شاہ غلام علی دہلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1743ء پٹیالہ |
وفات | 16 اکتوبر 1824ء (80–81 سال) دہلی |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
درستی - ترمیم |
شاہ غلام علی دہلوی (پیدائش: 1743ء– 16 اکتوبر 1824ء) سلسلہ نقشبندیہ کے دہلی کے نامور صوفی بزرگ اور تیرہویں صدی ہجری کے مجدد تھے۔
شیخ المشائخ نقشبندِ ثانی شاہ عبد اللہ المعروفشاہ غلام علی دہلوی کی ولادت 1156ھ بمطابق 1743ء پٹیالہ میں ہوئی۔ نو عمری میں ہی اپنے والد شاہ عبد الطیف کے حکم پر دہلی چلے آئے۔ والد صاحب بذاتِ خود قادریہ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے اور انھیں اپنے پیر و مرشد سے بیعت کروانے کے خواہش مند تھے لیکن ان کے دہلی پہنچنے سے پہلے ہی والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔
آپ کے والد ماجد شاہ عبد اللطیف کا شمار اپنے وقت کے بزرگوں میں ہوتا تھا جو شاہ ناصر الدین قادری سے ارادت رکھتے تھے۔ چونکہ والد ماجد خود صاحب علم اور صوفی منش انسان تھے، اسی لیے اپنے فرزند ارجمند سید عبد اللہ المعروف غلام علی کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ یہ کون جانتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر آسمان علم و عرفان پر مہر درخشاں بن کر چمکے گا اور اپنی ضوافشانی سے ایک دنیا کو بقعۂ نور بنادے گا۔ آپ کی ابتدائی زندگی پردۂ اخفا میں ہے۔ آپ کے والد ماجد دہلی میں اپنے شیخ کی خدمت میں ہی اکثر وقت گذارتے تھے، اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ آپ نے ابتدائی تعلیم پٹیالہ میں ہی حاصل کی ہوگی۔ جب آپ زندگی کی اٹھارہ منزلیں طے کرچکے تو آپ کے والد ماجد نے اپنے شیخ کی خدمت میں آپ کو دہلی بلوایا۔ تعمیل ارشاد کی غرض سے آپ دہلی روانہ ہوئے۔ جب آپ 11 رجب 1174ھ کو دہلی پہنچے تو چند ساعتوں بعد ہی شاہ ناصرالدین دہلوی جو آپ کے ابا حضور کے شیخ طریقت تھے کا وصال ہو گیا۔ ان کے وصال کے بعد مجبورًا والد ماجد نے آپ کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”ہم تو تمھیں اپنے پیر سے بیعت کروانا چاہتے تھے، لیکن خدا کی رضا یہی تھی۔ اب تم جہاں اپنی باطنی کشائش معلوم کرو وہاں بیعت کرلو۔“
دہلی میں اس وقت بڑے بڑے مشائخ موجود تھے لیکن شاہ غلام علی دہلوی کے دل کو میرزا مظہر جان جاناں کی طرف بہت کشش ہوئی چنانچہ 1180ھ/1766ء میں انہی کے مرید ہو گئے
اس کے بعد آپ کے دہلی کے کئی بزرگوں سے اکتساب فیض کیا اور ساتھ ساتھ علوم ظاہری بھی حاصل کرتے رہے۔ ابھی درس حدیث مکمل نہیں ہوا تھا کہ حسن اتفاق اور بخت کی یاوری سے میرزا مظہر جان جاناں شہید جیسے سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے ماہِ تاباں کی ضیاء باریوں سے آپ واقف ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریبًا بائیس (22) سال تھی۔ چنانچہ آپ حضرت میرزا کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی ۔
