واحدپنجابی قصہ (شاہ مکھی: پنجابی قصه،پنجابی: ਕਿੱਸਾ،پنجابی: ਕਿੱਸਾ جمع: قصے) پنجابی زبان میں زبانی قصہ گوئی کا فن ہے جو جنوبی ایشیاء میں جزیرہ نمائے عرب اور معاصر ایران اور افغانستان سے یہاں پہنچا ہے۔[1]
جہاں ایک طرف قصے مسلمان اور/یا قدیم ایرانی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں جس کے تحت زبان زد عام محبت، بہادری، عزت نفس اور اخلاقی برتری بیان ہوئی ہے، ان میں اس قدر سنجیدگی پائی گئی ہے کہ وہ مذہبی حدود عبور کر کے ایک غیر مذہبی شکل اختیار کر گئے تھے جب وہ ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ان قصوں میں ماقبل اسلام پنجابی تہذیب اور لوگ کہانیاں شامل ہو گئی۔[1]
لفظ قصہ (تلفظ پنجابی تلفظ: [kɪssɑ:]) ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب داستانِ رزم یا لوک کہانی ہے۔ یہ تقریبًا سبھی جنوب ایشیائی زبانوں پر اثر انداز ہوا ہے، بالخصوص پنجابی، اردو اور ہندی۔ غیر رسمی استعمال کی صورت میں قصہ سے مراد دلچسپ کہانی یا افسانہ ہے۔
پنجابی زبان اور ادب قصے کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا موضوع محبت، وارفتگی، غداری، قربانی، سماجی اقدار اور وسیع نظام کے خلاف عام آدمی کی بغاوت ہے۔ پنجابی روایات میں دوستی، وفاداری، محبت اور قول کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ اور یہی قصوں میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
قصے لوک موسیقی پر اثر انداز ہوئے ہیں اور ان کی گہرائی اور ساخت میں معاون رہے ہیں۔ یہ روایات نسلاً بعد نسلٍ زبانی اور تحریری شکلوں میں منتقل ہوتے رہے ہیں اور یہ اکثر بچوں کو سنائی جانے والی کہانیوں یا موسیقی ریز عوامی نغموں کا حصہ بنے رہے ہیں۔
ہر قصہ، اگر اسے عوام کے پیش کرنا ہو تو اپنے آپ میں منفرد لوازم رکھتا ہے۔ جو شخص گاکر یا بیانیہ کہ سکتا ہو، ضروری نہیں کہ قصے کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہو۔ سرود کی ندائی پہنچ اور صحیح توقفات، اگر ادائیگی میں بے اعتدالی کا شکار ہوں تو پیش کرنے والے کو بے دم کر کے آگے جاری رکھنا دشوار بنا دیتا ہے۔ زیادہ تر جدید پنجابی موسیقی کے مقررہ گشت (جنہیں گمراہ کن انداز میں بھنگڑا کہا جاتا ہے، قصے کی روایات اور قدیم بیانیوں سے اُپج کر آئے ہیں۔ قصے کے بارے میں ایک دعوٰی یہ بھی ہے کہ یہ پنجابی میں لکھی گئی بہترین شاعری ہے۔ آج تک پشاور، پاکستان کے ْقصہ خوانی بازار میں عوام کے روبرو پیش ہونے والوں کو سننے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔
وارث شاہ (1722ء–1798ء) کا قصہ ہیر رانجھا (جس کا رسمی نام قصہ ہیر ہے)، اپنے وقت کا بہترین قصہ سمجھا جاتا ہے۔ پنجابی تہذیب پر قصوں کا اثر اس قدر گہرا ہے کہ مذہبی قائدین اور انقلابی جیسے کہ گرو گوبند سنگھ اور بابا فرید اپنے پیاموں میں قصوں کا حوالہ دے چکے ہیں۔ پنجاب میں کئی نسلیں روحانی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کی کئی پشتیں خدا کے پیام کو نوعمروں کی محبت بھری داستانوں سے جوڑتی آئی ہیں۔ اسی سے پنجاب میں تصوف کی تحریک کو تقویت ملی ہے۔
سب سے مقبول مصنف/شاعر جس نے پنجابی صوفی قصے لکھے ہیں وہ بلھے شاہ (1680ء-1758ء) تھے۔ ان کا کلام اس قدر مقبول ہے کہ وہ نوجوانوں اور بوڑھوں میں یکساں طور پر مقبول ہوئے ہیں۔ حالیہ عرصے میں جنوبی ایشیاء کے گلوکاروں نے لوک گیتوں کا اپنے گائے نغموں میں بکثرت استعمال کیا ہے۔ مثلاً کلدیپ منک اور دیو تھریکے والا نے تقریبًا ہر قصے کو گایا۔ حالیہ عرصے میں ایک موسیقی البم ربی جسے ربی شیرگل نے گایا تھا، ایک نغمہ رکھتا تھا بلا کی جاناں میں کون جسے بلھے شاہ نے لکھا تھا۔ کچھ سال پہلے ایک اور گلوکار، ہربھجن مان، ایک کینیڈا میں مقیم پنجابی گلوکار نے مرزا صاحبان کی کہانی کو نئے سرے سے پیش کیا تھا، جو پیلو کی تخلیق تھی۔ ضلع منڈی بہاؤالدین، پاکستان کے دائم اقبال دائم نے بھی کئی قصوں کو پنجابی زبان میں لکھا جن میں مرزا صاحبہ، لیلٰی مجنوں، سوہنی ماہیوال، بلال بٹی کے قصے لکھے تھے۔ دائم کی شہرت کا سبب "شاہنامہ"، "کربلا" اور "کمبل پوش" جیسی تحریریں ہیں۔
زیادہ تر پنجابی قصے مسلم شعرا کی جانب سے لکھے گئے ہیں اس زمین پر خانہ بدوش تھے۔ ان میں سب سے قدیم اردو میں لکھے گئے تھے۔ سب سے مشہور قصے چند قصے یہاں نیچے درج ہیں: