آر پار دکھنے والے ملبوسات (انگریزی: See-through clothing) کا اطلاق ایسے کسی بھی لباس پر ہو سکتا ہے جو اپنے پہننے والے کے جسم کے اعضاء کو دوسروں کے رو بہ رو افشا کر دیتا ہے۔ آر پار دکھنے والے ملبوسات اٹھارہویں صدی عیسویں سے یورپ مں رائج و مقبول رہے ہیں۔ یہ ملبوسات عمومًا خواتین زیب تن کرتی ہیں۔[1] یہ خواتین کے جسم کے مخصوص حصے، مثلًا جسم کا اوپری حصہ یا نچلا حصہ عام مشاہدوں میں لا سکتے ہیں۔ کئی فیشن شو، فلمی انعامی تقاریب اور عوامی جلسے میں متمول پیشہ ور خواتین خاص طور پر اس طرح کے کپڑے پہنتی ہیں۔ کئی بار ان کپڑوں کو انگریزی زبان میں illusion یا چھلاوہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ عورتیں ظاہرًا تو جسم پر کچھ پہنتی ہیں، مگر جسم کے مخصوص حصے سب کو دکھائی پڑتے ہیں۔[2] مشہور اخبارات، رسائل اور ویب گاہ پر ان مواقع کی تصاویر اور ویڈیو موجود ہوتے ہیں اور لباس کے پہننے اور موجود افراد کے تبصرے بھی شائع ہوتے ہیں۔
1980ء کے دہے کے ماہرین نفسیات ایڈمنڈس اور کاہون نے تحقیق سے یہ بتہ کیا وہ خواتین جو بھڑکاؤ کپڑے پہنتی ہیں، عوام میں ان خواتین سے منفی درجہ بندی رکھتی ہیں بہ مقابلہ ان خواتین کی جو نہیں کرتیں۔ مگر چونکہ یہ تحقیقات بیس سال سے بھی زیادہ عرصے پہلے کی ہیں[3]، اس لیے اس بات کے لیے مزید تحقیق در کار ہے کہ موجودہ دور میں سماج اور بالخصوص مغربی کا ان ملبوسات کے بارے میں کیا رویہ ہے۔ جدید دور میں یہ ملبوسات زیادہ عام ہو چکے ہیں اور ان کے بارے میں اخبارات، رسائل اور انٹرنیٹ پر چرچے بھی عام ہو چکے ہیں۔