اس صفحے میں موجود سرخ روابط اردو کے بجائے دیگر مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاًً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہیں، ان زبانوں سے اردو میں ترجمہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کریں۔
یہودیوں کی تاریخ بھی دیکھیں جس میں انفرادی ملک کی یہودی تاریخ کے روابط شامل ہیں ۔ یہودیوں پر عقوبت کی تاریخ کے لیے سام دشمنی، تاریخ سام دشمنی اور ٹائم تقویم سام دشمنی دیکھیں۔
فارس کا خشیارشا اول سے منسلق ، ملکہ آستر نے اپنی شناخت کروائی اور اپنے لوگوں کے لیے التجا کی ، حامان کی نشان دہی کی کہ ان کو تباہ کرنے کے لیے اس کے قبیح چالوں سے بجایا جائے
460 قبل مسیح
یہودا میں طوائف الملوکی اور افراتفری کے پیش نظر خشیارشا کے جانشین اردشیر اول نے عزیر کو بھیجا تاکہ حالات معمول پر لائیں
مصرجاتے ہوئے یہودیہ سے گزرتے سکندر اعظم نے فونیقی اور غزہ فتح کیا اور شاید یہودی پہاڑی علاقوں میں داخل ہوئے بغیر ۔
200 قبل مسیح–100 عیسوی
اس دور میں کسی مقام پر تنک (عبرانی بائبل) کو بائبل میں شامل کیا گیا ۔ یہودی مذہبی کام جو واضح طور پر عزیر کے وقت کے بعد لکھے گئے اس کی تقدیس کر کے شامل نہیں کیا گیا، اگرچہ بہت سا کام یہودیوں کے کئی جماعتوں میں مقبول ہوئے۔ ان کاموں نے اپنی جگہ یونانی زبان میں بائبل کا ترجمہ ( ہفتادی ترجمہ) کے طور پر بنائی جنہیں فہرست مسلمہ ثانی کتابیں کہا گیا۔
167۔161 قبل مسیح
مکاہی بغاوت کے خلاف ہیلینیائی سلوقی سلطنت یہوداہ مکابی کی قیادت میں ہوئی جس کے نتیجے میں فتح اور حنوکا چھٹی کی تنصیب ہوئی۔
157۔129 قبل مسیح
حشمونی خاندان نے سلوقی سلطنت کے ساتھ نئی جنگ میں اپنی دھاک یہودیہ میں بٹھائی ۔
63 قبل مسیح
پومپی نے ہیکل میں داخل ہونے کے لیے محاصرہ کیا کرنے اور یہودیہ روم کی ایک مؤکل ریاست بنی ۔
40 قبل مسیح–4 قبل مسیح
ہیرودیس اعظم نے رومی سینیٹ کے ذریعے سے یہودیوں کے لیے بادشاہ مقرر کیا۔
ہلل مشر نے سب سے زیادہ تورات کی حکمت سمجھی ، پھر فوت ہونے کے بعد 30 عیسوی تک شمائے کو غلبہ حاصل ہوا ، ہلل اور شمائے دیکھیں ۔
26۔36 ء
رومیوں کی جانب سے یسوع کے مقدمے کی سماعت اور یسوع کی تصلیب ۔
30 ء
آدیابن کی ہیلینا، جو بین النہرین کی ایک بادشاہت کی جاگیردارنی تھی، یہودیت مذہب اختیار کیا آدیابن کے آبادی کی ایک اہم تعداد کے نے اس کی پیروی کی بعد ازاں اس نے رومی یہودی جنگوں میں یہودیوں کو محدود تعاون فراہم کیا ۔ بعد کی صدیوں میں اس برادری نے مسیحیت قبول کی۔
30۔70 ء
ہیکل دوم کے دور میں یہودیت کے اندر فرقہ بندی ۔ ایک فرقے کے اندر اندر ہیلینیائی یہودی معاشرے کے اندر ایک فرقہ یہودی مسیحیت کو فروغ دیتا ہے، ارتداد یسوع کو بھی دیکھیں۔
66۔70ء
پہلی یہودی رومن جنگ ہیکل دوم اور یروشلم کے زوال و تباہی پر اختتام پزیر ہوئی ۔ رومی محاصرے کے دوران میں 1,100,000 افراد ہلاک اور 97,000 کو غلام بنایا گیا۔[1] ایوان (مجلس شوری) کو یوحنان بن زکائی نے یفنہ منتقل کیا ۔جمنیہ کی مجلس بھی دیکھیں۔ رومی سلطنت کے تمام یہود سے محصول کی تحصیل چاہے انھوں نے بغاوت میں حصہ لیا تھا یا نہیں۔
200 – 70ء
تنایم کی مدت میں ، ربیوں نے زبان تورات کو منظم اور واضح کیا ۔ ایسے تنائم کے فیصلوں کو جو ، مشناہ، باریتا، توسفتا اور مدراش کی تالیفات میں موجود ہیں[2]
73 ء
پہلی یہودی رومن جنگ کے آخری واقعات – سقوط مسادا ۔ مسیحیت یہودی فرقے کے طور پر شروع ہوتا ہے اور تحاریر اور نظریات کے ذریعے سے اپنی الگ شناخت تیار کرتا ہے پھر یہودیت سے ہٹ کر ایک جداگانہ مذہب بنتا ہے۔
کٹوس کی جنگ ( ٹراجان کے خلاف بغاوت) – قبرص کی بڑے یہودی برادریوں ، سائرین (جدید لیبیا)، آئیجیپتا (جدید مصر) اور بین النہرین (جدید شام اور عراق) میں ایک دوسری یہودی رومن جنگ شروع ہوئی۔ اس کا نتیجہ سینکڑوں ہزاروں یہودیوں، یونانیوں اور رومیوں کے باہمی قتل اور یہودی باغیوں کی مکمل شکست پر ہوا اور نو تخت نشیں شہنشاہ حدارین کی جانب سے قبرص اور سائرین سے یہود کا مکمل صفایا کیا گیا ۔
131۔136ء
رومی شہنشاہ حدارین ، دیگر اشتعالات کے ساتھ ساتھ ، یروشلم کا نام بدل کر "ایلیا کاپیٹولینا" رکھنا اور ختنہ کو ممنوع کرنا تھا۔ شمعون بار کوخبہ (بار کوصیبہ) نے حدرین کے جواب میں رومی سلطنت کے خلاف ایک بڑی یہودی بغاوت کی۔جس کے بعد، زیادہ تر یہودی آبادی کو ہلاک کر دیا گیا (تقریباً 580,000) اور حدرین نے کی صوبہ یہودیہ کا نام بدل کر شام فلسطینیہ رکھ دیا اور کوشش کی کہ یہودیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
