مفتی اعظم | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مصطفٰی رضا خان | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 18 جولائی 1892ء بریلی |
||||||
وفات | 11 نومبر 1981ء (89 سال) بریلی |
||||||
رہائش | دفتر مفتی اعظم | ||||||
مذہب | اسلام | ||||||
فرقہ | سنی | ||||||
فقہی مسلک | حنفی | ||||||
رکن | دفتر مفتی اعظم ، اسلامک کیمونٹی آف انڈیا | ||||||
والد | احمد رضا خان | ||||||
والدہ | ارشاد بیگم | ||||||
بہن/بھائی | حامد رضا خان ، مصطفائی بیگم |
||||||
مناصب | |||||||
مفتی اعظم ہند (8 ) | |||||||
برسر عہدہ 1900ء کی دہائی – 1981 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | مصنف ، مفتی ، فقیہ ، محدث ، مفسر قرآن ، مفتی اعظم | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
کارہائے نمایاں | الملفوظ | ||||||
تحریک | بریلوی مکتب فکر ، رضائے مصطفےٰ | ||||||
درستی - ترمیم |
سلسلہ مضامین |
بریلوی تحریک |
---|
|
ادارے بھارت
پاکستان
مملکت متحدہ |
مصطفٰی رضا خان قادری کی
ولادت شریف :۔ حضور مفتیء اعظم ہند کی ولادت 22 (22) /ذی الحجہ 131٠ھ(1310)مطابق 7 (7) / جولائی 1893ء1893 ء بروزجمعہ بوقت صبح صادق علامہ حسن رضا خاں قادری کے دولت سرائے اقدس پررضا نگرمحلہ سوداگران بریلی شریف میں ہوئی۔
مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰی رضا خان قادری بریلوی علم اسلام کے ایک عظیم بھارتی عالم دین اور حنفی فقیہ کے مفتی اعظم تھے۔
ان کی پیدائش 22 ذوالحجہ 1310ھ کو ہوئی ان کا نام محمد رکھا گیا اور وہ مصطفٰی رضاکے نام سے معروف ہوئے۔ انھوں نے جملہ اپنے والد احمد رضا خان، بھائی محمد حامد رضا خان، علامہ شاہ رحم الہی منگلوری، سید بشیر احمد علی گڑھی اور ظہور الحسین رامپوری سے مختلف دینی و دنیاوی علوم و فنون میں تعلیم حاصل کی۔
رضا علی خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلی شادی | دوسری شادی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
(دختر) زوجہ مہدی علی | نقی علی خان | مستجاب بیگم | ببی جان | ||||||||||||||||||||||||||||||
احمد رضا خان | حسن رضا خان | ||||||||||||||||||||||||||||||||
حامد رضا خان | مصطفٰی رضا خان | ||||||||||||||||||||||||||||||||
ابراہیم رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
اختر رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
عسجد رضا خان | |||||||||||||||||||||||||||||||||
انھوں نے جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی میں تقریباً تیس سال تک تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ وہ اپنی جماعت رضائے مصطفٰی کے پلیٹ فارم سے شدھی تحریک جیسی تحریکوں کے خلاف جہاد کرتے رہے اور ایمرجنسی کے دور میں جب حکومت کی جانب سے جبرا نسبندی کرائی جارہی تھی تو آپ نے اس وقت اس کے حرام ہونے کا فتوی صادر کیا اور حکومت کی جانب سے دباؤ بنانے کے باوجود فتوی واپس نہیں لیا اور انھوں نے قیام پاکستان کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔ بہت سے فتاویٰ جات لکھے اور کتب لکھیں۔
آپ کی تصانیف کے متعلق اب تک جو علم ہو سکا ان کی مجموعی تعداد 38 ہے، جو تصانیف، تالیفات اور حواشی پر مبنی ہیں۔[1]
مولانا مصطفٰی رضا خان بریلوی کے بہت سے شاگرد اور خلیفہ ہیں، جن میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
مفتی محمد اعجاز ولی خاں صاحب بریلی
محمد ضیاء المصطفٰی اعظمی(مبارکپور)
مفتی محمد رجب علی نانپاروی
مفتی غلام جیلانی گھوسوی
محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی
غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی
حبیب الرحمن (اڑ یسہ)
علامہ حکیم محمد عارف قادری ضیائی
حاجی مبین الدین امرہوی
علامہ عبد المصطفٰی ازہری
مفتی محمد شریف الحق امجدی گھوسی
قاضی شمس الدین احمد جونپوری
مشتاق احمد نظامی
مولانا محمد سبطین رضا خان
مولانا محمد تحسین رضا خاں
ریحان رضا خاں
مولانا محمد اختر رضا خان قادری
سید مبشر علی میاں
سیدشاہد علی
وغیرہ زیادہ نمایاں ہیں۔
14 محرم 1402 ہجری/11 نومبر 1981ءرات ایک بج کر چالیس منٹ پر فوت ہو گئے۔ جمعہ کی نماز کے بعد لاکھوں افراد نے نماز جنازہ اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں ادا کی اور اپنے والد شیخ الاسلام و المسلمین امام احمد رضا خان بریلوی کے پہلو میں بریلی شہر میں دفن کر دیا گیا۔