خواجہ میرزا جان جاناں شہید بے مثل ظاہری و باطنی کمالات سے مالامال اور یگانہ روزگار تھے۔ ایسی باکمال ہستی کے ہاتھوں تربیت پاتے اور سلوک کی منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں سے درس حدیث بھی مکمل کر رہے تھے۔ خواجہ شاہ غلام علی دہلوی زبردست باطنی استعداد کے مالک تھے۔ بہت جلد آپ نے سلوک کے مقامات طے کرلئے۔ آپ نے کس درجہ فیوض و برکات حاصل کیے، اس سلسلے میں سر سید احمد خان کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سر سید احمد خان اپنی کتاب ”آثار الصنادید“ میں لکھتے ہیں کہ ”بعد بیعت کے سالہا سال آپ نے پیر و مرشد کی خدمت میں اوقات بسر کی اور وہ زہد و مجاہدہ و ریاضت کی کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ دن بدن عروج کمال اور مشاہدہ جمال شاہد بے زوال اور مکاشفہ و ترقیات فائقہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخ ہوئے اور صاحب ارشاد ہوئے۔ اپنے پیر و مرشد کی موجودگی میں ہی تلقین و ارشاد کا سلسلہ جاری فرمایا۔ اگرچہ آپ نے بیعت سلسلۂ قادریہ میں کی تھی لیکن ذکر و اذکار اور شغل و اذکار طریقۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں جاری فرمایا اور ہی طریقہ کی اجازت حاصل کی اور اپنے پیر و مرشد کے وصال کے بعد سجادہ نشین ہوئے اور حقیقت میں میرے اعتقاد بموجب اپنے پیر پر بھی فوقیت لے گئے۔“
مولوی رحمان علی نے تذکرہ غلام علی دہلوی میں لکھا ہے کہ ”آپ اسلاف کی مقدس یادگار تھے۔ تمام وقت ذکر الٰہی اور تربیت سالکین کے لیے وقف تھا۔ اگرچہ ایک جہان آپ کا گرویدہ تھا لیکن آپ کو دنیاوی مال و متاع اور آرام و راحت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ اکابر نقشبندیہ کی طرح اتباع سنت کا کمال اہتمام تھا۔ آپ کو دیکھ کر اَلفَقرُ فَخرِی (فقر میرا فخر ہے، الحدیث) کا مفہوم بخوبی سمجھ میں آجاتا تھا اور سر سید احمد خان جو ایک چشم دید گواہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنی کتاب آثار الصنادید میں لکھتے ہیں کہ آپ کی اوقات شریف نہایت منضبط تھی کلام اللہ آپ کو حفظ تھا اور تحقیق قرات بھی بہت خوب، نماز صبح اول وقت ادا فرماکر دس سیپارے کلام اللہ کی تلاوت فرماتے اور بعد اس کے حلقۂ مراقبہ ہوتا، نماز اشراق کے بعد تدریس حدیث اور تفسیر شروع ہوتی، جو لوگ اس جلسہ کے بیٹھنے والے ہیں ان سے پوچھا چاہیے کہ اس میں کیا کیفیت ہوتی تھی اور پڑھنے پڑھانے، سننے سنانے والوں کا کیا حال ہوتا تھا۔ جہاں نام رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم آتا آپ بے تاب ہوجاتے اور اس بیتابی میں حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ سبحان اللہ کیا شیخ تھے۔ باقی باللہ اور عاشقِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ علم حدیث اور تفسیر نہایت مستحضر تھا۔ اگرچہ باعتبار علوم نقل خاتم المحدثین والمفسرین سے تعبیر کیا جائے تو بھی بجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجمع علوم پیدا کیا تھا کہ ہر ایک علم ظاہری اور باطنی میں درجہ کمال بہ انتہائے کمال حاصل تھا۔