136ء
ربی اکیوا کو شہید کر دیا گیا۔
138ء
شہنشاہ حدرین کی موت کے ساتھ رومی سلطنت میں یہودیوں پر ظلم و ستم میں نرمی ہوئی اور یہودیوں کو تیشا باؤ کے موقع پر یروشلم دورہ کرنے کی اجازت ہوئی۔ آنے والی صدیوں میں یہودی مرکز گلیل (جلیل ) منتقل ہوا۔
رومی شہنشاہ قسطنتین اعظم اول نے نیا پابندیوں کا قانون جاری کیا ۔ مسیحییوں کا مذہب تبدیل کر کے یہودی بنانا کالعدم ٹہرا ، مذہبی اجتماعات کو کم سے کم رکھا گیا ، لیکن یہودیوں کو یروشلم کے ہیکل کی تباہی کی سالگرہ کے موقع پر بھی داخل ہونے کی اجازت دی گئی ۔
351۔352ء
قسطنطیث گالس کے خلاف یہودی بغاوت کچل دی جاتی ہے۔
358ء
رومی ظلم و ستم کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے ، ہلل دوم نے یہودی ماہ و سال کے حساب کے لیے ایک ریاضیاتی کیلنڈر بنایا ۔ اپنانے کے بعد ، کیلنڈر ، طبریہ میں سنھردین کی شوری تحلیل ہوئ ۔
361۔363ء
آخری مشرک رومی شہنشاہ جولین نے یہودیوں کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی جسے تعمیر شدہ حالت میں دیکھنے کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑا" اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر نو کے لیے کوشش کریں۔ تھوڑی دیر بعد ، شہنشاہ قتل کے فورا بعد ، اس کا منصوبہ تحلیل کر دیا گیا ۔
363ء
گلیل میں زلزلہ
379ء
بھارت کا، ہندو بادشاہ شرا پریمل جسے ایرو براہمن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ایک پیتل کے قطبہ پر کندہ اجازت نامہ جاری کیا گیا کہ یہود آزادانہ طور پر رہیں اور کنیسہ کی تعمیر کر سکیں اور اپنی جائداد کی ملکیت کا حق انھیں اس وقت تک ہے جب تک دنیا اور چاند موجود رہیں گے ۔ ۔[4][5]
مہارانی یودوشیا نے یہود کے حرم قدسی (ہیکل) کی جگہ عبادت کرنے کی پابندی ہٹائی اور ان کی جلیل(گیلیلی) میں سربراہی کی اور آواز لگائی "عظیم اور طاقتور یہودی لوگو: جان لو ہمارے لوگوں کی جلاوطنی اختتام کو پہنچی "!
حمیری بادشاہ (جدید یمن) یوسف ذو نواس نے یہودیت اختیار کی ،اور موجودہ یمنی یہودی مرکز کو ترقی دی ۔ اس کی بادشاہت اکسوم اور مسیحیوں کا مابین جنگ میں تباہ ہوئی۔
550ء
بابلی تالمود کی بڑی تدوین راہب راوینہ اور اشی کی زیر نگرانی مکمل ہوئی۔ جبکہ کچھ کچھ اگلے 200 سال تک چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوتی رہیں
700–550ء
سورائیم کے دور میں ، فارسی دانشور(علما) تالمود کو اصلی حالت میں بحال کرتے ہیں۔
572–555ء
بازنطینیوں کے خلاف چوتھی سامری بغاوت نے سامری برادری کو بڑی حد تک کم کر دیا ، انکا اسرائیلی عقیدہ کالعدم قرار دے دیا گیا ۔ قریب کے یہود جو زیادہ تر بحیرہ طبریہ کے آس پاس رہتے تھے وہ بھی ان ظالمانہ اقدامات سے متاثر ہوئے۔
20 یہودی برادریاں بشمول 2 کاہن نے بازنطینیوں کے ظلم سے بچنے کے لیے (یا مسلمانوں کے مطابق آخری موعود ﷺ کی تلاش میں ) حجاز خصوصا مدینہ کی جانب ہجرت کی ۔[6]
جزیرہ نما عرب میں مکمل اسلامی عروج اورتسلط مشرک عربوں کے ساتھ ساتھ یہودی برادریوں پر بھی کلی خاتمہ یا تبدیلی مذہب کی صورت اثر انداز ہوا، جبکہ ارض مقدسہبازنطینیوں کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے زیر تسلط آیا۔
پے در پے مدینہ کے مختلف یہودی قبائل کی جانب سے عہد شکنی اور بغاوت کے بعد 627ء میں جنگ خندق کے دوران میں قبیلہ یہود مدینہ (بنو قریضہ) نے بغاوت کر کے مسلم دشمنوں (قریش مکہ) کی حمایت کی اور بعد ازاں تسلیم ہوجانے کے بعد محمد ﷺ کی جانب سے ان کے بالغ مردوں کا قتل اور عورتوں کو لونڈی بنایا گیا۔[7][7][8][8][9][10][11][10]
628–610ء
گلیل (طبریہ) کے یہودنے طبریہ کے بنیامین کی قیادت میں ساسانی سلطنت کے خسرو دوم اور فارسی یہودیوں کے ساتھ ملکر ہراکل کے خلاف بغاوت کی اور خود مختاری حاصل کی، جو عارضی رہی تاہم کچھ ہی عرصہ بعد ان یہود کا قتل عام ہوا۔
گاؤنیم کے دور میں جنوبی یورپ اور ایشائے کوچک کے یہود غیر روادار مسیحی بادشاہوں اور پادریوں کے تحت رہے۔ جبکہ زیادہ تر یہود مسلمان عرب حکمرانوں کے علاقوں یعنی اندلس، شمالی افریقا، فلسطین، عراق اور یمن میں رہتے رہے۔ وقتا فوقتا ظلم کے ادوار کے باوجود اس دور میں یہودی برادری کی ثقافت اور معاشرتی زندگی ترقی کرتی رہی۔ بلاتفاق تسلیم شدہ یہودی زندگی کے مراکز میں طبریہ اور یروشلم، سورا اور پمبیدتہ (عراق) کے علاقے تھے۔ ان قانونی درسگاہوں کے مہتممین گاونیم تھے جنہیں تمام یہودی دنیا مختلف قسم کے مسائل کے لیے رجوع کرتی تھی۔ اسی زمانے میں طبریہ میں عبرانی رسم الخط کی تنقیط ایجاد ہوئی۔
