شيخ سيد ابوالحساب موسى پاک شہید دسویں صدی ہجری کے ایک صوفی جو سید موسیٰ پاک شہید کے نام سے معروف ہیں،
موسیٰ پاک شہید، سیّد حامد گنج بخش گیلانی کے بیٹے تھے۔ سیّد حامد گنج بخش گیلانی کے والد سیّد عبد الرزاق شاہ گیلانی، دادا سیّد عبد القادر ثانی اور پردادا سیّد شیخ بندگی محمد غوث گیلانی حلبی اوچی تھے جو سیّد شیخ شمس الدین جیلانی حلبی کے اکلوتے فرزند تھے۔
ان کی ولادت 952ھ میں ہوئی
ملتان میں سادات حسنی قادری کی بنیاد حضرت موسیٰ پاک شہید نے رکھی، آپ غوث پاک کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کے مورث اعلیٰ مخدوم محمد غوث بندگی حلب سے ہندوستان میں تشریف لائے تھے، آپ کا ارشاد ہے کہ درویش پر حصول علم لازم ہے مگر اس سے بڑھ کر اس پر عمل کرنا لازم ہے۔
سلسلہ قادریہ کے اہم بزگ جو ملتان، پاکستان میں دفن ہیں، آپ کی کتاب تیسیرالشاغلین کو سلسلہ قادریہ میں تصوف کا نصاب قرار دیا جاتا ہے۔[1]
سید موسیٰ پاک شہید کی عظمت کے لیے اگر صرف اتنا ہی کہہ دیا جائے کہ آپ ہندوستان کے جلیل القدر محدث شاہ عبد الحق دہلوی کے مرشد تھے، توکافی ہوگا، شاہ صاحب نے جس عقیدت و ادب کا اظہار اپنے مرشد سے کیا ہے وہ اصحاب بصیرت اور طالبان حقیقت کے لیے مشغل ہدایت ہے، ایک ایسا شخص جو شریعت کے علم میں یکتائے روزگار ہوا اور جس کا فرمایا ہوا لائق استفادہ اور قابل اعتماد ہو، وہ اپنے پیر و مرشد کے ساتھ عقیدت کے اظہار کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے یہ دیکھنا اور جاننا ہو تو شیخ کتاب اخبار الاخیار کے خاتمہ کا مطالعہ کر نا چاہیے، فرماتے ہیں :
خلاصہ زندگی کا ایک طویل حصہ بارگاہ رب العزت میں پہنچنے کے لیے بلاوسیلہ صرف کر دیا، مگر کچھ حاصل نہ ہوا، بارہا غیب سے وابتغو الیہ الوسیلۃ کا ارشاد پایااوروسیلہ کی تلاش میں سرگرداں رہا، مجھے ایسے شخص کی تلاش تھی جو میری نسبت کو صحیح اور ارادت کو درست کر دے اور یہ جس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دوں، اس کے قدموں کو پکڑلوں بلکہ پوری زندگی اس کے قدموں میں گذاردوں ، بالاخر صدق طلب کام آیا اور اللہ نے میرے لیے ایک ہستی کو بھیجا جو نفس عیسیٰ، جس کا پر سانس آسمان معرفت سے خوان نعمت کا نازل کرتا ہے اور اولین و آخرین کے لیے عید و مسرت پیدا کرتا ہے، جو موسوی مقام رکھتا ہے جس کا جمال خجرہ و جہت سے نکلنے والی آگ کے مانند ہے، پھر اپنے شیخ موسیٰ پاک شہید کو ان القاب سے نوازتے ہیں۔
زین العابدین و امام الصادقین السید التقی النقی
موسیٰ پاک شہید کی وفات 1010ھمیں ہوئی ان کا مزار شہرِ فصیل کے جنوبی حصہ میں واقع ہے۔ جس دروازے سے جسدِ مبارک کو شہر کے اندر لے جایا گیا وہ ’’پاک دروازہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا [2]