ہمیشہ تمام رات آپ شب بیداری فرماتے تھے، شاید کہ گھڑی دو گھڑی بتقاضائے بشریت غفلت آجاتی ہو۔ سو وہ بھی جانماز پر، برسوں آپ نے چارپائی پر استراحت نہیں فرمائی۔ اگر نیند کا بہت غلبہ ہوا یونہی اللہ اللہ کرتے پڑ رہے۔ آپ کی خانقاہ میں عجب عالم ہوتا تھا۔ بوریا کا فرش رہتا تھا اور اسی کے سرے پر ایک مصلیٰ کبھی بوریا کا اور کبھی کسی اور چیز کا پڑا رہتا تھا اور وہیں ایک تکیہ چمڑے کا رکھا رہتا۔ آپ دن رات اسی مصلیٰ پر بیٹھے رہتے اور عبادت معبود کیا کرتے اور سب طالبین گرداگرد جو آپ کے حلقہ باندھے بیٹھے رہتے۔ حق یہ ہے کہ ایسا برشتہ جان شیخ دیکھنے میں نہیں آیا اور میں تو اس بات پر عاشق ہوں کہ باوجود اتنی آزادی اور خود رفتگی کے سرِمو احکام شریعت سے تجاوز نہ تھا اور جو کام تھا وہ باتباع سنت تھا۔ لقمۂ مشتبہ سے نہایت پرہیز کرتے اور مال مشتبہ ہرگز نہ لیتے۔ جو شخص خلاف شرع اور سنت ہوتا اس سے نہایت خفا ہوتے اور اپنے پاس اس کا آنا گوارا نہ کرتے۔
شاہ عبد الغنی مجددی لکھتے ہیں کہ آپ پندرہ برس تک میرزا مظہر کی خدمت عالیہ میں اکتساب فیض کرتے رہے۔ بعد اس کے آپ کو میرزا کی طرف سے خلافت و اجازت مطلقہ سے نوازا گیا۔
آپ خود فرماتے ہیں کہ ابتدا میں مجھے معاشی فکر لاحق رہتی تھی۔ لیکن باوجود اس کے توکل کو اختیار کیا۔ ایک پرانا بوری بستر اور اینٹ کا س رہانہ بنا لیا۔ ایک مرتبہ شدت ضعف سے میں نے حجرہ میں داخل ہوکر دروازہ بند کر لیا کہ اگر مروں گا تو اسی حجرہ میں۔ آخر اللہ کی مدد آ پہنچی۔ رجال الغیب میں سے ایک نے دروازہ بجاکر کہا کہ دروازہ کھولیں۔ میں نے نہ کھولا۔ اس نے پھر بجاکر کہا کہ مجھے آپ سے ضروری کام ہے، لیکن میں نے پھر بھی نہ کھولا۔ بعد اس کے وہ کچھ روپے بذریعۂ شگاف اندر پھینک کر چلا گیا۔ پس اسی دن سے فتوحات کا دروازہ کھل گیا۔
آپ کے فیض کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف متحدہ ہندوستان کے گوشے گوشے سے طالبین و سالکین کا تانتا بندھا رہتا، بلکہ بیرون ممالک کے کتنے ہی حضرات اپنی روحانی پیاس بجھانے اور دل کی ویران کھیتیوں کو سرسبز و شاداب بنانے کی خاطر عازم دہلی ہوتے اور آپ کی خانقاہ کی چاکری کو اختیار کرلیتے۔ آپ کے خلیفۂ اجل حضرت رؤف احمد مجددی نے آپ کے فیض کی ترجمانی یوں فرمائی ہے کہ ”خالص اعتقاد رکھنے والے اور خاص مخلص لوگوں کا مجمع ہے، یعنی لوگ سمرقند، بخارا، غزنی، تاشقند، حصار، قندھار، کابل، پشاور، ملتان، کشمیر، لاہور، سرہند، امروہہ، سنبھل، بریلی، رامپور، لکھنؤ، جائس بہرائچ، گورکھپور، عظیم آباد، ڈھاکہ، حیدرآباد، پونا وغیرھا دیار و امصار سے لوگ حق جل و علا کی طلب میں اپنے اپنے وطن کو چھوڑ کر آپ کی خدمت میں آئے ہوئے ہیں۔“
آپ خودفرماتے ہیں کہ ”دور دراز ممالک تک ہمارا فیض پہنچتا ہے، مکہ معظمہ میں ہمارا حلقہ ہوتا ہے اور مدینہ منورہ میں ہمارا حلقہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بغداد، روم اور مغرب (مراد مغربی ممالک ہیں) میں ہمارا حلقہ ہوتا ہے اور (مزاحیہ انداز میں فرمایا کہ) بخارا تو ہمارا آبائی گھر ہے۔“