711ء
مسلمان فوجوں نے سپین پر حملہ کرکے اس کے اکثریتی علاقے پر قابض ہوئے (اس وقت تک یہود تمام تر ہسپانوی آبادی کا %8 بنتے تھے )۔ مسیحیحکومت کے دور میں ، یہود کو بکثرت متشدد مظالم کا نشانہ بنایا گیا ، جبکہ مسلمانوں نے دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ انھیں بھی باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری (ذمی )بنایا ، جو جزیہ ادا کیا کرتے تھے – جبکہ کچھ ذرائع اس دور کو سپین میں یہود کاسنہرا دور گردانتے ہیں ۔
740ء
خزر۔ وسطی ایشیاء کے ایک ترک قفقازی خانہ بدوش قبیلے کے سردار اور بڑوں نے یہودیت قبول کی ۔ ان کی مملکت 10 ویں صدی تک رہی، جسے روسیوں نے آلیا ،اور حتمی طور پہ 1016ء روسیوں اور بازنطینیوں کے بیچ تقسیم ہوا، کچھ سام مخالف دانشوروں کے خیال میں یہی قبیلہ سد ذوالقرنین کے یاجوج ماجوج ہیں۔
760ء
یہود کے فرقے قرائیم نے زبانی قانون کی عمل داری رد کی اور ربیائی یہودیت سے علیحدگی اختیار کی۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید اپنی خلافت میں موجود تمام تر یہود کو حکم جاری کرتا ہے کہ وہ زنار – زرد نشان یا کمر بند زیب تن کریں جبکہ مسیحیوں کو نیلا زیب تن کرنے کا حکم تھا ۔
846ء
سورا(عراق) میں امرام گاون اپنی ثدر کی کتاب تالیف کرتا ہے ۔
850ء
المتوکل ایک حکم نامہ جاری کرتا ہے کہ تمام تر یہود اور مسیحی ذمی ایسے لباس زیب تن کریں کہ ان کی مسلمانوں سے تمیز کی جاسکے، ان کے عبادت خانے مسمار کر دئے جائیں اور سرکاری و دفتری معملات میں ان کی کم از کم مداخلت ہو۔
871ء
اس سال کا ایک نامکمل ازدواجی معاہدہ جو قاہرہ کے بن عزرا کنیسہ سے ملحقہ کمرے سے ملے دستاویزات میں سے قدیم ترین دستاویز ہے جواسی سال مورخہ 6 اکتوبر کودریافت ہوئے۔
یہودی ثقافت کا ہسپانیہ میں سنہرا دور – عبدالرحمن سوم 912ء میں ہسپانیہ کا خلیفہ بنا اور اس کے ساتھ ہی رواداری کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ مسلمان یہودیوں اور مسیحیوں کی لازمی عسکری خدمت ختم کی ، انھیں اپنے قاضی اور شریعت کی اجازت اور جائداد کی حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ یہودی شعرا، دانشور، علما، سائنس دان ، فلسفی اور سیاست دان ترقی پاتے عظیم تر عربی تہذیب کا لازمی حصہ بنے۔ یہ دور قرطبہ کے قتل عام کے ساتھ یعنی 1013ء میں ختم ہوا۔
فاطمی حکمران حکم بامراللہ نے یہود پر کئی پابندیاں لگائی، تمام یہود کو لکڑی کا سنہرا بچھڑا گلے میں لٹکانا ضروری تھا ، جبکہ مسیحیوں کو لکڑی کی صلیب لٹکانے کی پابندی تھی اور تمام زمیوں کو کالے ہیٹ پہننا لازمی تھا
1013ء
سقوط قرطبہ کے دوران میں قتل عام ہوا ،جس کی وجہ سے بہت سے نامور یہود جیسے سموئیل بن نغریلہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
1073۔ 1013ء
مراکش کے راہب اسحا ق الفاسی نے ہلاخہ کی ابتدائی دستاویزات لکھیں جو یہودی شریعت کا مجموعہ ضوابط کی تحریرایک اہم کام تھا
1016ء
تیونس ۔قیروان کی یہودی برادری کو جلاوطنی اور تبدیلی مذہب میں سے چننے پرمجبور کیا گیا۔[12]
1033ء
تمیم کی فوج اور مغراوہ قبیلے نے شہر فتح کرنے کے بعد، قبیلے کے سردار زناتہ بربر بنو عرفان نے فاس میں یہود کا قتل عام کیا۔
غرناطہ قتل عام : مسلمان بلوائیوں نے غرناطہ کے شاہی محل پر ہلہ بول دیا ، یہودی وزیر یوسف بن نغریلہ کی تصلیب کی اور شہر کی بیشتر یہودی آبادی کا قتل عام کیا۔1500 سے زائد یہودی خاندانوں جن میں 4000 افراد ایک دن میں قتل ہوئے ۔[13]
1090ء
غرناطہ کو مرابطین کے بادشاہ یوسف بن تاشفین نے فتح کیا جبکہ یہودی برادری کے بارے میں مانا جانے لگا کہ انھوں نے مسیحیوں کی طرف داری اختیار کرلی، جس کی وجہ سے انھیں تباہی کا سامنہ کرنا پڑا۔ بہت سے یہود کسمپرسی کی حالت میں مسیحی حکومت کے زیر تسلط شہر طلیطلہ (تولیدو) کی جانب فرار ہوئے۔[14]
1095۔1291ء
صلیبی جنگیں شروع ہوتے ہی فلسطین میں آگ بھڑکی۔ صلیبیوں نے عارضی طور پہ 1099ء میں یروشلم پر قبضہ کیا۔لاکھوں یہودیوں کو یورپی صلیبیوں نے تمام تر یورپ اور مشرق وسطی میں قتل کیا۔
