غلام علی اوکاڑوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 جون 1920ء گجرات |
وفات | 16 مئی 2000ء (80 سال) لاہور |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
جماعت | جمیعت علمائے پاکستان |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | کوکب نورانی اوکاڑوی |
پیشہ | عالم |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، پنجابی |
مؤثر | أبو البركات أحمد، نعيم الدين مرادآبادي |
متاثر | محمد شفیع اوکاڑوی حضور گنج عنایت سرکار |
درستی - ترمیم |
ابوالفضل شیخ القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی اہلسنت کے اکابر مشائخ اور اہلسنت کے بڑے علما میں شمار ہوتے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں ہزاروں نامور علما شامل ہیں جن میں مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت پیر محمد عنایت احمد نقشبندی حضور گنج عنایت و دیگر شامل ہیں
غلام علی اشرفی قادری ولدیت : سلطان احمد چوہدری : گوجر گوت کھٹانہ رضا آباد گجرات
تاریخ پیدائش : 11جون 1920ء(جمعتہ المبارک رمضان 1338ھ)
ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں چک عمر سے پرائمری تک حاصل کی اور پھر " جوڑا کرنانہ "مڈل اسکول میں داخل ہوئے ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز مناظر اسلام فاتح مرزائیت مفتی شیخ محمد عبد اللہ سے کیا بعد میں حزب الاحناف لاہور کی شاخ جالندھر سے مولانا حافظ عبد المجید گورداسپوری سے گلستان، بوستان، مالابُد پڑھی اور کافیہ تک صرف و نحو علامہ عبد القادر کاشمیری سے پڑھیں اور پھر استاذ العلماء علامہ عبد الجلیل ہزاروی کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام کتب درسیہ متد اولہ پڑھیں ہزاروی صاحب کی نظر نے جلد ہی آپکو کندن بنادیا یہاں تک آپ 1938ء میں موقوف علیہ سے فارغ ہو گئے آپ 1935ء کے اوائل میں یہاں داخل ہوئے تھے ہوشیار پور کے مولانا غلام یاسین کے کہنے پر کچھ عرصہ کے لیے صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی کی خدمت رہ کر تقریر اور مناظرے میں مہارت تامہ حاصل کی
آپ کو جامع شریعت و طریقت علامہ مفتی ابوالبرکات سید احمد صاحب الوری سے شرف بیعت حاصل تھاان کے علاوہ سیدنا پیر طاہر علاؤ الدین الدین گیلانی بغدادی سے سلسلہ قادریہ و اعمال مشائخ کی خصوصی اجازت عطا کی قطب مدینہ شیخ ضیاء الدین مدنی نے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا کی قاہرہ کے شیخ سید حسین قادری شاذلی سے سلسلہ شاذلیہ کی اجازت و خلافت عطا کی شام کے مشہور شیخ محمد رمضان بوطی کردی خالدی نقشبندی نے بالخصوص سلسلہ خالدیہ کی اجازت عطا کی اور آپ سے بھی اجازت طلب کی
غلام علی اوکاڑوی کو اہلسنت کے علما کی طرف سے انھیں شیخ الاسلام و المسلمین، شیخ القرآن والتفسیر، شیخ الحدیث، شیخ الفقہ، شیخ الادب، شیخ العلوم، شیخ العرب والعجم، شیخ العلماء والفضلاء ،شیخ المشائخ، شیخ الشریعہ ،شیخ الطریقہ، جیسے خطابات دیے گئے۔[1]
شیخ القرآن کا مشغلہ دینی مدارس کے طلبہ کو درسی کتب کی تعلیم دینا تھا، ساری زندگی اسی شغف میں لگے رہے، اس کے ساتھ آپ دورہ تفسیر قرآن کورس کے نام سے دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات میں اہتمام کرتے جو بڑی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ کیونکہ اس میں برسوں کی ریاضت کا نچوڑ ہوا کرتا۔ اس میں اعتقادی ،علمی اور فقہی مسائل آسان طریقے سے سمجھائے جاتے۔
شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی کی کاوش سے 1954ء میں جامعہ حنفیہ اشرف المدارس اوکاڑہ کا قیام ہوا جو علم کا ایک روشن مینار ہے۔ اس سے قبل آپ سیالکوٹ میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے جب آپ اوکاڑہ تشریف لائے تو آپ کے شاگرد خطیبِ پاکستان حضرت مولانا علامہ محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت علامہ پیر محمد عنایت احمد نقشبندی المعروف حضور گنج عنایت ہمراہ موجود تھے ۔۔
اس وقت اشرف المدارس اوکاڑہ اپنی دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے
سیاسی و مسلکی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے تحریک پاکستان سے تحریک نظام مصطفے ٰ تک ہر پلیٹ فارم پر نمایاں خدمات ہیں سنی کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ عالمی سنی کانفرنس ملتان اور میلاد مصطفے ٰ کانفرنس رائے ونڈ ان کے کا رہائے نمایاں میں شامل ہیں۔[2]
شیخ القرآن کا شمار ان معدودے چند علماءکرام میں ہوتا ہے جن کی علمی فضیلت ‘ تقوی وطہارت اور عظمت کردار کے اپنے پرائے سب معترف تھے۔
11صفر المظفر 1421ھ بروز منگل بمطابق 16مئی 2000ء کو عالم ربانی نے جناح ہسپتال لاہور میں وصال فرمایا