آذر بیگدلی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 7 فروری 1722ء اصفہان |
وفات | سنہ 1781ء (58–59 سال) قم |
شہریت | سلطنت صفویہ |
نسل | آذری [1] |
بہن/بھائی | عشاق اذری بیگدلی |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، ادیب ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی |
درستی - ترمیم |
آذر بیگدلی یا حاجی لطف علی اصفہانی (پیدائش: 7 فروری 1722ء — وفات: 1781ء) فارسی النسل مصنف اور تذکرہ نگار تھے۔ اُن کی وجہ فارسی ادب میں اُن کے تحریر کردہ فارسی زبان کے شعرا کے تذکرہ یعنی ’’آتش کدہ‘‘ ہے۔ جس میں انھوں نے اٹھارہویں صدی عیسوی تک کے تمام فارسی شعراء کا تذکرہ کیا ہے۔
آذر بیگدلی 7 فروری 1722ء کو اصفہان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد آقا خان بیگدِلی تھے ۔ آذر کا تعلق ترکمانوں کے قبیلۂ بِیگدِلی سے تھا کیونکہ اُن کا نسب بیگدِلی خان سے جا ملتا ہے جو اِلدِگِز خان کے چار بیٹوں میں سے تیسرا تھا اور خود اِلدِگِز خان اوغوز خان کے چھٹے بیٹوں میں سے تیسرا تھا۔ غرض یہ کہ لطف علی اِسی نسبت سے بیگدِلی کہلائے۔[2]
نادر شاہ کی حکومت کے پہلے سال میں آذر کے والد آقا خان بیگدلی لار اور سواحل فارس کی حکومت پر فائز کیے گئے۔[3][4] اِسی زمانے میں آذر شیراز آئے اور 2 سال بعد 1738ء میں بندر عباس کے قریب اُن کے والد آقا خان بیگدلی کا اِنتقال ہو گیا تو وہ اپنے چچا حاجی محمد بیگ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کے لیے عراق کے راستے سے حجاز روانہ ہو گئے۔ ادائیگی حج سے واپسی پر مشہدِ مقدس میں امام علی ابن موسیٰ الرضا کے مزار کی زیارت کی۔ اِسی زمانے میں نادر شاہ ہندوستان پر اپنے مشہور حملے کے بعد لزگیوں کے خلاف لشکرکشی کے لیے جا رہا تھا کہ مشہد میں وارد ہوا اور آذر اُس کے ہمراہ ماژندران کے راستے آذربائیجان چلے گئے۔ یہ سفر غالباً مارچ 1741ء میں مشہد سے شروع ہوا تھا۔ آذر عراقِ عجم واپس آئے تو اپنے آبائی شہر اصفہان میں مقیم ہو گئے۔[5]
جون 1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعد آذر اُس کے جانشینوں کی ملازمت کرتے رہے جن میں علی شاہ افشار، ابراہیم شاہ افشار، شاہ اسماعیل افشار، شاہ سلیمان دؤم شامل ہیں۔ 1751ء میں جب کریم خان زند شاہِ ایران بن گیا تو آذر دربارِ شاہی سے الگ ہو گئے اور خود کو علمی کاوشوں کے لیے مختص کرتے ہوئے قم آگئے اور یہیں مقیم ہو گئے۔اواخر عمر میں جامۂ فقر پہن لیا یعنی وہ تصوف کی جانب مائل ہو گئے اور خود کو حکومتی اور شاہی کاموں سے الگ کر لیا۔
آذر بیگدِلی کی وفات تقریباً 59 سال کی عمر میں 1781ء میں ہوئی۔
آذر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سات ہزار اشعار کہے اور انھیں باقاعدہ مُدَوَّن بھی کیا مگر جب نادر شاہ کے عہد میں اصفہان لوٹا گیا تو اُن کا یہ مجموعہ کلام بھی ضائع ہو گیا۔ بعد میں اپنا کلام دوبارہ مرتب کیا۔ دیوانِ آذر کے نسخے بہت کمیاب ہیں اور کتب خانہ رام پور میں ایک دیوان جو آذر کا ہے، 64 اوراق پر مشتمل ہے جس میں تقریباً 200 غزلیں موجود ہیں۔[6][7]