بادشاہ ہنری سوم کے ماتحت یہود پر جعلی سکے بنانے کا الزام لگا اور جب مقامی آبادی نے انھیں بدلے کا نشانہ بنایا تو بادشاہ نے انھیں بچانے کے لیے جلا وطن کر دیا[17]
1250–1300 ء
موسی ڈی لیون تورات کی راہب شمعون بار یوحائی اور اس کے مریدوں کی پوشیدہ تفسیر زوہر کی تدوین اور اشاعت کی، اس کے بعد سے جدید قسم کی قبالہ (مخفی یہودی تصوف ) کا آغاز ہوتا ہے
1500–1250 ء
رشونیم (دانہائے قرون وسطی) کا دور – زیادہ تر یہود اس دور میں بحیرہ روم اور مغربی یورپ میں جاگیردارانہ نظام کے ماتحت آباد تھے۔عراق میں مسلم اور یہودی مرکز قوت کے انحطاط کے ساتھ ہی کوئی دنیا بھر میں یہودی قابل ذکرقوت نافذہ نہ رہی جو یہودی قانون ، معملات اور رواج کا فیصلہ کرسکتی۔چنانچہ راہبوں نے تورات اور تالمود کی ایسی تفاسیر اور یہودی قوانین لکھنے کی ضرورت محسوس کی جو دنیا بھر کے یہود کو ان کے علاقوںمیں ہی اس قابل بنا سکیں کہ وہ یہودی روایات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔
1267 ء
موسی بن نحمان یروشلم میں آکر آباد ہوا اور رمبان کنیسہ بنایا۔
راہب لیوی ابن گروشم المعروف جرثونائیڈس چودھویں صدی کا فرانسیسی یہودی فلسفی تھا،جس نے 1317–1329 میں کتاب سفر ملھموت آدونائی (آقا کی جنگوں کی کتاب) لکھی ، جسے بعد میں یہودی ادب میں خاص مقام ملا، ان کے ادبی کام میں دیگر فلسفیانہ تصانیف بھی ہیں ۔
1304۔1394ء
یہود کو متعدد بار فرانس سے جلا وطن کیا گیا اور قیمت لے کر پھر سے آنے کی اجازت دی گئی
1343 ء
مغربی یورپ کے مظلوم یہود کو کزیمیر اعظم نے پولینڈ مدعو کیا
1353–1346 ء
یہود کو سیاہ موت کا قصوروار ٹھہرایا گیا(قرون وسطی کی ضد سامیت دیکھیں)
1348 ء
پوپ کلیمنٹ ششم نے 6 جولائی اور 26 ستمبر 1348 کو فرمان جاری کیے ، بعد والا قوآمویس پرفیڈیم کہلایا ، جس میں یہود پر ظلم و ستم کی مذمت کی گئی تھی اور یہ کہ جنھوں نے یہود کو وبا کا ذمہ دار ٹہرایا وہ خود شیطان کاذب کا شکار ہوئے[19] ۔اس نے اہل کلیسا پر زور دیا کہ یہود کی حفاظت کے لیے اقدامت کریں جیسے اس نے کیے ۔
اشکنازی یہود پر منعقد موجودہ جینیاتی پرکھ کی نشان دہی کے مطابق چودھویں صدی میں اشکنازی یہودی آبادی مذہبی تعصب کی بنا پر کم ہوتے ہوتے 250 سے 420 نفوس تک رہ گئی تھی [20]
راہب یوسف کارو بیس سال لگا کر بیت یوسف مرتب کی، جو یہودی شریعت کی اعلیٰ ترین شرح ہے۔اس نے اس کے بعد مزید مختصر شرح شولکان اروخ لکھی ، جو اگلے 400 سال تک یہودی شریعت پر معیار ٹہری۔ وہ پیدا سپین میں ہوا اور اس کا انتقال صفد ، فلسطین میں ہوا۔۔
1488ء
عبیدہ بن ابراہیم ، مفسرِِ مشناہ یروشلم پہنچا اور ایک نئی یہودی برادری کو نقطہ آغاز دیا۔
1492ء
فرمان ِ الحمرا : تقریباً دو لاکھ یہود کو سپین سے ملک بدر کیا گیا ، جو عرب اور ترک علاقوں کے علاوہ نیدرلینڈز اور کچھ فلسطین میں جا بسے،کچھ وسطی اور جنوبی امریکا گئے۔ تاہم ، زیادہ تر پولینڈ ہجرت کر گئے۔ بعد کی صدیوں میں تمام دنیا کی یہودی آبادی کا 50% پولینڈ ہی میں رہتی رہی۔جبکہ بہت سے یہود نے اعلیٰ الاعلان مسیحیت تسلیم کر کے سپین ہی میں رہے یا آنوسی ہوکر در پردہ یہودی ہی رہے۔
1492ء
سلطنت عثمانیہ کے بایزید دوم نے باقاعدہ دعوتنامے کے ذریعے سمندری جہاز بھیج کر سپین اور پرتگال سے جلاوطن کیے گئے یہود کو اپنے ملک بلوایا۔
اسحاق لوریہ (اریزل) نے یروشلم اور صفد میں مخصوص مریدوں کو قبالہ کی تعلیم دی، جن میں سے ابن تبل، اسرائیل ساروگ خاصکر خائیم ویٹل نے اس کی تعلیمات قلمبند کیں، جبکہ ساروگ کا نسخہ تو فورا ہی اٹلی اور ہالینڈ میں شائع ہوا لیکن ویٹل کا نسخہ تین صدیوں تک مخطوطہ (ہاتھ کا لکھا ) ہی رہا اور شائع نہ ہو سکا۔
1547ء
لوبلیون میں پہلا یہودی (مطبوعۃ) چھاپہ خانہ شروع ہوا۔
پوزنان کے یہود نے مسیحیوں کو اپنے شہر میں آنے پر پابندی عائد کی ۔
1648 ء
پولینڈ کی یہودی آبادی 4,50,000 تک جاپہنچی ( جو پولش لتھوینی دولت مشترکہ کے 1,1000,000 کی آبادی کا 4% بنتا ہے) جس میں بوھیمیہ 40,000 ، موراویہ 25,000۔جبکہ اس وقت کی دنیا بھر کی یہودی آبادی کا تخمینہ 750,000 لگایا گیا۔
1655–1648 ء
قوضاقبوھدان چمیلنکی نے یوکرین میں پولش اشرافیہ اور یہود کے قتل عام کی قیادت کی ، جس میں 65,000 یہود اور اشرفیہ مارے گئے – جبکہ تمام تر یہود کی تعداد100,000تک تھی[22]
1655 ء
اولیور کرامویل نے یہود کو واپس انگلینڈ میں آنے کی اجازت دی۔
اسرائیل بن الیزر، المعروف بعل شیم توو نے حسیدی یہودیت کی بنیاد رکھی ، خدا تک پہنچنے کے لیے پرجوش مراقبے کا ایک طریقہ اختیار کیا۔اس کے اور اس کے مریدوں کے بہت سے معتقدین ہوئے اور کئی حاسیدی فرقے قائم کیے۔ حاسیدیت کے یورپی یہودی مخالفین (مثناگدیم) کا ماننا ہے کہ علمانہ طرز یہودیت پر ہی عمل کرنا چاہیے نہ کہ روحانی یہودیت پر۔ آج کل کہ مشہور حاسیدی فرقوں میں بابور، بسلور،جرجر، لوبائچ اور سطمر شامل ہیں۔
1700ء
راہب یودہ ہی حاسید فلسطین کی جانب مع اپنے سینکڑوں مریدین کے علیا اختیار کیا اور پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد اچانک فوت ہوا ۔
یودہ ہی حاسید کی موت کے بعد ان کے مرید منتشر ہوئے ،جو رہ گئے انھوں نے چالیس گھروں کا اشکنازی محلہ اور کنیسہ بنایا، کچھ ہی عرصہ بعد انھوں نے اس کنیسہ میں عالیشان توسیع شروع کی ، جس کے لیے انھیں بڑ ے سرمایہ کی ضرورت تھی، انھوں نے مقامی عربوں سے قرض لینا شروع کردیاجنھیں وہ ادا نہ کرسکے ، اتنے میں عربوں نے زیر تعمیر کنیسہ کو تحویل میں لے لیا ،چنانچہ انھوں نے چندہ اکھٹا کر نے کی غرض سے یورپ کی جانب قاصدین کی جماعتیں(مشولاخ) بھیجیں ، بیس سال بعد جب یہود قرض کی ادئیگی میں ناکام رہے تو غصہ میں عرب سرمایہ داروں نے قبضہ میں لیا کنیسہ خرابہ کو نذر آتش کر دیا، مقامی اشکنازی برادری کے زعماء کو قید کر لیا اور تمام اشکنازی یہود کو شہر سے بیدخل کر دیا –وقت گزرتے اس کنیسہ کے اطراف میں دکانیں بن گئیں اور بقیہ کھنڈر کو ربی ہاحاسیدی کا کھنڈرکہا جانے لگا۔
موسی مندلسون اور حثکالا تحریک۔ موسی مندلسؤن نے یہود کی تفرید ختم کرنے کی جدوجہد کی تاکہ وہ مغربی ثقافت و تہذیب سے ہم آغوش ہوں اور غیر یہودی (جنٹایل ) انھیں برابری پر تسلیم کریں۔ حثکالا نے جدید یہودی گروہوں اور بطور گفتاری زبانعبرانی کے لیے ترقی کے دروازے کھول دئے۔ لیکن ساتھ ہی اس تحریک نے مسیحی معاشرے میں مکمل طور پہ قبولیت کے خواہشمندوں یہود کے لیے راستہ ہموار کیا جنھوں نے مسیحیت اختیار کی یا یہودیت میں رہ کر مسیحیت کی مشابہت اور اس کی تقلید اختیار کی۔
1740ء
یہود کو امریکی نوآبادیاتی کالونی میں شہریت دینے کے لیے برطانوی مقننہ نے قانون بنایا، اس سے قبل کئی اور کالونیوں نے بھی یہود کو رائج العام طریقہ یعنی مسیحی ایمان پر حلف لیے بغیر شہریت دی۔
مسیح موعود کی پیشنگوئ کے پیش نظر ہزاروں کی تعداد میں یہود فلسطین کی جانب ہجرت کی،اس بڑی ہجرت سے فلسطینی یہودی آبادی کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوا۔[24]
1747ء
کوٹی ، یوکرین کا ربی ابراہیم گرشوم حاسیدی مہاجروں میں سے پہلا تھا –وہ ایک محترم تلمودی دانشور ، روحانی پیر اورربی اسرائیل بعل شیم توو (حاسیدی تحریک کے بانی)کا بہنوئی تھا۔ ربی ابراہیم پہلے پہل الخلیل میں جا بسا ، لیکن پھر اسنے یروشلم کے رہائشیوں کی فرمائش پر ان کے شہرنقل مکانی کی۔[25]
فرانسیسی انقلاب کے تحت فرانس نے کچھ شرائط سمیت یہود کو مکمل حقوق اور شہریت دی۔[28]
1790ء
ریاست ہائے امریکا میں صدر جارج واشنگٹن جزیرہ روڈز کی یہودی برادری کو خط لکھا کہ میں ایسے ملک کا تصور کر رہا ہوں جہاں ’’ تعصب کو حلت نہیں۔۔۔عقوبت کی تائید نہیں ‘‘ باوجود اس کے کہ امریکا ایک پروٹسٹنٹ ملک تھا،نظریاتی طور پہ یہود کو مکمل حقوق دئے گئے۔ مزید برآں مشرقی یورپ کے یہود کے تجارت کے کردار نے امریکا میں آئے یہودی مہاجروں کی ذہن سازی کی ،جس کا مطلب تھا کہ وہ امریکی معاشرے میں تجارتی مقابلے کے لیے خوب تیار تھے۔
1791ء
روس نے ملفوف نوآبادی (محدود علاقہ) تخلیق کیا جو یہودی آبادی والے پولینڈ اور کریمیا کے مكتسب (حاصل کردہ) علاقوں پر مشتمل تھا۔اس ملفوف علاقے کی یہودی آبادی 75,000 تھی جس میں سے 450,000 پروشیا اور آسٹریا پر مشتمل پولینڈ کے حصوںمیں سے تھے[29]
یورپی یہودی روشن خیالی اور آزادی کی تحاریک جو ہلاخاہ پر سختی سے عمل پیراہی کا خاصہ رہی ہیں اس کے رد عمل میں روایت پرست راسخ العقیدہ یہودیت کی تحاریک ابھری جو ان کا مزاحمت کرتی رہیں۔
رضاکار یہودی ملیشیا نے وارسا کی روسیوں سے حفاظت میں حصہ لیا۔
1835–1834 ء
فلسطینی کاشتکاروں نے مصر کے حکمران ابراہیم پاشا کے جبری بھرتی اور ہتھیار ڈالنے کے حکم خلاف مسلح بغاوت کی ،حکومت نواز دروزیوں اور کاشتکار فلسطینی باغیوں کی افراتفری میں صفد، الخلیل اور یروشلم کے یہود بھی درمیان میں مارے گئے۔[32][33][34][35][36] (دیکھیں صفد کی لوٹمار)۔.
