طبقاتی جدوجہد

طبقاتی جدوجہد، پاکستان میں ایک بائیں بازو اور مارکسیت کے نظریات پر مبنی تنظیم ہے جو ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے گوشاں ہے۔ اس کے سیاسی نظریہ دان ڈاکٹرلال خان ہیں جبکہ اس تنظٰیم کی بنیاد 1980ء میں نیدرلینڈ میں رکھی گئی۔ایک اندازے کے مطابق اس کے ارکان کی تعداد 3،000 سے زائد ہے جبکہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپیئن اور متحدہ طلبہ محاذ اس کے ذیلی تنظیمیں ہیں۔


طبقاتی جدوجہد
سیاسی نظریہ دانڈاکٹر لال خان
تاسیس1980
صدر دفترلاہور, پاکستان
نظریاتمارکسیت
سوشلزم
ٹراٹسکائیٹ
سیاسی حیثیتبائیں بازو, سرمایہ داری مخالف
بین الاقوامی اشتراکNone
ویب سائٹ
http://strugglepk.com
سیاست پاکستان

تاریخ اور ابتدا

[ترمیم]

ضیا ء الحق کی فوجی آمریت کے دوران پاکستان سے جلا وطن کچھ بائیں بازو کے رہنماؤں نے نومبر 1980ء میں ایمسٹر ڈیم میں ایک اجلاس کے دوران اس تنظیم کی بنیاد رکھی[1] ۔ ضیا ء الحق  کی آمریت پاکستان کے بدترین دور میں سے ایک تھا [2]۔ اس کے بانی اراکین میں  فاروق طارق، تنویر گوندل (جو ڈاکٹر لال خان کے نام سے مشہور ہیں) ، محمد امجد، جاوید اقبال اور ایوب گوری شامل تھے۔ ان رہنماؤں نے جلاوطنی  میں بھی جدوجہد کا شعلہ زندہ رکھنے کے لیے ایک ترقی پسند تنظیم کے قیام  کے لیے سر گرم عمل رہے[3] ۔

جدوجہد گروپ نے "جدوجہد " کے نام سے ماہانہ اردو جریدے کی اشاعت کا فیصلہ کیا[4]۔یہ جریدہ جلد ہی بیرون ملک پاکستانیوں میں مقبول عام ہو گیا، حبیب جالب، فیض احمد فیض اور احمد فراز جیسے انقلابی شاعروں نے اس میگزین میں  انقلابی اور جمہوریت  جدوجہد کے موضوعات پراپنی نظمیں شائع کروائیں۔دسمبر 1984ء کے شمارہ  میں جریدے نے  خالد جاوید جان کی نظم میں باغی ہوں   شائع کی۔ جو جلد ہی پاکستان میں ضیا ء الحق کے خلاف ایک احتجاجی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جانے لگی[5]۔

جدوجہد گروپ نے اپنی سرگرمیوں کو پاکستان میں فوجی آمریت کے خلاف جلاوطنی میں جاری رکھا اور ہالینڈ میں پاکستانی سفارت خانہ  کے سامنے تقریبا 500 شرکاء کے ساتھ ایک بڑے پیمانے پر  ذ    والفقار علی بھٹو کا غائبانہ نماز جنازہ منعقد کیا[6]۔پاکستانی حکام نے انھیں گرفتار کرنے کے لیے کوششیں کیں جس کی وجہ سے  انھیں یورپ میں بائیں بازو اور ترقی پسند تحریکوں میں مقبول بنا دیا۔ انھوں نے مزدوروں  کے مسائل، مقامی بائیں جماعتوں کے ساتھ نسل پرستی، تارکین وطن کے مسائل اور ایٹم بم کے خلاف مہم چلائیں[7]۔

1986ءمیں فاروق طارق اور لال خان پاکستان واپس آ گئے اس وقت کے بعد جدوجہد نے پاکستان کی سرزمین سے کام شروع کیا۔

حالیہ کام

[ترمیم]

