کنجر قبیلے کی ایک کشمیری رقاصہ لڑکی کی قدیم تصویر، 1860- عکاسی سیموئیل بؤورنی | |
گنجان آبادی والے علاقے | |
---|---|
بھارت • پاکستان | |
زبانیں | |
کنجری • ہندی • راجستھانی • بھوجپوری • اردو • پنجابی | |
مذہب | |
ہندو مت • سکھ مت • اسلام | |
متعلقہ نسلی گروہ | |
پتھر کٹ • میراثی |
کنجر ، شمالی بھارت، کشمیر اور پاکستان میں بسنے والے ایک خانہ بدوش قبیلے کا نام ہے۔ [1]میراثی قبائل بھی غالباً انہی سے متعلقہ ہیں۔ ان لوگوں کو بسا اوقات ناتھ، بنجارا اور گشتے کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ [2]یہ نام اچھے معنوں میں نہیں لیے جاتے اور ان سے ان لوگوں کا کم تر ہونا مراد لیا جاتا ہے۔
لفظ کنجر کے معانی اور ان لوگوں کو کمتر سمجھے جانے کے ضمن میں جوش ملیح آبادی کا یہ واقعہ باعث دلچسپی ہوگا۔ ایک بار جناب جوش لاہور تشریف لائے تو ایک نوجوان نے ان سے استدعا کی کہ جناب ! میر تقی میر کا ایک شعر سمجھا دیا جائے۔ جوش صاحب نے گلوری منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا، کہئیے میاں صاحب زادے کون سا شعر ہے؟ نوجوان نے بتایا
میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
جوش مسکرائے اور فرمایا، کنجر تنگ کر رہا ہے؟ نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ جوش صاحب بولے، صاحب زادے، یہ پنجاب کا کنجر نہیں ہے۔ گنگا جمن کی وادی میں کنجر، خانہ بدوش کو کہتے ہیں، جس کا کوئی متعین ٹھکانہ نہ ہو۔[3]
پرانے وقتوں میں کنجر زیادہ تر جنگلوں اور بیابانوں میں رہا کرتے تھے۔ یہ لوگ حصول خوراک کے لیے عموماً جنگلی جانوروں کا شکار کرتے تھے اور بعضے دودھ اور گوشت کے لیے بکریاں، گائے اور بھینسیں بھی پالتے تھے۔[4]ان میں سے بیشتر ابھی تک ایک جگہ سے دوسری جگہ پڑاؤ اور نقل مکانی کرتے ہوئے وہی روایتی خانہ بدوشانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ چند ایک شہروں اور قصبوں میں بھی بس گئے ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ یہ لوگ اکثر انتہائی غریب ہو تے ہیں اور حصول روزگار کے لیے ایسے گھٹیا کام بھی کر لیتے ہیں جنہیں امیر لوگ نہیں کرسکتے۔
کنجر قبائل ہند آریائی زبانوں کی ایک غیر معروف کنجری زبان بولتے ہیں لیکن عموماً یہ سبھی پنجابی اور اردو بھی بولتے ہیں۔[5]
کنجر سنسکرت کے لفظ کننا چرا سے ماخوذ ہے۔ کننا چرا کے لغوی معنی جنگل میں آوارگرد کے ہیں۔
کنجروں کا دعوی ہے کہ وہ راجستھانی الاصل ہیں۔ تمام کنجر اپنا شجرہ نسب اجداد مشترک منو گُرو اور اس کی بیوی نتھیا کنجرن سے ملاتے ہیں جن کی بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں مقیم کاشتکار تھے۔
کنجروں کی اکثریت مغلوں کے جورو ستم سے بھاگ کر جنگلوں میں جا چھپی اور وہیں مسکن بنا لیے شکم پروری کے لیے شکار ذریعہ بنایا۔ پنجاب پر مغلوں اور سکھوں کی حکمرانی کے دور میں کنجر جلاد مہیا کرتے رہے۔
کنجروں کا ایک قبیلہ کسی نامعلوم وقت میں مسلمان ہو گیا تھا۔ پنجاب کے مسلمان کنجر اسی قبیلے کی اولاد ہیں۔
برطانوی راج میں جرائم پیشہ قبائل ایکٹ 1871 (Criminal Tribes Act)کے تحت کنجروں کو بطور قبیلہ ، ناقابل ضمانت جرائم کے عادی افراد کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔ [6]
یہ لوگ کلّاد، سپیرلا، دلیال اور رچھبند نامی چار ذیلی خاندانوں /شاخوں میں تقسیم ہیں، ایک پانچواں پتھر کٹ نامی خاندان الگ ہو گیا اور یہ لوگ اب باقی کنجر خاندانوں میں رشتے لیتے نہ دیتے ہیں۔ [7]
سال 1952ء میں جرائم پیشہ قبائل ایکٹ 1871 (Criminal Tribes Act) کی جگہ خوگر جرائم ایکٹ (Habitual Offenders Act) نافذ کیا گیا تو سابقہ شق بابت کنجر غیر موثر ہو گئی، تاہم ان لوگوں کو معاشرے کے لیے ضرر رساں طبقے کے طور پر ہی جانا جاتا رہا ہے۔ کنجروں کو گیہر بھی کہا جاتا ہے جو ہر دو قوانین میں مذکور نہ تھا۔
کنجروں کا روایتی پیشہ شکار تھا لیکن بدلتے وقت کے ساتھ کئی کنجر زراعت سے بھی وابستہ ہو گئے۔ ان کی معیشت کا زیادہ انحصار اب بھی جنگلات پر ہے۔ یہ لوگ دریاؤں کے کناروں سے خس اور سرکنڈے اکٹھے کرتے ہیں۔ جن سے یہ رسیاں اور بانسریاں بنا کر بیچتے ہیں۔ کنجر جانوروں کی کھالوں سے ڈھول میں استعمال ہونے والا چمڑا بھی تیار کرتے ہیں۔ بہت سے شہری کنجر اب معاوضہ دار مزدور اور رکشہ کھینچنے جیسے پیشوں سے منسلک ہو گئے ہیں۔ [7]
کنجر کمیونٹی کونسل برادری کے تمام معاملات کی نگران ہوتی ہے اور اس کا سب پر اختیار بھی ہوتا ہے۔ برادری کے اندر کے تمام تنازعات و معاملات اسی کونسل کی پنچائتوں میں حل کیے جاتے ہیں۔ ان پنچائتی بیٹھکوں کی سربراہی گاؤں کا مکھیا یا برادری کا سردار کرتا ہے۔ بھارت کے کنجر ہندو اور سکھ ہیں اور ان کی دیوی کا نام ماتا ہے جس کی پوجا تمام کنجر کرتے ہیں۔ [8]
کنجر اپنی روایتی مادری زبان نرسی پرسی سمیت چار سے پانچ زبانیں بولتے ہیں۔ نرسی پرسی میں بہت سے جانوروں اور پرندوں کی آوازیں، خفیہ حروف اور علامات شامل ہیں۔ [9]
راجستھان کے کنجر خانہ بدوش ہیں اور انھیں نسبی طور پر جاٹ برادری سے متعلق گردانا جاتا ہے۔ راجستھانی کنجروں کی اکثریت بھیلواڑا، چتورگڑھ، بانسوارا اور ٹونک کے اضلاع میں ہے۔ یہ لوگ میواڑی زبان بولتے ہیں اور مندرج قبائل (Scheduled Caste ) کا درجہ رکھتے ہیں۔ کنجر مزید بارہ ذیلی (ماورائے زمرہ شادی-exogamous) برادریوں میں تقسیم ہیں۔ جن میں بَمناوَت، مَلوی، کَرخار، چِتراوَت، سِنگھاوَت، کَرماوَت، گُدراوَت، جَھلاوَت، سِنگاؤری، سُکلاوَت، نَناوَت اور کَچھراوَتھ شامل ہیں۔ دیگر کنجروں کے برعکس راجستھان کے کنجر باغبانی اور کاشتکاری کے مزدور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ہندو ہیں اور ماتا سے خصوصی عقیدت رکھتے ہیں۔ [10]
بہار میں کنجر پرندے اور جانور پکڑ کر فروخت کرتے ہیں۔ نیم خانہ بدوشانہ زندگی بسر کرنے کی وجہ سے انھیں قرب و جوار کے دیگر رہاشیوں سے الگ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی بستیاں عموماً دیہاتوں کے باہر ہوتی ہیں۔ یہ کنجر ہندی زبان کا مگہی لہجہ بولتے ہیں۔ بہار میں ان کی اکثریت مدھوبنی اور پورنیہ کے اضلاع میں ہے۔ [11]
بھارت کی 2011ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق اترپردیش میں کنجروں کی آبادی 115,968 نفوس پر مشتمل تھی۔ [12]
پاکستان میں دو مختلف قبیلے کنجر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔صدیوں پر محیط سفر زندگانی کے دوران ان میں سے ایک طبقہ قحبہ گری سے منسلک ہو گیا جبکہ ایک گروہ کاریگری اور تفریح و تفنن طبع کو ذرائع روزگار بنائے ہوئے ہے۔ یہ لوگ گانا بجانا، ناٹک اور سرکس سے منسلک ہیں یا مٹی، سرکنڈوں اور رنگین کاغذوں سے روایتی کھلونے بنا کر گلی گلی بیچتے ہیں۔ کنجروں کی یہ دونوں برادریاں پنجاب میں رہتی ہیں۔کنجر کی اصطلاح ایک قبیلے کے نام سے زیادہ قحبہ گری یا اخلاقی طور پر پست افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔[13][14]
شہر نگاراں لاہور کے قدیم علاقے ہیرا منڈی کے مضافات اس برادری کے گڑھ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس بازار سے امرائے ہند انہی مفلس و نادار برادریوں سے بیویاں خریدتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہاں جب کوئی لڑکی بلوغت کو پہنچتی اور اسے کسی مرد کے سپرد کیا جاتا تو “مِسّی شادی” نام کی دعوت برادری کو دی جاتی تھی۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب بھی پاکستان کے شہر لاہور اور کشمیر کے کچھ علاقوں میں بہت سی کنجر لڑکیوں کو ان کے گھر والے قحبہ گری کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ یہ لڑکیاں ہیرا منڈی کے کوٹھوں پر رہتی ہیں۔ [15]
کنجروں کی زیادہ آبادی لاہور کے شاہی محلہ اور اس کے نواح میں ہے۔ یہ علاقہ صدیوں سے ان لوگوں کا مسکن رہا ہے۔ پاکستان کے کئی نامور موسیقاروں کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق:
“ ایک کنجری طبلے اور گھنگرو کی آواز آنکھ کھولتے ہی سننا شروع کر دیتی ہے۔ اور اس کی رسمی تربیت اس وقت سے شروع کر دی جاتی ہے جب اس کے ہم عمر غیر کنجر عام بچے اسکول داخلے کی عمر کو بھی نہیں پہنچے ہوتے۔ “[16]
کنجروں کے میراثی برادری کے ساتھ خصوصی تعلقات ہوتے ہیں۔ میراثی شمالی بھارت اور پاکستان کے روایتی موسیقار ہیں۔ پاکستان میں کنجر کج رو طرز زندگی والا ایک غیر محفوظ طبقہ ہے، جس کے اپنے روایتی اور سماجی غیر روایتی رویے ہی اس کے خلاف سدِّ امتیاز ہیں۔ بھارت کے برعکس اس برادری کی بہتری کے لیے کوئی مثبت اقدامات نہیں ہیں۔
خانہ بدوش کنجر عموماً آبادیوں میں روایتی کھلونے بیچتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض بھیک بھی مانگتے ہیں اور کچھ لوگوں کے دل بہلاوے کے کام مثلاً لوک گائیکی، رقص، بندر تماشا، ریچھ تماشا اور مختلف کرتب اور شعبدے دکھا کر اپنا پیٹ پالتے ہیں۔
پُکی یا جُھکی پڑاؤ (کیمپ) کنجروں کا سماجی مرکز ہوتا ہے۔ عموماً ایک کیمپ کے رہنے والے آپس میں رشتہ دار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ برادری سے باہر شادی نہیں کرتے اور اس اصول پر بڑی سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ساری شادیاں ایک ہی کیمپ کے باسیوں کے مابین ہوں ایک کیمپ یا پڑاؤ والے دوسرے میں شادی کرتے ہیں لیکن کنجر برادری ہونا لازم ہے۔
اگرچہ خانہ بدوش کنجر ایک مخصوص طرز نقل مکانی کے حامل ہیں لیکن یہ اکثر اپنے طویل المدت قیام کے دیہاتوں سے ربط رکھتے ہیں۔ بہت سے زراعت کے شعبے میں مزدوری بھی کرتے ہیں۔ ان کے جھونپڑے دو نیم بانسوں اور مونج سے بنے ہوتے ہیں۔ ان کی آبادیاں دیہاتوں کے کناروں پر دیکھی جا سکتی ہیں اور کچھ شہری علاقوں میں بھی ان کے پڑاؤ ملتے ہیں جن میں فیصل آباد اور لاہور قابل ذکر ہیں۔ [5]
بھارتی مصنف جے شنکر پرساد نے کنجر قوم کو اپنی ہندی کہانی اندرا جل کا موضوع بنایا۔
اسی طرح لالی ووڈ کی فلم بول کا ایک نمایاں کردار ساقا کنجر ہے۔