شیخ الحدیث، مفتی سعید احمد پالن پوری | |
---|---|
دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث | |
برسر منصب 2008ء تا 19 مئی 2020ء | |
پیشرو | نصیر احمد خان بلند شہری |
جانشین | ابو القاسم نعمانی |
دار العلوم دیوبند کے دسویں صدر المدرسین | |
برسر منصب 2008ء تا 19 مئی 2020ء | |
پیشرو | نصیر احمد خان بلند شہری |
جانشین | سید ارشد مدنی |
ذاتی | |
پیدائش | 1940ء |
وفات | 19 مئی 2020 | (عمر 79–80 سال)
مدفن | اوشیوارہ مسلم قبرستان، ممبئی |
مذہب | اسلام |
قومیت | ہندوستانی |
فقہی مسلک | حنفی |
مرتبہ | |
شاگرد
| |
اعزازات | صدارتی سند برائے اعزاز[1] |
سعید احمد پالن پوری (1940 – 2020ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، مفتی، مصنف اور محدث تھے، جنھوں نے دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ان کی لکھی ہوئی کئی کتابیں دار العلوم دیوبند سمیت کئی مدارس میں داخل نصاب ہیں۔
پالن پوری 1940ء میں کالیڑہ، وڈگام، ضلع بناسکانتھا (شمالی گجرات) میں پیدا ہوئے تھے۔ کالیڑہ؛ پالن پور کے مضافات میں ایک مشہور مسلم بستی ہے۔[2][3]
ان کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب سے شروع ہوئی۔ پھر اپنے ماموں مولانا عبد الرحمن کے ساتھ دار العلوم چھاپی گئے اور چھ ماہ وہیں چھاپی میں اور چھ ماہ اپنے ماموں کے ہمراہ ہی ان کے گاؤں 'جونی سیندھنی' میں رہ کر فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر پالن پور شہر میں واقع مولانا نذیر میاں پالن پوری کے مدرسہ؛ مدرسہ اسلامیہ عربیہ میں چار سال رہ کر مفتی محمد اکبر میاں پالن پوری اور مولانا ہاشم بخاری سے عربی کی ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھیں۔[2][4]
شرح جامی تک کی کتابیں پالن پور ہی میں پڑھ کر آگے کی تعلیم کے لیے 1377ھ میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور آگئے اور وہاں تین سال رہ کر مولانا صدیق احمد جموی سے نحو، منطق اور فلسفہ کی اکثر کتابیں پڑھیں۔ ان کے مظاہر علوم کے اساتذہ میں مفتی یحیی سہارنپوری، مولانا عبد العزیز رائپوری اور مولانا وقار بجنوری بھی شامل تھے۔[2][5][6][7]
21 شوال 1379ھ بہ مطابق 1961ء میں فقہ، حدیث، تفسیر اور فنون کی تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہاں ان کا داخلہ ہو گیا۔[2][5][6][7] 1382ھ بہ مطابق 1962ء میں وہ دورۂ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی، صحیح البخاری؛ مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادی سے پڑھی۔[2][7]
ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں سید اختر حسین دیوبندی، بشیر احمد خان بلندشہری، سید حسن دیوبندی، عبد الجلیل کیرانوی، اسلام الحق اعظمی، قاری محمد طیب دیوبندی، فخر الحسن مرادآبادی، محمد ظہور دیوبندی، سید فخر الدین احمد مرادآبادی، محمد ابراہیم بلیاوی، مہدی حسن شاہ جہاں پوری اور محمود عبد الوہاب مصری شامل تھے۔[2][8]
دار العلوم دیوبند سے درس نظامی سے فراغت کے بعد وہیں پر 1382-83ھ میں مولانا سید مہدی حسن شاجہاں پوری کی تربیت میں رہ افتا کی مشق و تمرین کی۔[2][8]
1383ھ میں دار العلوم دیوبند میں افتا کی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ان کی تعلیمی لیاقت کو دیکھتے ہوئے انھیں ایک سال تک دار الافتا، دار العلوم میں معین مفتی رکھا گیا۔[2][9]
ذی قعدہ 1384ھ بہ مطابق 1965ء سے شعبان 1393ھ تک 9 سال دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں رہے اور ترجمۂ قرآن، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، شمائل ترمذی، موطین، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح، تفسیر جلالین، الفوز الکبیر، ہدایہ آخرین، شرح عقائد نسفیہ اور حسامی وغیرہ بہت سی کتابیں پڑھائیں۔[2][10]
شعبان 1393ھ بہ مطابق اگست 1973ء کی مجلس شوریٰ میں محمد منظور نعمانی نے عربی تدریس کے لیے پالن پوری کا نام پیش کیا اور شوال 1393ھ بہ مطابق نومبر 1973ء سے انھوں نے دار العلوم دیوبند میں تدریسی فرائض انجام دینے شروع کیے۔[2][11][3]
1973ء سے 2020ء تک دار العلوم دیوبند میں ان کی تدریسی زندگی نصف صدی یعنی 47 سال کے عرصہ پر محیط ہے۔[12][13][3] جس عرصہ میں وہ تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، منطق و فلسفہ وغیرہ موضوع پر متعدد کتابیں پڑھاتے رہے۔[2][11]
2008ء کے دوران میں انھیں نصیر احمد خان بلند شہری کے، اپنی علالت کی وجہ سے مستعفی ہونے کے بعد شیخ الحدیث اور صدر مدرس بنایا گیا اور اپنی وفات تک تقریباً 13 سال وہ اس منصب پر فائز رہے۔[2][14][15][11][3]
1395ھ اور 1402ھ میں انھوں نے دار العلوم کے دار الافتاء کی نگرانی اور فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دیں۔[16]
1986ء میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے قیام سے اپنی وفات تک تقریباً 35 سال وہ اس مجلس کے ناظمِ اعلیٰ رہے۔[17]
پالن پوری نے اس خیال کو برقرار رکھا کہ بھارتی حکومت کی مدرسوں میں معیاری تعلیم فراہم کرنے کی اسکیم (SPQEM) ناکام ہو جائے گی۔[18][19]
پرتیبھا پاٹل نے پالن پوری کو بھارت کے 64 ویں یوم آزادی پر عربی زبان میں ان کے علمی شغف اور مسلَّمَہ قابلیت کے لیے پریسیڈینٹل سرٹیفکیٹ آف آنر (صدارتی توصیفی سند) سے نوازا تھا۔[20][21][1]
پالن پوری کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوا اور انھیں ممبئی کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں 19 مئی 2020ء (25 رمضان 1441ھ) کو ان کا انتقال ہوا۔[22][6][23]
انھیں اوشیوارہ، ممبئی میں واقع ایک قبرستان میں دفن کیا گیا اور صرف 15 افراد کو ان کی تدفین میں شرکت کی اجازت دی گئی۔[12][24]
ابو القاسم نعمانی، ارشد مدنی، محمود مدنی اور محمد سفیان قاسمی اور ملت اسلامیہ نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا۔[12][25]
سعید احمد پالن پوری نے صحیح البخاری و جامع ترمذی کی ایسی اردو شرح لکھی، جس سے بخاری و ترمذی کے علاوہ حدیث کی دیگر کتابوں کے حل کرنے اور ان سے استفادہ کرنے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔[26]
انھوں نے رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ کے نام سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مشہور زمانہ کتاب کی اردو شرح لکھی، نیز ان کی لکھی ہوئی کئی کتابیں دار العلوم دیوبند سمیت کئی مدارس میں داخل نصاب ہیں۔[27]
عربی، اردو اور فارسی میں تفسیر قرآن، شرح حدیث، سیرت، اصول تفسیر، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسماء الرجال، تاریخ، نحو، صرف، منطق وفلسفہ، اختلافی مسائل اور جدید مسائل؛ ان سب فنون پر انھوں نے قابل قدر کتابیں لکھ کر امت پر احسان کیا ہے۔[26]
پالن پوری کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[27][26][28][29]