جنت حسین جدوجہد میگزین کے موجود ہ ایڈیٹر ہیں جبکہ لال خان سیاسی مدیر تھے۔ لال خان باقاعدگی سے ڈیلی ٹائمز[8] اور دنیا اخبار [9] کے لیے کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ جدوجہد گروپ کی اپنی اشاعت ایجنسی ہے ، انھوں نے مارکسی نظریات، پاکستان میں مارکسی جدوجہد کی تاریخ اوربالشویک انقلاب کی تاریخ  سمیت   مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں اور کتابچے شائع کیے ہیں[10] ۔ انقلاب روس کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر ٹراٹسکی کی مشہور تصنیف روس انقلاب کی تاریخ شائع کی گئی ہے اور یہ پہلی مرتبہ کسی جنوب ایشیائی زبان میں ترجمہ ہے۔ا س کا ترجمہ جدوجہد گروپ کے عمران کمیانہ نے کیا ہے[11] ۔

ڈاکٹر لال خان جدوجہد کی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے۔

پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین  ( پی ٹی یو ڈی سی ) جدوجہد کی ذیلی تنظیم ہے جس کا مقصد محنت کشوں کی جدوجہد کو ایک نقطہ پر مرکوز کرتے ہوئے ان کی زندگیوں میں بہتری کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں میں کام بے روزگار نوجوان تحریک ، نوجوان طلبہ ء محاذ اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میں مرکوز ہے۔ گروپ ہر سال باقاعدگی سے نومبر کے مہینہ میں اپنی قومی کانگریس منعقد کرتا ہے جس کا مقصد کارکردگی  ، سماجی تبدیلی اور انقلاب کے لے حکمت عملی تیار کرنا ہے[12][13]۔ مارچ 2013ء میں ملالہ یوسف زئی نے جدوجہد کی کانگریس کے لیے یکجہتی پیغام ارسال کیا، اس سے پیشتر وہ ان کے ایک مارکسی اسکول مالاکنڈ میں بھی حصہ لے چکی ہے[14]۔

حال ہی میں، پاکستان کے عام انتخابات   2018ء میں  اس کے اہم رہنما علی وزیر  قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں[15] ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Blacked out - The Express Tribune"۔ 12 اگست 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  2. "Pakistan's Four Dictators: Same Legacy"۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  3. "A View from the Pakistani Left"۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  4. "Blacked out - The Express Tribune"۔ 12 اگست 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  5. "Blacked out - The Express Tribune"۔ 12 اگست 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  6. "Blacked out - The Express Tribune"۔ 12 اگست 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  7. "Blacked out - The Express Tribune"۔ 12 اگست 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  8. "Urdu Columns - Roznama Dunya"۔ www.dunya.com.pk۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  9. http://dailytimes.com.pk/search/test/ /483/Lal%20Khan
  10. "Lal Salaam - لال سلام"۔ Lal Salaam - لال سلام۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  11. A Reporter (11 دسمبر 2017). "Urdu translation of Trotsky's book launched". DAWN.COM (امریکی انگریزی میں). Archived from the original on 2018-12-25. Retrieved 2018-08-27.
  12. "آئی ایم ٹی کے پاکستانی سیکشن کی 31ویں تاریخی کانگریس"۔ 25 اپریل 2012۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2019-01-06۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-21{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: BOT: original URL status unknown (link)
  13. "The Struggle's Regional Congresses". Asian Marxist Review (امریکی انگریزی میں). Archived from the original on 2018-12-25. Retrieved 2018-08-24.
  14. "The Malala you won't hear about". SocialistWorker.org (انگریزی میں). Archived from the original on 2018-12-25. Retrieved 2018-08-24.
  15. "Meet Ali Wazir, The Lone Marxist Who Won Assembly Seat Despite Taliban Killing 16 Of His Family". indiatimes.com (انگریزی میں). Archived from the original on 2018-12-25. Retrieved 2018-09-21.

بیرونی ربط

[ترمیم]