چمکور چمکور | |
متناسقات: 30°53′31″N 76°25′27″E / 30.89194°N 76.42417°E | |
بلندی | 278 میل (858 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• کل | 13,920 |
منطقۂ وقت | GMT +5.5 |
رمز ڈاک | 140112 |
چمکور صاحب (انگریزی: Chamkaur) بھارت کا ایک آباد مقام ہے۔یہ ضلع روپنگر کا سب ڈویژنل ٹاؤن ہے۔ [1] چمکور صاحب پہلی جنگ چمکور (1702ء)اوردوسری جنگ چمکور (1704ء کے لیے مشہور ہے۔ یہ جنگیں مغلیہ سلطنت اورگرو گوبند سنگھ کے درمیان لڑی گئی۔ پاکستان کے نامور اردو ادیب اور بیورو کریٹ قدرت اللہ شہابنے اپنی ابتدائی تعلیم بھی چمکور صاحب سے ہی حاصل کی۔
چمکور کی مجموعی آبادی 13,920 افراد پر مشتمل ہے اور 278 میٹر سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے۔
چمکور صاحب کی اکلوتی خانقاہ " بابا صاحبا " تھِی جن کا اصل نام بابا شہاب الدین اور عرف بابا صاحبا تھا وہ اپنے علاقے کے قاضی تھے اور نیل کا کاروبار کرتے تھ۔اُن کے صحن میں نیل کے بھرے ہوئے مٹکے قطار میں رکھے رہتے تھے۔ایک دفعہ آدھی رات کو سکھوں کے گرو اچانک اُن کے پاس آگئے۔ یہ گرو سرہند کے حاکم سے اپنی جان بچانے کے لیے روپوشی اختیار کیے ہوئے تھے۔گرو نے اُن سے کہا " بابا جی اگر میں اس جلتی ہوئی بھٹی میں کود جاوں ، تو شاید میری روحانیت مجھے آگ کے ضرر سے بچالے ، لیکن سرہند کے مغل حاکم سے بچنے کے لیے انسانی وسیلہ درکار ہے ، اگر تمھارے پاس کوئی وسیلہ ہے تو بتاو " اس پر بابا صاحب نے جواب دیا " گرو جی مہاراج ، وسیلہ روحانی ہو یا انسانی اللہ کے حکم کے بغیر میسر نہیں آتا ، آپ اللہ کا نام لے کر اس نیل کے مٹکے میں بیٹھ جائیں ، شاید اللہ اسی میں بہتری دے " اس کے بعد گرو گاڑے گاڑے نیل سے بھرے مٹکے میں بیٹھ گئے اور باباصاحب نے مٹکے کا منہ کپڑے کی جالی سے ڈھانپ دیا ۔ سرہند کے حاکم نے گرو کی تلاش میں اپنی فوج کی مدد سے چمکور صاحب کا کونہ کونہ چھان مارا ، گردواروں کے گرنتھیوں اور نہنگ اکالیوں کو زمین پر لٹا لٹا کے خوب پٹوایا ،گھروں کی تلاشی لی ، گنے کے کھیتوں کو کاٹ کاٹ کے رکھ دیا ، کچھ سپاہی سلام کرنے کے بہانے بابا شہاب الدین کے پاس بھی آئے ، باتوں باتوں میں انھوں نے باباصاحب کے گھر کا جائزہ بھی لیا اور مایوس ہو کر لوٹ گئے ، راتوں رات مغل فوج اپنی مہم پر روانہ ہو گئی صبح سویرے بابا صاحب نے گرو صاحب کو مٹکے سے نکالا اور لباس تبدیل کرنے کے لیے انھیں نئے کپڑوں کا جوڑا پیش کیا-اس کے بعد گرو صاحب نے کہا " بابا جی اب میں کبھی سفید کپڑے نہیں پہنوں گا ، آج سے نیلا رنگ میرے پنتھ کا رنگ مقرر ہوا-گرو صاحب بابا صاحب کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو گئے ، چند روز بعد چمکور کے گردواروں کے گرنتھی ایک وفد کی صورت میں بابا صاحب کے پاس آئے ، انھوں نے بڑے ادب سے ، نیاز سے بابا صاحب کی خدمت میں ریشم کی ایک تھیلی پیش کی اس تھیلی میں گرو صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک فرمان تھا ، جس میں سارے سکھ پنتھ کی طرف سے بابا شہاب الدین کو اپنا محسن مانا ہوا تھا اور اس احسان کے بدلے میں گردواروں کی کچھ زمین بھی دائمی طور پر بابا شہاب الدین اور ان کی اولاد کے حق میں وقف کردینے کی پیش کش تھی ، بابا صاحب نے اس فرمان کی پُشت پر گور مکھی زبان میں ایک تحریر لکھ دی جس کا مفہوم یہ تھا کہ " اگر یہ موقع گرو صاحب کے ساتھ جہاد کا ہوتا تو بخدا شہاب الدین خُود اپنے ہاتھ سے اُن کا سر قلم کر دیتا ، لیکن یہ جنگ حاکم اور محکوم کا سیاسی تنازع ہے ، گرو صاحب کے ساتھ میں نے کوئی احسان نہیں کیا فقط اپنا اخلاقی فریضہ ادا کیا ، اس کی اُجرت میرے لیے حلال نہیں ، زمین کی پیش کش کو میں اپنی آل اولاد پر ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیتا ہوں ، البتہ میری خواہش ہے کہ چمکور کی حدود میں سُوَر کا گوشت لانا بند ہو جائے ، اگر سکھ قوم یہ درخواست مان لے تو یہ اس کی عنایت ہو گی "سِکھوں نے برضا و رغبت اس شرط کو قبول کر لیا اور اس وقت سے چمکور صاحب میں سُوَر کے گوشت کی سخت ممانعت ہو گئی۔ [2]
|
|