فخرالدین جی ابراہیم | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
اٹھارویں گورنر سندھ | |||||||
صدر | غلام اسحاق خان | ||||||
وزیر اعظم | بے نظیر بھٹو | ||||||
| |||||||
مدت منصب 19 اپریل 1989 – 6 اگست 1990 | |||||||
پاکستان کے دوسرے اٹارنی جنرل | |||||||
مدت منصب 20 دسمبر 1971 – 5 جولائی 1977 | |||||||
صدر | ذوالفقار علی بھٹو فضل الہی چوہدری | ||||||
وزیر اعظم | ذو الفقار علی بھٹو | ||||||
نائب | یحیی بختیار | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 12 فروری 1928ء احمد آباد |
||||||
تاریخ وفات | 7 جنوری 2020ء (92 سال) | ||||||
مدفن | میوہ شاہ قبرستان ، کراچی | ||||||
رہائش | کراچی | ||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
||||||
مذہب | اسلام | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | گجرات ودھیا پاتھ | ||||||
پیشہ | منصف ، وکیل ، جنگ مخالف کارکن | ||||||
اعزازات | |||||||
درستی - ترمیم |
فخر الدین جی ابراہیم جو عام طور پر فخرو بھائی کے نام سے جانے جاتے ہیں، پاکستان کے نامور قانون دان اور سابق گورنر سندھ ہیں۔ آخری عہدہ انتخابی لجنہ کی سربراہی تھا۔
2 فروری 1928ء کو برطانوی ہندوستان کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے ہے۔ پڑھائی میں اچھے تھے ۔
1952 میں انگلینڈ سے قانون پڑھ کر کراچی پاکستان آئے تو روزگار کی تلاش میں نکلے۔ ان دنوں زیڈ اے سلہری صاحب سینٹرل جیل کراچی میں نظر بند تھے۔ جرم ان کا یہ تھا کہ اس زمانے کے اخبار The Evening Time میں ایک کارٹون چھپا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان آگ میں جل رہا ہے۔ اس کارٹون کی اشاعت پر حکومت وقت نے سلہری صاحب کو بند کیا ہوا تھا، سلہری صاحب فخرو بھائی کے بڑے مہربان تھے، انگلینڈ میں بھی وہ ان کا خیال رکھا کرتے تھے لہٰذا فخرو بھائی ان سے ملنے جیل جایا کرتے تھے۔ انہی دنوں ان کو مشہور سیاسی اور پرجوش نوجوان حسن ناصر کے مقدمے کی وکالت کا موقع ملا۔ جو جیل میں اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ قید تھے اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور معافی نہ مانگنے کی ضد کی وجہ سے قید تھے ۔
فخر الدین جج ابراہیم سپریم کورٹ کے جج کے علاوہ، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، گورنر سندھ، اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون کے عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ گورنر، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے عہدوں سے انھوں نے حکومت سے اختلافات کے بعد استعفا دے دیا تھا۔[1] 1981ء میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج رہے ۔ جنرل ضیاالحق نے 1981ء میں ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا۔ فخروبھائی نے انکار کر دیا اور یوں ’’نوکری‘‘ سے فارغ ہو گئے۔ انتہائی ایماندار، سیدھے اور کھرے انسان ہیں ۔[2]
14 جولائی 2012ء کوالیکشن کمیشن پاکستان کا سربراہ مقرر ہوئے۔ پاکستان کے عام انتخابات 2013ء انھیں کی سربراہی میں ہوئے۔ ضعف العمری کے باعث منتظمی میں ناکام نظر آئے۔ تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کی۔ پھر پاکستان کے صدارتی انتخابات 2013ء تنازع کا شکار ہوئے اور پیپلز پارٹی نے سخت تنقید کی اور پورے انتخابی لجنہ سے استعفی دینے کا مطالبہ کر ڈالا۔ دل برداشتہ ہو کر فخرو بھائی نے صدارتی انتخابات کے فوری بعد 31 جولائی 2013ء کو استعفی دے دیا۔[3]
آپ نے 7 جنوری 2020ء کو کراچی میں بعمر 91برس وفات پائی، قبرستان میوہ شاہ میں تدفین ہوئی [5]