قاضی ثناء اللہ پانی پتی

قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1730ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پانی پت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1810ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پانی پت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ مظہر جان جاناں   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ منصف ،  قاضی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنے عہد کے عظیم فقیہ، محدث، محقق اور مفسر تھے۔ مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی انھیں بیہقی وقت کہا کرتے تھے۔

ولادت

[ترمیم]

آپ کی ولادت 1143ھ بمطابق 1730ء تا1731ء میں پانی پت (مشرقی پنجاب) ہوئی۔

مولد و مسکن

[ترمیم]

قاضی محمد ثناء اللہ ہندستان کے مشہور شہر پانی پت کے محلہ قاضیاں میں پیدا ہوئے اور زندگی کا اکثر حصہ یہیں پر گزارا آپ کے بڑے بھائی قاضی محمد فضل اللہ نے والد کی وفات کی بعد پرورش و تربیت کی۔

نام و نسب

[ترمیم]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء کی اولاد سے ہیں۔ آپ کے والد کا نام قاضی محمد حبیب اللہ عثمانی جو جید عالم دین اور صوفی کامل تھے اور والدہ کانام بادشاہ بیگم تھاان کے والد شیخ محمد عابد سنامی کے خلیفہ تھے۔

القابات

[ترمیم]

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے انھیں بیہقی وقت کا لقب دیا اور مرشد گرامی مرزا مظہر جان جاناں نے علم الہدی کا لقب دیا اور ان کے ساتھی انھیں ثناء اللہ کی بجائے سناءاللہ(اللہ کی چمک) کہتے جس سے ان کے روحانی مرتبے اور مقام کی نشان دہی ہوتی ہے۔

تحصیل علوم

[ترمیم]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے سات برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر علوم نقلیہ و عقلیہ کی تحصیل میں مشغول رہے اس سلسلے میں دہلی گئے جہاں شاہ ولی اللہ سے علم حدیث حاصل کیا 16یا 18 برس کی عمر میں تکمیل علوم کی۔ اس کے بعد اپنے وطن آئے اور باقی زندگی افتاء، تصنیف و تالیف اور نشر علوم میں گزاری۔

علمی مقام

[ترمیم]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے قلم سے متعدد کتب نافع اور مقبول نکلیں ،فقہ اور اصول میں مرتبہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے تفسیر ،کلام اور تصوف میں انھیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ پانی پت میں منصب قضا پر فائز رہے اور اس کا حق ادا کیا۔

بیعت و خلافت

[ترمیم]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے حافظ محمد عابد لاہوری سنامی احمدی لاہوری نقشبندیشیخ محمد عابدسنامی کے دست حق پرست پر بیعت کی اور علم طریقت (نقشبندیہ) حاصل کیا۔ ان کے وصال کے بعد اور ایک روایت کے مطابق ان کے ارشاد پر میرزا مظہر جان جاناں دہلوی سے کسبِ فیض کیا۔ میراز مظہر جان جاناں ان کے جوہر سے بہت متاثر تھے انھیں علم الہدٰی کا لقب دیا انھوں نے قاضی ثناء اللہ کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ اگر اللہ تعالی نے بروز حشر مجھ سے پوچھا کہ میری بارگاہ میں کیا تحفہ لائے ہو تو میں کہوں گا ثناء اللہ پانی پتی لایا ہوں ۔

تصنیف و تالیف

[ترمیم]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی علم تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور تصوف میں نہایت فاضل تھے۔ آپ 30 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔

وفات

[ترمیم]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی وفات یکم رجب 1225ھ بمطابق 2 اگست 1860ء کو ہوئی۔[2]

اقوال زریں

[ترمیم]
  • صوفیوں اور صاحبِ دل لوگوں اور ولیوں کی ہمنشینی و صحبت اللہ کے ذکر و عبادت سے بھی زیادہ مفید ہے، صحابۂ کرام کہا کرتے تھے "إجلس بنا نؤمن ساعۃ"یعنی ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ہم آپس میں ایمان تازہ کریں۔
  • قرآن میں ولی متقی کو فرمایا گیا ہے اور حدیث میں ولی اسے فرمایا گیا ہے جس کی صحبت میں خدا یاد آئے یعنی محبت دنیا اس کی صحبت میں کم ہو جائے اور اللہ کی محبت زیادہ ہو جائے، واللہ اعلم اور جو شخص متقی نہیں ہے وہ اللہ کا ولی بھی نہیں ہے، لہٰذا ہر آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دینا چاہیے، اس لیے کہ بہت سے ابلیس صورت میں رونما ہوئے ہیں۔
  • حضور کے نورِ باطن کو درویشوں کے سینہ سے حاصل کرنا چاہیے اور اس نور سے اپنے سینہ کو روشن کرنا چاہیے تاکہ فراستِ صحیحہ سے ہر خیر و شر کی دریافت ہو سکے۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تذکرہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی،ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 6،صفحہ 1032 تا 1034،دانشگاہ پنجاب لاہور
  3. [1][مردہ ربط] (اقوال زریں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی)