آل احمد سرور | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1912ء بداؤں ضلع |
وفات | 9 فروری 2002ء (89–90 سال) دہلی |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
آل احمد اردو کے سر بر آوردہ نقاد تھے اور موجودہ نسل کے ادبی مذاق کو نکھارنے میں ان کے تنقیدی مضامین کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ سرور صاحب ایک کھلا ذہن رکھنے والے نقاد ہیں۔ انھوں نے خود کو کسی گروہ سے وابستہ نہیں کیا اور کبھی آزادی فکر و نظر کا سودا نہیں کیا۔ انقلاب روس کے نتیجے میں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو انھوں نے اس تبدیلی کو وقت کا تقاضا قرار دیا اور اس کا خیر مقدم کیا لیکن جب ترقی پسند ادب، ادب نہیں رہا تو وہ اس سے کنارہ کش ہو گئے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں ادب کا مقصد نہ ذہنی عیاشی سمجھتا ہوں اور نہ اشتراکیت کا پرچار۔ سرور صاحب کی تنقید کا ایک خاص وصف ان کا دلنشیں اسلوب ہے جس میں سادگی بھی ہے اور رعنائی بھی۔ ان کی تنقید اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کیے بغیر تخلیق کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے جس سے تنقیدی بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور ایک طرح کا ذہنی سرور بھی۔
اردو ادبی دنیا میں ایک اہم نام، جو نقاد اور شاعر تھے۔ آگرہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ وہاں سے لکھنؤ یونیورسٹی چلے گئے اور پھر علی گڑھ واپس آ گئے اور رشید احمد صدیقی کے وظیفہ یاب ہونے کے بعد صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ اشعار کے ایک مجموعہ سلسبیل اور تنقید کی چار کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی خود نوشت کا نام خواب باقی ہیں ہے۔