلد ہی میجر کے عہدے پر فائز ہوا۔[3]
1978ء سے 1983ء تک کوشک نے پاکستانی فوج کی کافی حساس معلومات بھارت کی فراہم کی۔ انھی کوششوں کی وجہ سے وہ دی بلیک ٹائیگر کے نام سے موسوم تھے۔[3]
ستمبر 1983ء میں بھارتی فوج نے رویندر کوشیک سے ربط کے لیے عنایت مسیح کو بھیجا۔ عنایت نے تفتیش کے دوران پاکستانی فوج کو یہ راز فاش کیا کہ وہ کون ہے اور نبی احمد شاکر دراصل رویندر کوشیک ہے۔[3]
کوشیک کو گرفتاری کے بعد دو سال اذیتیں اٹھانے پڑے۔ سیالکوٹ کے ایک تفتیش مرکز میں انھیں رکھا گیا۔ 1985ء میں موت کی سزا سنائی گئی۔ مگر بعد میں یہ عمر قید میں بدل دی گئی۔[3]
2001ء میں ٹی بی اور دل کے مرض کی وجہ سے قید ہی میں رویندر کوشیک کا انتقال ہو گیا۔[3]
رویندر کوشیک کی ماں آملا دیوی بیٹے کی رہائی کی کافی کوششیں کر چکی تھی، تاہم اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ وہ 2006ء میں انتقال کر گئی تھی۔ انتقال سے پہلے بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اسے ایک خط لکھ کر تاسف کا اظہار کیا کہ اگر کوشیک کا پردہ فاش نہ ہوتا تو وہ یقینًا ایک سرکردہ فوجی افسر بنتے اور اپنے وطن بھارت کی خدمت بھی جاری رکھتے۔[3]