فائل:Aftab Gull Khan.jpeg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | گوجر خان، برطانوی ہندوستان | 31 مارچ 1946|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | لیگ بریک گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 57) | 21 فروری 1969 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 8 جولائی 1971 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: [1] |
آفتاب گل خان انگریزی:Aftab Gul Khan(پیدائش: 31 مارچ 1946ء گوجر خان، پنجاب)ایک پاکستانی کرکٹر ہے۔[1] جس نے 6 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ایک مضبوط دائیں ہاتھ کے اوپنر، وہ اکثر ایک قابل اعتماد اور موثر بلے باز ثابت ہوئے وہ گجر خان ضلع جہلم میں پیدا ہوِئے۔
آفتاب گل خان نے لاہور، پنجاب، پنجاب یونیورسٹی اور سروس انڈسٹری کی طرف سے کرکٹ کھیلی انھوں نے 1971ء میں انگلینڈ کا دورہ کیا، 41.16 کی اوسط سے 1154 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے۔ لیکن وہ ان بلے بازوں میں سے ایک تھے جو فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنی کامیابی کو اونچے مرحلے پر دہرانے سے قاصر تھے چھ ٹیسٹ میں ان کا بہترین ٹیسٹ 33 تھا۔ 1968-69ء میں وہ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ضمانت پر رہتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ میں نظر آنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ طالب علم رہنما کے طور پر ان کی پیروی ایسی تھی کہ کہا جاتا تھا کہ پاکستانی حکام ٹیم میں ان کے بغیر لاہور ٹیسٹ کھیلنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ آفتاب گل خان ایک اوپننگ بلے باز تھے جنھوں نے 1964-65ء سے 1977-78ء تک پاکستان میں متعدد فرسٹ کلاس ٹیموں کی نمائندگی کی۔ ٹیسٹ ٹیم میں ان کا ابتدائی انتخاب، جب انگلستان نے 1968-69ء کے دوران سیاسی بحران کے دوران پاکستان کا دورہ کیا، تو فسادیوں کو راضی کرنے کی کوشش میں، ایک طالب علم رہنما کے طور پر ان کی پوزیشن کے مقابلے میں ان کی کرکٹ کی صلاحیتوں سے کم تعلق تھا۔ آفتاب گل خان نے 1971ء میں انگلینڈ کے دورے میں 1000 سے زیادہ رنز بنائے تھے۔ اس سیریز میں برمنگھم میں پہلے ٹیسٹ کے پہلے اوور میں ایلن وارڈ کی گیند سے وہ سر پر لگ گئے اور ریٹائر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اس چوٹ نے اگلے دن BBC پر برائن جانسٹن کی مشہور سطر کھینچی: "گل بالکل ٹھیک ہے۔ آج صبح ڈاکٹر نے اس کے سر کا معائنہ کیا اور اس میں کچھ نہیں ملا۔" انھوں نے 1974ء میں انگلینڈ کا دورہ بھی کیا لیکن وہ کم کامیاب رہے اور انھوں نے کوئی بھی ٹیسٹ نہیں کھیلا۔
1969ء میں آفتاب گل کو انگلستان کے خلاف ہوم سیریز میں ٹیسٹ کیپ پہننے کا موقع دیا گیا۔ 21 فروری سے لاہور میں شروع ہونے والے ٹیسٹ میں وہ پہلی بار میدان میں اترے۔ پہلی اننگ میں 12 اور دوسری میں 29 رنز پر ہی محدود رہنے والے آفتاب گل خان کی کراچی کے دوسرے ٹیسٹ میں باری نہ آسکی اور انھوں نے نہ صرف ایک کیچ پر اکتفا کیا۔ اسی سیزن میں انھیں دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف ڈھاکہ میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ یہ میچ بغیر نتیجے کے ختم ہوا۔ آفتاب گل نے صادق محمد کے ساتھ اوپننگ بلے بازی کا آغاز کیا اور پہلی وکٹ کی شراکت میں 53 رنز بنائے۔ آفتاب گل 30 رنز بنا کر ہیڈلی ہورتھ کی گیند پر انہی کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ دوسری باری میں آفتاب گل صرف 5 رنز ہی بنا سکے۔ 2 سال کے بعد انھیں انگلستان کے خلاف انگلستان میں ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا گیا۔
3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں آفتاب گل خان کا سب سے زیادہ سکور 33 رہا جو انھوں نے لارڈز کے میدان پر سکور کیا۔ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میں جو ڈرا رہا آفتاب گل نے ایک بار پھر صادق محمد کے ساتھ اننگ کا آغاز کیا اور سکور میں 68 رنز کا اضافہ کیا جس میں آفتاب گل کا حصہ 28 رنز تھا۔ اس ٹیسٹ میچ کی خاص بات ظہیر عباس 274' آصف اقبال 104 اور مشتاق محمد 100 رنز کی قابل ذکر باریاں تھیں جس کے بل بوتے پر پاکستان نے 7 وکٹوں پر 608 رنز بنا کر اننگز ڈکلیئر کردی۔ انگلستان کی ٹیم آصف مسعود' پرویز سجاد اور انتخاب عالم کی شاندار بائولنگ کے سبب 353 پر آئوٹ ہوکر فالو آن کا شکار ہو گئی جبکہ دوسری اننگز میں انگلستان نے 5 وکٹوں پر 229 رنز بنا کر یقینی شکست کو ٹال دیا۔ لیڈز کے تیسرے ٹیسٹ میں جو آفتاب گل کا آخری ٹیسٹ تھا اس کے بعد وہ کرکٹ کے میدانوں میں ٹیسٹ کرکٹ کی حد تک ہمیں نظر نہیں آئے۔ یہ ٹیسٹ انگلستان نے 25 رنز سے جیت لیا تھا۔ آفتاب گل نے انگلستان کے 316 رنز کے جواب میں صادق محمد کے ساتھ اننگ کا آغاز کیا اور پہلی وکٹ میں ایک مرتبہ پھر 54 رنز کی ابتدائی شراکت مہیا کی۔ انھوں نے 75 منٹ تک کریز پر قیام کیا اور گیفورڈ کی ایک گیند کو وکٹوں سے ٹکرانے سے نہ بچا سکے۔ دوسری اننگز میں ایک مرتبہ پھر صادق محمد کے ساتھ کریز پر موجود تھے مگر اس بار صرف وہ 18 رنز تک ہی محدود رہے جبکہ ان کے ساتھی صادق محمد نروس نائنٹیز 91 کا شکار ہوکر پویلین لوٹ گئے۔ اس طرح آفتاب گل خان کا ٹیسٹ کیریئر اپنے اختتام کو پہنچا۔
وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ آفتاب گل خان نے ابتدائی طور پر 2010ء میں پاکستان کرکٹ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں کرکٹ کھلاڑی سلمان بٹ نے اپنا وکیل مقرر کیا تھا۔
آفتاب گل خان نے 6 ٹیسٹ میچوں کی 8 اننگز میں 182 رنز بنائے جس میں 33 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 22.75 کی اوسط سے یہ تنز بنائے گئے جبکہ 101 فرسٹ کلاس میچوں کی 175 اننگز میں 7 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 6179 رنز بنائے۔ 140 ان کا بہترین سکور تھا۔ 36.77 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 11 سنچریاں اور 42 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 3 اور فرسٹ کلاس میں 47 کیچز بھی پکڑے فرسٹ کلاس میں انھوں نے 14 وکٹ بھی34.50 کی اوسط سے لے رکھے تھے[2]
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |