سید محمد اسماعیل کٹکی | |
---|---|
صدر جمعیت علمائے اڈیشا (ثالث) | |
برسر منصب معلوم نہ ہو سکا – 2005ء | |
پیشرو | بالترتیب: سید فضل الرحمن قاسمی[1] ، ایڈیٹر ہفت روزہ مسلم گزٹ، کٹک[2] سید برکت اللہ برکت (1905ء - 1979ء)[1][3] |
جانشین | سید سراج الساجدین کٹکی قاسمی[1] |
امیر شریعت اڈیشا (اول) | |
برسر منصب 1964ء سے 2005ء | |
جانشین | سید سراج الساجدین کٹکی قاسمی |
رکنِ مجلسِ شوری، دار العلوم دیوبند | |
برسر منصب 1992ء سے 2005ء[4] | |
ذاتی | |
پیدائش | 6 جنوری 1914ء |
وفات | 20 فروری 2005 | (عمر 91 سال)
مدفن | جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم کی 'مدنی مرکز المساجد' کی بائیں جانب |
مذہب | اسلام |
اولاد | محمد احمد میاں قاسمی (بیٹے) محمد محمود میاں (بیٹے) محمد غانم قاسمی (پوتے) |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | تحفظ ختم نبوت |
قابل ذکر کام | یادگارِ یادگیر، قادیانی اسلام، ذرا غور کریں |
اساتذہ | حسین احمد مدنی مرتضی حسن چاند پوری محمد میاں دیوبندی محمد ابراہیم بلیاوی اصغر حسین دیوبندی محمد شفیع دیوبندی محمد رسول خان ہزاروی قاری محمد طیب |
بانئ | جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم، سونگڑہ، کٹک |
سید محمد اسماعیل کٹکی (1914–2005ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، قاری، مقرر اور مناظر تھے۔ بھارت میں خصوصاً ریاست اڈیشا میں تحریک تحفظ ختم نبوت پر ان کی بے بہا خدمات ہیں۔ وہ جمعیت علمائے اڈیشا کے تیسرے صدر اور امارت شرعیہ اڈیشا کے پہلے امیر تھے۔
سید محمد اسماعیل کٹکی کی پیدائش 6 جنوری 1914ء کو رسول پور، سونگڑہ، ضلع کٹک، صوبہ بہار و اڑیسہ (موجودہ صوبہ اڈیشا) میں ہوئی۔[5][6] عطاء اللہ شاہ بخاری اور محمد اسماعیل کٹکی کا ننھیال ایک لکھا ہوا ہے۔[7]
ان کی ابتدائی تعلیم اپنی پھوپھی ”سیدہ خاتون“ کے پاس ہوئی۔[5][8] اس کے بعد ہدایۃ النحو تک کی تعلیم؛ فاضلِ دیوبند محمد عمر قاسمی کٹکی کے قائم کردہ مدرسہ؛ ”مدرسہ اسلامیہ، سونگڑہ“ میں ہوئی۔[9]
متوسط و اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد پہنچے اور وہیں پر شرح وقایہ تک کی تعلیم حاصل کی اور وہاں محمد میاں دیوبندی، محمد اسماعیل سنبھلی، عبد الحق مدنی اور قدرت اللّٰہ قدرت جیسے جبالِ علم اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔[8][9]
اس کے بعد وہ دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں ان کا داخلہ ہو گیا۔[8][10] دورۂ حدیث سے ان کی فراغت؛ 1353ھ (مطابق 1934ء) میں ہوئی۔[11] صحیح البخاری؛ حسین احمد مدنی سے پڑھی۔[11]
دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مزید چھ ماہ انھوں نے عظیم مناظر مرتضی حسن چاند پوری کے پاس رہ کر فن مناظرہ پر ان سے تربیت لی اور ان سے مناظرہ کے اصول و ضوابط سیکھے، زمانۂ طالب علمی ہی میں وہ ایک کامیاب مناظر بن چکے تھے۔[8][10][6]
حسین احمد مدنی اور مرتضی حسن چاند پوری کے علاوہ ان کے دیگر اساتذۂ دار العلوم میں محمد ابراہیم بلیاوی، محمد طیب قاسمی، محمد رسول خان ہزاروی، محمد شفیع دیوبندی، اصغر حسین دیوبندی، اعزاز علی امروہوی، نبیہ حسن دیوبندی اور عبد السمیع دیوبندی شامل تھے۔[8][10]
روایتِ حفص عن عاصم سے وہ قاری بھی تھے، مدرسہ شاہی مرادآباد کے اندر قاری محمد عبد اللّٰہ اور دار العلوم دیوبند میں قاری عبد الوحید دیوبندی سے انھوں نے تجوید و قراءت کی مشق بھی کی تھی۔[12]
تعلیم سے فراغت کے بعد اولاً وہ راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک میں سیکنڈ مولوی کی حیثیت سے فارسی و اردو کے استاذ مقرر ہوئے۔[13][14] پھر 1947ء تک کوراپٹ، اڈیشا میں وہ اسکول کی سرکاری ملازمت میں مشغول رہے۔[6][5]
1946ء ہی میں وہ حسین احمد مدنی کے ایما پر اڈیشا ہی میں تحفظ ختم نبوت کی ایک تحریک ”انجمن تبلیغ الاسلام“ سے منسلک ہوکر سرگرمِ عمل ہو چکے تھے، یہ تحریک 1945ء میں سونگڑہ ہی کے اہل فکر افراد نے قائم کی تھی۔[6] انھیں کے انتظام میں 1946ء میں باقاعدہ جامعہ مرکز العلوم قائم کیا گیا، جہاں وہ تدریسی و اصلاحی خدمات میں مشغول ہو گئے۔[6][15]
فراغت کے بعد سے لے کر نوے کی دہائی تک انھوں نے نوے سے زائد مناظرے کیے،[10] جن میں ردِّ قادیانیت پر ہونے والے مناظروں میں 1958ء کا مناظرۂ بھدرک، 1963ء کا مناظرۂ یادگیر[16]، 1988ء کا مناظرۂ کتہ گوڑم اور ردِّ بریلویت پر ہونے والا 1979ء کا مناظرۂ بارہ بٹی اسٹیڈیم مشہور ہے۔[6]
ان کی کوششوں سے تقریباً آٹھ ہزار قادیانیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا،[10][17] اور ان کی وعظ و تقریر اور اظہارِ حق و ابطالِ باطل سے لاتعداد مسلمانوں کا ایمان مضبوط و مستحکم ہوا۔[18]
رد قادیانیت پر ان کی بے بہا خدمات ہیں۔[19] قادیانیوں کے مشہور مناظرین مفتی صادق، سرور شاہ، محمد حنیف کشمیری، غلام احمد مجاہد اور محمد سلیم وغیرہ کو بار بار عبرت ناک شکست دی۔[10] بریلوی مناظرین میں ارشد القادری اور حبیب الرحمن بھدرکی سے بھی ان کا اپنے رفقا کے ساتھ مناظرہ ہوا اور کامیاب بھی رہے۔[6]
وہ 1964ء سے وفات تک یعنی 2005ء تک 41 سال وہ امارتِ شرعیہ، اڈیشا کے پہلے امیر رہے۔[6][8] انھوں نے اپنی وفات تک تقریباً نصف صدی تک جمعیت علمائے اڈیشا کے تیسرے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[6]
1986ء میں ”کل ہند مجلسِ تحفظِ ختم نبوت“ کا انھیں نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔[18][20]
1992ء میں وہ مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کے رکن بنائے گئے اور اپنی وفات یعنی 2005ء تک 14 سال اس عہدہ پر فائز رہے۔[4][19] وہ رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی طرف سے اڈیشا کے صوبائی صدر بھی رہے ہیں۔[21]
وہ کانگریس کے حامی تھے اور اخیر عمر تک اسی سے منسلک رہے[5] اور تحریک آزادی میں بھی سرگرم رہے۔[5][22] جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔[9]
مشہور پاکستانی مناظرین لال حسین اختر اور محمد حیات سے ان کے دوستانہ مراسم تھے، نیز 6 اپریل 1999ء کو مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ میں محمد طلحہ کاندھلوی کی مہمان نوازی کے موقع پر محمد اسماعیل کٹکی نے منظور احمد چنیوٹی کی مجاہدانہ خدمات سے خوش ہوکر ان کی دستار بندی فرمائی تھی۔[7]
ان کے تلامذہ میں سے بعض مشاہیر کے نام درج ذیل ہیں:[6]
نام | تعارف | حوالہ |
---|---|---|
سید سراج الساجدین کٹکی قاسمی (متوفی: 21 اکتوبر 2006ء) | جمعیت علمائے اڈیشا کے چوتھے صدر، امارت شرعیہ اڈیشا کے دوسرے امیر اور مجلسِ عاملہ، دار العلوم دیوبند کے رکن (یہ اسماعیل کٹکی کے وہ قابل اعتماد شاگرد تھے، جنھیں انھوں نے اپنے نائب کے طور پر منتخب کر لیا تھا[5]) | |
عبد الحفیظ کٹکی مظاہری | مہتمم جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ | |
محمد منظور احمد کٹکی قاسمی | سابق چیئرمین اڈیشا اردو اکادمی، بھوبنیشور | |
محمد جلال کٹکی قاسمی (متوفی: 12 فروری 2021ء) | جمعیت علمائے اڈیشا (الف) کے پہلے صدر؛ بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ دینیہ (ارشد العلوم)، کنی پاڑہ، سبلنگ، کٹک اور امارت شرعیہ اڈیشا کے تیسرے امیر | |
سید کفیل احمد قاسمی | سابق چیئرمین شعبہ عربی و سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ | |
محمد علی کٹکی قاسمی | مہتمم جامعہ سراج العلوم عرفانیہ، سات بٹیہ، کٹک و نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف) | |
عبد السبحان قاسمی نیاگڑھی | اڈیشا کے اڈیہ بولے جانے والے علاقوں؛ جیسے: نیا گڑھ وغیرہ میں ان کی بے بہا دینی خدمات ہیں۔ | |
عبد المنان قاسمی، اسریسر و متوطن بھوبنیشور (متوفی: 28 مارچ 2023ء) | سابق رکن مجلس عاملہ جمعیت علمائے اڈیشا (الف) | |
عبد الستار قاسمی کاکٹ پوری | سابق مہتمم مدرسہ احمد العلوم، فقیر ساہی، کاکٹ پور، ضلع پوری | |
محمد فاروق قاسمی | امارت شرعیہ اڈیشا کے چوتھے امیر، مہتمم جامعہ اشرف العلوم کیندرا پاڑہ اور صدر رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ برائے صوبہ اڈیشا | |
اشرف علی قاسمی | مہتمم مدرسہ قاسم العلوم، بشن پور، بالوبیسی، ضلع جگت سنگھ پور و سابق جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اڈیشا (میم) | |
محمد ابو سفیان قاسمی | نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)۔ | |
محمد غفران قاسمی، بالو بیسی | سابق عبوری صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف) و مہتمم مدرسہ فرقانیہ، بالوبیسی۔ | |
سید انظر نقی قاسمی | استاذ حدیث و ناظم شعبۂ تعلیمات جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، اڈیشا | |
محمد ارشد قاسمی | مہتمم مدرسہ حسینیہ، راورکیلا اور جمعیت علما اڈیشا (الف) کے دوسرے صدر | |
نور اللہ قاسمی جدو پوری (متوفی: 19 جولائی 2022ء) | خلیفہ مولانا سید اسعد مدنی | |
سید شمس تبریز قاسمی | سفیر دار العلوم دیوبند | |
عنایت اللہ ندوی | استاذ دار العلوم ندوة العلماء، لکھنو و مصنفِ ”بین الاقوامی معلومات“ | |
محمد نور الامین صدیقی | مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میوربھنج | |
سید نقیب الامین برقی قاسمی | جنرل سیکریٹری جمعیت علما اڈیشا (الف) و مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، کٹک | |
شاہ عالم گورکھپوری | نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت و استاذِ شعبۂ تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند | [20] |
ان کے علاوہ بھی ان کے تلامذہ کی کثیر تعداد ہے۔[6]
ان کا انتقال 91 یا 92 سال کی عمر میں 11 محرم 1426ھ مطابق 20 فروری 2005ء کو تقریباً رات گیارہ بجے سونگڑہ، کٹک میں ہوا۔[6][8][23]
ان کی وفات پر دار العلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کی میٹنگ (منعقدہ 18 جمادی الاخری 1426ھ بہ مطابق 25 جولائی 2005ء بہ روز پیر) میں افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔[24] نیز ان کی وفات کے موقع پر دار العلوم دیوبند کی سابق دار الحدیث تحتانی میں ایک دعائیہ نشست کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں مرغوب الرحمن بجنوری، عثمان منصورپوری، عبد الخالق مدراسی اور دیگر اساتذہ و طلبۂ دار العلوم دیوبند نے شریک ہوکر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ان کے لیے ایصالِ ثواب کیا تھا۔[8]
ان کی تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:[6][16][25]
دیوبند میں قدیم خانقاہ مدنی کے سامنے مدنی مارکیٹ میں ادارہ پیغام محمود والے، ہردوئی کے مولانا محمد طیب قاسمی نے مولانا مرغوب الرحمن بجنوری کے زمانۂ اہتمام میں ان کی اجازت سے دار العلوم دیوبند سے فضلائے دار العلوم دیوبند کا ریکارڈ حاصل کرکے اس کو ترتیب دے کر اپنے ادارہ ادارہ پیغام محمود سے سلسلہ وار تلامذہ کی فہرست شائع کی اور 2015ء میں تلامذۂ شیخ الاسلام نمبر کو فیضان شیخ الاسلام کے نام سے شائع کیا، جس میں مولانا محمد اسماعیل کٹکی کا سن فراغت 1353ھ لکھا ہوا ہے اور شعبان 1353ھ کو تحقیق کے مطابق 1934ء تھا۔ مطابقتِ سن دیکھیں