ربی اسرائیل صلانطر نے موسر تحریک کی بنیاد رکھی، اس کے مطابق اگرچہ یہودی شریعت پر عمل واجب ہے ، لیکن اسنے موجودہ فلسفیانہ بحث کو رد کیااور اخلاقی تعلیمات کی بطورروحِ یہودیت کی حمایت کی ۔
مثبت تاریخی یہودیت جوبعد میں رجعت پسند یہودیت کہلائی نمودار ہوئی۔
روسی زیر نگرانی مملکت پولستان کے یہود کو مساوی حقوق دئے گئے۔کچھ بستیوں میں یہودی آبادکاری کی پابندی ختم کی گئی۔
لائپزش، جرمنی میں موسی حص نے کتاب روم اور یروشلم شائع کی ، جو فلسطین میں یہودی اشتراکی دولت مشترکہ کے قیام بارے لکھی جانے والی پہلی کتاب تھی، اسی کتاب نے سوشلسٹ ( اشتراکی)صہیونی تحریک کو قوت دی۔
بینجمن ڈزرائیلیمملکت متحدہ کے پہلے وزیر اعظم بنے، وہ پہلے نسلی یہودی تھے جو کسی یورپی حکومت کے سربراہ ہوئے اگرچہ انھوں نے بچپن میں ہی مسیحیت قبول کر لی تھی۔
1890–1870 ء
روسی صہیونی جماعت ہوویوے صہیون (محبان صہیون) اور بیلو (قائم از 1882 ء) نے ارض اسرائیل میں یہودی آبادکاری کاسلسلہ کھڑا کیا،جس کی مالی معاونت بیرن(انگریز نواب) ایڈمنڈ جیمز ڈی رتھشایلڈ نے کی۔
عالمی یہودی آبادی 77 لاکھ تک جا پہنچی ، جو 90% یورپ اور وہاں اکثرمشرقی یورپ میں تھی جبکہ 33 لاکھ کی آبادی سابقہ پولش صوبوں میں تھی۔
1884–1881 ء
1906–1903 ء
1920–1918 ء
روس اور یوکرین میں پوگروم کے تین نمایاں لہروںمیں ہزاروں یہود قتل ہوئے۔جبکہ 22 لاکھ روسی یہود نے وہاں سے ہجرت کی۔
1881 ء
دسمبر 31۔30 کو فلسطین میں یہودی آبادکاری بارے تمام صہیونی انجمنان کی مجلس فوکشانی ، رومانیہ میں ہوئی۔
1903–1882 ء
فلسطین کو وطن بنانے کے لیے یہودی مہاجروں کی علیا کا پہلا ریلا پہنچا۔[38]
1886 ء
ربی سباتو مورائس اور سکندر کوہت نے امریکی اصلاحات کے رد عمل میں رجعت پسند یہودیت کی حمایت شروع کی اور راسخ العقیدہ روشن خیال امریکی یہودی دینیاتی درسگاہ قائم کی۔
1890 ء
'صہیونیت' کی اصطلاح آسٹریائی مروج نیتھن برنبام نے اپنے اخبار سلف امنسپیشن(خود خلاصی) میں پہلی بار وضع کی اور اس کی تعریف یہود کی آبائی وطن ارض اسرائیل واپسی اور یہودی حاکمیت کی بحالی کی قومی تحریک کی۔
فرانسیسی کیپٹن الفرڈ دریفس معاملے کے رد عمل میں تھیوڈور ھرتزل نے درجودن سٹاٹ (اسرائیلی ریاست) نامی کتاب لکھی،جس میں اس نے آزاد اور خومختار اسرائیلی کے قیام کا تصور پیش کیا۔
پہلی روسی مردم شماری : مجموعی طور پہ5,200,000 شمار کیے گئے جن میں سے یہودی علاقے میں 4,900,000 تھے، سابقہ پولستان کے علاقوں میں[توضیح درکار] 1,300,000 یا مجموعی آبادی کا 14% تھے۔
برطانیہ نے ترکوں کو شکست دیکر فلسطین کا قبضہ حاصل کیا اور اعلانِ بالفور جاری کیا جو فلسطین میں یہود کے لیے قومی وطن کے قیام کی باضابطہ طور پہ برطانوی منظوری اور حمایت تھی۔ جس سے یہ واضح طور پہ سمجھا گیا کہ فلسطین میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جائے گا جس سے غیر یہودی طبقے کے شہری اور مذہبی حقوق کو ضرر پہنچے۔ بہت سے یہود اس سے یہ تعبیر اخذ کرتے ہیں کہ فلسطین کو یہودی ریاست بننا تھا۔[39]
فروری 1917ء
تحدیدی آبادکاری کو منسوخ کیا گیا اور یہود کو مساوی حقوق ملے – روسی خانہ جنگی سے دو ہزار پوگروموں نے جنم لیا جس میں ہزاروں افرادکا قتل ہوااور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
انتداب فلسطین کی برطانوی عسکری انتظامیہ سویلین حکمرانوں سے تبدیل ہوئی۔
برطانیہ نے اعلان کیا کہ دریائے اردن اور اس کے مشرق میں فلسطینی علاقے یہودی آبادکاری کے لیے ہمیشہ کے لیے بند رہیں گے تاہم عرب آبادکاری جاری رہے گی۔
ریگا شہر میں پولستانی ۔ سوویت اتحاد کا امن معاہدہ ہوا۔ دنوں اطراف کی عوام کو اپنا ملک منتخب کرنے کا حق دیا گیا۔ سوویت اتحاد میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے کاروباروں پر پابندی لگی، خصوصا یہودی تاجروں پر اور وہ پولستان ہجرت کر گئے۔
پولستان کی مذہبی مردم شماری کے مطابق پولستانی آبادی کا 10.5% تقریباَ 29,89,000 انتیس لاکھ نواسی ہزار یہود تھے جن میں سے 23% ہائی اسکول اور 26% یونیورسٹی کے طلبہ تھے۔
برطانوی حکومت نے سفید کاغذ جاری کیا – جس کے مطابق 1944ء–1940ء تک ہر سال 10,000 یہود کو ہجرت کی اجازت دی گئی ، جبکہ مزید 25,000 یہود کو کسی ہنگامی کی صورت حال میں اجازت دی گئی۔
1945ء–1938ء