آپ کی زندگی میں ہی ایسا فیض جاری ہوا کہ بہت کم مشائخ سے جاری ہوا ہو۔ آپ کے خلفاء کرام دور دراز ممالک تک پہنچ گئے۔ بالخصوص خالد رومی کردی سے آپ کا فیض کثرت سے جاری ہوا اور اس بات ثبوت خالد کردی کا مکتوب ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ”غریب و مہجور خالد کردی شہرزوری عرض کرتا ہے کہ یک قلم تمام مملکت روم و عربستان اور دیارِ حجاز و عراق اور عجم کے بعض ممالک اور سارا کردستان طریقۂ عالیہ مجددیہ کے جذبات و تاثرات سے سرشار ہے۔“
آپ کی خانقاہ میں طالبین و سالکین کا ہر وقت اجتماع رہتا تھا۔ بقول سر سید احمد خان کے تقریبًا پانچ سو لگ بھگ فقراء خانقاہ میں رہتے تھے، جن کے نان و نفقہ اور کپڑے وغیرہ کا ذمہ آپ ہی اٹھائے ہوئے تھے۔ کہیں سے ایک حبّہ (ایک پیسہ) مقرر نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ غیب الغیب سے سب کام چلاتا تھا۔ جیسا گاڑھا موٹا تمام فقیروں کو میسر ہوتا ویسا ہی آپ بھی پہنتے تھے۔ باوجود اس کمال کے آپ میں انکسار اس درجہ تھا کہ ایک دن فرمایا کہ ”کتا جو میرے گھر میں آتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ خدایا! میں کون ہوں کہ تیرے دوستوں کو وسیلہ بناؤں، اس مخلوق کے ذریعے مجھ پر رحم فرما۔“
میرزاشہید کی طرح شاہ غلام علی دہلوی کے زمانہ میں بھی خانقاہِ مظہریہ کو رشد و ہدایت کے لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ علمی لحاظ سے شاہ عبد العزیزاور تصوف میں حضرت شاہ صاحب ہی کامل ہستیاں تھیں۔ آپ کو نقشبندِ ثانی کا خطاب عطا کیا گیا۔
آپ کو ہمیشہ شہادت کی آرزو رہتی تھی، لیکن فرماتے تھے کہ حضرت میرزا کی شہادت کے باعث لوگوں پر کس قدر مصائب نازل ہوئے۔ تین سال تک قحط مسلّط رہا اور قتل عام ہوا۔ اس لیے اس بات سے ڈرتا ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہماری رحلت کے بعد جنازہ آثار شریفہ نبویہ میں جو جامع مسجد میں ہیں، لے جانا اور رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کے لیے عرض کرنا۔ جب وصال کا وقت قریب آیا تو حضرت شاہ ابوسعید کو لکھنؤ سے بلوایا۔ آخر وقت میں آپ پر استغراق کی کیفیت طاری رہنے لگی اور بالآخر۔ 22 صفر 1240ھ 16 اکتوبر 1824ء کو چوراسی (84) برس کی عمر مبارک میں حالت استغراق میں ہی آپ نے اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کردی۔ شاہ ابوسعید نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حسب وصیت آپ کے جنازہ کو آثار نبویہ میں جامع مسجد میں لے جایا گیا اور وہاں سے لاکر حضرت میرزا شہید کے پہلو میں آپ کو مدفون کیا گیا۔
آپ کی باقیات صالحات میں آپ کے خلفاء عظام اور تصانیف عالیہ ہیں۔ آپ کے خلفاء کی تعداد سوانحی کتب میں اڑتیس (38) کے قریب ملتی ہیں۔ اسی طرح آپ تقریبًا پندرہ کتابوں کے مصنف ہیں، جن کے نام درج ذیل ہیں