| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 1911ء آلو مہار |
|||
تاریخ وفات | 22 فروری 1984ء (72–73 سال) | |||
مذہب | اسلام | |||
عملی زندگی | ||||
مادر علمی | مرے کالج سیالکوٹ | |||
مؤثر | مجدد الف ثانی، محمد چنن شاہ نوری، جلال الدین سیوطی، احمد رضا خان، مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی | |||
درستی - ترمیم |
صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ خطیب الاسلام مشائخ آلو مہار سے تعلق رکھتے ہیں۔
سید فیض الحسن کی پیدائش 1911ء میں آلو مہار میں ہوئی ان کے والد کا نام سید محمد حسین شاہ ہے۔
دینی علوم آستانہ امینیہ آلو مہار کے جید اساتذہ عبد المجید سنبھلی مولانا لطف اللہ کیرت پوری سے حاصل کی۔ علوم عصری سینئر ماڈل ہائی اسکول لاہور اور اسلامیہ کالج لاہور اور مرے کالج سیالکوٹ سے مکمل کی۔
21 اکتوبر 1933ء کو سجادہ نشین بنے اسی روز شمس الہند خواجہ چنن دین کا اور قطب الکونین سید محمد حسین کا چہلم بھی تھا۔
تحریک پاکستان ،ختم نبوت، شدھی تحریک، مسجد شہید گنج تحریک اور ناشر راجپال کے خلاف تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور اس پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ نے جمیعت علمائے پاکستان کی الگ جماعت بھی قائم کی جس میں علامہ غلام فخرالدین گانگوی نے آپ کا بھرپور ساتھ دیا۔
تحریک ختم نبوت 1953ء کے دوران ایک جلسہ عام سے خطاب کے لیے صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ صاحب سٹیج پر تشریف لائے تو ایک رضا کار نے ان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال دیا۔ صاحبزادہ نے ہار کو توڑا اور لوگوں کی جانب پھینک کر فرمایا میرے عزیز! یہ وقت ہار پہننے کا نہیں۔ سرور کونین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کو خطرہ در پیش ہو اورمیں ہار پہنوں؟ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لائو، ہمیں پابہ زنجیر کر کے دیکھو کہ ہمارے ماتھے پر شکن بھی آتا ہے؟ اس کے بعد اپنے مخصوص انداز میں آپ نے موتی بکھیرنے شروع کیے۔ جلسے پر ایک سکوت طاری تھا اورصاحبزادہ صاحب حسب معمول ساون بھادوں کی طرح برس رہے تھے۔ صاحبزادہ کی تقریر نے مسلمانوں کے جذبہ ایمان کو اس طرح ابھاراکہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس طرح رات 12 بجے تک جلسہ ہوتا رہا۔
صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ آلومہار شریف فرمایا کرتے تھے:
’’جو مسلمان حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت نہیں کرتا، وہ اپنی ماں اور بہن کی عزت و ناموس کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا۔‘‘
20 جمادی الاول 1404ھ بمطابق 23 فروری 1984ء کو وفات پا گئے۔[1]
آپ کی وفات کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے پیرسید خالد حسن شاہ مسند نشین ہوئے۔