مرگ انبوہ کا دورانیہ: تمام تر یورپ میں سے 60 لاکھ یہود کی باقاعدہ نسل کشی کا دعوی کیا گیا۔
1940ء–تاحال
بہت سے یہودی فلم ساز جیسے بلیوائلڈر ، وڈی ایلن، میل بروکس اور کوین برادران نے یہودی فلسفہ اور ظرافت پر فلم سازی کی اور اس زمین میں مشہور اور کامیاب ہوئے۔
1941ء
یکم جون کو بغداد کے مسلم شہریوں نے بغدادی یہود کے خلاف پوگروم کر دیا، جسے الفرھود کہا گیا۔اس میں 200 یہود ہلاک ہوئے یہودی املاک لوٹی گئیں اور گھر نذر آتش ہوئے۔
1948ء–1945ء
بعد از مرگ انبوہ متاثرین بحران: مملکت متحدہ کی جانب سے غیر قانونی طور پہ فلسطین میں داخل ہونے والے یہود پر داخلے کی پابندی۔
1948ء–1946ء
انتداب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد دہشت گردی میں بدلی اور ہگاناہ، اِرگن اور لیہی جیسے گروپ وجود میں آئے۔
سوئز بحران: مصر نے خلیج عقبہ کی ناکہ بندی کی اور اسرائیل کے لیے بحری جہازوں کی آمدورفت کے لیے بند کردی۔ مصری صدر جمال عبدالناصر نے عربوں کو اسرائیل تباہ کرنے کی دعوت دی، برطانیہ اور فرانس اسرائیل و مصر کی جنگ میں شامل ہوئے اور مصر کا سوئز نہر سے ناکہ بندی ختم کروا کر اسرائیل کو ترسیل جاری کروا دی۔
مصری صدرجمال عبدالناصر نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اسرائیل اور مصر کے درمیان ایمرجنسی فورس کو ختم کرے اور اقوام متحدہ کی امن فوج سینا اور غزہ سے 19مئی تک نکل جائے۔
مئی 1967ء
مصری صدرجمال عبدالناصرآبنائے تیرا ن میں بحری آمدورفت کواسرائیل کے لیے اس بنیاد پر بند کیا کہ مصر اسرائیل کیساتھ حالت جنگ میں تھا۔تو جزیرہ نما سینا میں مصریوں کو اسرائیل نے اغوا کرنا شروع کیا۔
10–5 جون ,1967ء
6 روزہ جنگ اسرائیل نے مصر ، اردن اور شام پہ پیشگی حملہ کر دیا، اسرائیلی فضائی قوت نے اکثر زمین پر کھڑے عربوں کے ہوائی جہازوں کو غیر متوقع حملے میں تباہ کیا جس کے بعد زمینی حملہ کردیاجس میں اس نے جزیرہ نما سینا،مغربی کنارہ اور سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر لیا۔
یکم ستمبر ,1967ء
خرطومسوڈان میں عرب حکمرانوں کی بیٹھک ہوئی، تین نقاط پر فیصلہ ہوا، اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور کوئی امن نہیں کیا جائیگا۔
1968ء
ربی موردے چائی نے باقاعدہ طور پہ ایک علاحدہ تحریک تشکیل نو یہودیت کا رہبانی تشکیل نو کالج فلاڈلفیہ قائم کر کے شروع کی[43][44]
1969ء
افریکن عبرانی یہودکا پہلا جتھہ بن عمی بن اسرائیل کی قیادت میں اسرائیل ہجرت کرنا شروع کی۔
دہائی وسطی 1970ء سے تاحال
کلضمیر موسیقی (یورپی یہود کی لوک موسیقی)کی بحالی بڑھی [45][4]
1972ء
سیلی پریسنڈ امریکا کی پہلی خاتون ربی بنی، جو یہودیت کی تاریخ میں باقاعدہ طور پہ بنی دوسری خاتون ہیں ۔[46]
1972ء
1972ء گرمائی اولمپکس میں مارک سپیٹز نے ایک کھلاڑی کی جانب سے کسی گرمائی اولمپکس مقابلوںمیں جیتے گئے طلائی تمغوں میں سب سے زیادہ یعنی 7 جیت کر پچھلوں پہ سبقت لی اورنیا کارنامہ (ریکارڈ)سر انجام دیا۔
سیاہ ستمبرتنظیم نے اسرائیلی کھلاڑیوں کومیونخ کے گرمائی اولمپکس میں یرغمال بنایا جو بعد ازاں انھیں بچانے کی ناکام کوشش کے دوران قتل ہوئے۔
اکتوبر 24–6, 1973ء
جنگ یوم کپور: مصر اور شام نے دیگرعرب قوموں کی مہم جو فوجوں کے ساتھ ملکر اسرائیل پر یوم کپور کے دن حملہ کیا، ابتدائی حملوں کو پسپا کرنے کے بعداسرائیل نے کھوئے ہوئے علاقے واپس لیے اور مصر و شام میں پیش قدمی کی –بالاخر اوپیک نے تیل کی پیداوار میں کمی کی جس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ اورعالمی اقتصادی بحران پیدا ہوا۔
1975ء
صدر جیرالڈ فورڈ نے جیکسن وانیک ترمیم سمیت قانون سازی پر دستخط کیے، جس نے کہ امریکی تجارتی مفادات کو سویت یونین و دیگر کمیونسٹ ممالک سے سے یہود کی ہجرت و انخلا سے جوڑا۔
اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق صہیونیت کو نسل پرستی سے جوڑا جو بعد ازاں 1991ء میں منسوخ کی گئی۔
1976ء
اسرائیل نے انٹیبے ، یوگانڈا لیجائے گئے یرغمالیوں کو چھڑوا کر آزاد کرایا۔
18 ستمبر, 1978ء
کیمپ ڈیوڈ نزد واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیل اور مصر نے ایک جامع معاہدہ پر دستخط کیا جسے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کہا گیا، جس میں اسرائیل کے صحرائے جزیرہ نما سینا سے انخلاء کی شق بھی شامل تھی۔
مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان دیوار برلن ڈھا دی گئی مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت ختم ہوئی اور جرمن اتحاد مکرر کا آغاز ہوا ، جو باقاعدہ اکتوبر َ1990ء کو ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق شامیر کو اندیشہ تھا کہ
”
جس ملک نے یہود کی نسل کشی کی کوشش کی وہ اتحاد مکرر سے دوبارہ یہی کر سکتا ہے
“
کھلے عام اس اتحاد مکررکی مخالفت صرف اسرائیل نے کی ، اگرچہ یورپی ممالک اور نیٹو نجی اور خانگی مخالفت کرتے رہے۔[48]
1990ء
سویت یونین نے تیس لاکھ سویت یہود کے لیے اپنے حدود کو کھول دئے،علیہ کے تحت بہت سے یہود نے وہاں سے اسرائیل اور امریکا ہجرت کی۔
1991ء–1990ء
عراق نے کویت پرحملہ کر دیا جس سے عراق اور کویت مع امریکا میں جنگ چھڑ گئی اور امریکی اتحادی اسرائیل پر عراق نے 39 سکڈ میزائل داغے۔
1991ء
آپریشن سلیمان: 24 گھنٹوں پر محیط فضائی انتقال میں بچے کچھے حبشی یہود کو حبشہ سے منتقل کیا گیا۔
30 اکتوبر, 1991ء
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان میڈرڈ امن کانفرنس ہسپانیہ میں شروع ہوئی، جس میں ہسپانیہ میزبان جبکہ سویت اتحاد اور متحدہ امریکا شریک معاون تھے۔
اسرائیل اور اردن نے باقاعدہ امن معاہدے پر دستخط کیے۔اسرائیل نے متنازع زمین کا کچھ حصہ اردن کو تفویض کیااور ان ممالک نے کھلی سرحدوں اور آزادانہ تجارت سمیت سفارتی تعلقات قائم کیے۔
آرئیل شارون قومہ میں گئے جبکہ نائب وزیر اعظم ایہود المرٹ قائم مقام وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
مارچ 2006ء
ایہود المرٹ نے کدیمہ پارٹی کو اسرائیلی انتخابات میں فتح دلا کر وزیر اعظم کی کرسی سنبھالی۔
جولائی تا اگست 2006ء
حزب اللہ کے سرحد پار حملے کے بعد، 12 جولائی کو لبنان اور شمالی اسرائیل کے مابین عسکری تنازعہ شروع ہوا، 34 دن کی لڑائی اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی منظوری پر ختم ہوئی، جس میں 159اسرائیلی قتل اور تقریباْ 2000 لبنانی شہید ہوئے،جبکہ بہت سے شہری املاک کو بھی سخت نقصان پہنچا۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سطح مرتفع گولان پراسرائیلی عملداری تسلیم کرکے ریاستہائے متحدہ امریکا کو اس علاقے پرصہیونی خود مختاری تسلیم کرنے والادنیاکاپہلاملک بنایا[52] ۔
اگست 2020ء
متحدہ عرب امارت اور اسرئیل نے امن معاہدے پر دستخط کیے.[53]
یہ دن ہولوکاسٹ کے بعد یہود و سرائیل کی تاریخ کا سب سے مہلک دن سمجھا جانے والا دن ،جب 7 اکتوبر 2023 ءکو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1,390 افراد مارے گئے۔[54]
↑Lings, Muhammad: His Life Based on the Earliest Sources، p. 229-233.
↑George F. Nafziger، Mark W. Walton (2003)۔ Islam at War: A History۔ Greenwood Publishing Group۔ صفحہ: 230۔ ISBN978-0-275-98101-3۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اگست 2018الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت)
↑"Jewish History 1090–1099"۔ www.jewishhistory.org.il۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت)
↑"Archived copy"۔ 01 اکتوبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2002
↑"The Pale of Settlement"۔ 1 دسمبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017تحقق من التاريخ في: |access-date=, |archive-date= (معاونت)
↑"Archived copy"۔ 02 دسمبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2002
↑Hastening Redemption: Messianism and the Resettlement of the Land of Israel, Arie Morgenstern, Oxford University Press, 2007
↑Changes in the Position of the Jewish Communities of Palestine and Syria in the Mid-Nineteenth Century, by Moshe Maoz, Studies on Palestine During the Ottoman Period, Jerusalem, Israel, 1975, pp. 147–148
↑"Palestinian History"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت)
↑A descriptive geography and brief historical sketch of Palestine by Joseph Schwarz, translated by Isaac Leeser, published by A. Hart, 1850, p. 399 [1][2]آرکائیو شدہ(Date missing) بذریعہ utom.org (Error: unknown archive URL)