آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ | |
---|---|
مخفف | AIMPLB |
ملک | بھارت |
صدر دفتر | 76 A/1, Main Market, Okhla Village Jamia Nagar, New Delhi - 110025 (India) |
تاریخ تاسیس | 7 اپریل 1972 |
مقام تاسیس | Hyderabad |
قسم | NGO |
مقاصد | To protect and promote the application of Muslim personal law in India |
President | Khalid Saifullah Rahmani |
General secretary | Maulana Mohammed Fazlur Rahim Mujaddidi |
باضابطہ ویب سائٹ | aimplb |
متناسقات | 28°33′50″N 77°17′23″E / 28.56398°N 77.28971°E |
درستی - ترمیم |
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند کی ایک غیر حکومتی تنظیم ہے جو سنہ 1972ء میں قائم ہوئی۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ اور بالخصوص مسلم پرسنل لا ایکٹ، 1937ء[1] کو بدستور نافذ العمل رہنے کے لیے مناسب اور ضروری حکمت عملی اختیار کی جائے۔[2][3] نیز بھارت کے مسلمانوں کے نجی معاملات میں شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے، سنہ 1937ء سے قبل ان معاملات میں کچھ مسلمان ہندو رسم و رواج کی پیروی کرتے تھے۔ مذکورہ قانون چند وراثتی معاملات کو چھوڑ کر تمام عائلی قوانین کا احاطہ کرتا ہے۔[4]
مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھارتی مسلم رائے عامہ کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے, ہرچند کہ اس نمائندگی کی کچھ مسلمانوں نے مخالفت بھی کی[5][6][7] لیکن بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں اور مسلکوں نے بورڈ کی نمائندگی پر اتفاق کیا اور عملاً اس کی کارگردگی میں شریک رہے۔ بورڈ میں مسلم معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات موجود ہیں جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علما، ماہرین قانون اور سیاست دان قابل ذکر ہیں۔ تاہم بعض دانشوروں مثلاً سید طاہر محمود، عارف محمد خان اور عدالت عظمی کے سبکدوش جج مارکنڈے کاٹجو[8][9] وغیرہ نے بورڈ کو تحلیل کرنے کی وکالت کی ہے۔[10][11] مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے بھارت میں موجود احمدیوں (قادیانیوں) پر نافذ نہیں ہوتے،[12][13][14] نیز انھیں بورڈ میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہیں ہے کیونکہ عالم اسلام اور تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ احمدی (قادیانی) اسلام سے خارج ہیں۔[15][16] بورڈ کے موجودہ صدر محمد رابع حسنی ندوی ہیں جبکہ دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی، اہل حدیث(سلفی) اور شیعہ مکاتب فکر کی سرکردہ نمائندہ شخصیات بحیثیت نائب صدر منتخب کی جاتی ہیں۔
1972ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کیا گیا جو تمام مذاہب کے لیے تھا۔ اس بل کی رو سے منہ بولے بیٹے کو سگے بیٹے کے تمام حقوق حاصل ہو رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے اس بل کو یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم بتایا تھا۔ اس بل کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے کئی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ سید منت اللہ رحمانی کی تحریک پر دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی نے 13 ،14 مارچ، 1972ء کو دیوبند میں اہل فکر کا ایک اجلاس بلایا جس میں ملک بھر کے علما اور دانشور جمع ہوئے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ مسلم عائلی قوانین کے تحفظ کی پرزور آواز ممبئی سے اٹھ رہی ہے، اس لیے ممبئی میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہونا چاہیے۔
27 ،28 دسمبر، 1972ء کو ممبئی میں ایک بڑے اجتماع میں اجلاس منعقد ہوا۔ ایک طرف لاکھوں عوام کا مجمع تھا تو دوسری طرف حنفی، شافعی، مقلد، غیر مقلد، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، داؤدی بوہرہ، سلیمانی بوہرہ، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علمائے ہند غرض یہ کہ تمام مسلم فرقوں، مسلکوں اور جماعتوں کے رہنما موجود تھے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاسیس پر اتفاق ہوا۔ لہٰذا 7 اپریل، 1973ء کو حیدرآباد، دکن میں بورڈ کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ قاری محمد طیب قاسمی اس کے پہلے صدر اور منت اللہ رحمانی پہلے معتمد عمومی منتخب ہوئے۔[17]
مسلم پرسنل لا بورڈ کے مقاصد حسب ذیل ہیں :
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پہلے صدر حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی تھے، جو 1973ء سے 1983ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ قاری طیب صاحب کی وفات کے بعد مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کو بورڈ کا دوسرا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ 1983ء سے 1999ء کے اختتام تک بخوبی اس فریضہ کو انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد بورڈ کے تیسرے اور سب سے مختصر وقتی صدر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا۔ یہ دور 2000ء سے شروع ہوا اور 2002ء میں ان کی وفات پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد 2002ء میں سید محمد رابع حسنی ندوی کو بورڈ کا چوتھا صدر منتخب کیا گیا جو اب بھی اس عہدے پر فائز ہیں۔ حال ہی میں بورڈ کے پچیسویں اجلاس میں انھیں ایک بار پھر چھٹی مرتبہ بالاتفاق صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔
منت اللہ رحمانی بورڈ کے پہلے معتمد عمومی (جنرل سکریٹری )۔ ان کے بعد سید نظام الدین معتمد عمومی رہے۔ ان کی وفات کے بعد سید محمد ولی رحمانی کو معتمد عمومی نام زد کیا گیا ہے۔[19]
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خدمات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں :
مسلم پرسنل لا بورڈ نے 2003ء میں صوبہ اترپردیش میں ایک ماڈل نکاح نامہ متعارف کرایا تھا جس میں زوجین کو بعض ضروری ہدایات اور ان امور کی نشان دہی کی گئی تھی جن کی بنا پر نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔[20][21]
مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطابق اس نکاح نامے کو جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نکاح و طلاق سے متعلق مسلم معاشرے میں موجود ناہمواریوں اور برائیوں کا سد باب کیا جا سکے۔ چنانچہ اس نکاح نامے میں زوجین اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اپنے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی، شادی کی رسومات میں اسراف اور فضول خرچی نیز جہیز کے نام پر رقم اور اشیا کے مطالبات پیش کرنے سے منع کیا گیا اور مہر ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مزید اس نکاح نامے میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ ایک اقرار نامہ بھی موجود ہے جس کے تحت زوجین کو یہ معاہدہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی شریعت کے مطابق گزاریں گے اور تنازع کی صورت میں یک طرفہ فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے کسی بڑے، دار القضا یا کسی مستند ادارے کے سامنے اپنا معاملہ پیش کریں گے۔ نکاح نامے میں قاضی کی ذمہ داریاں بھی بیان کی گئی ہیں نیز مسلمانوں کو ایک ہی مجلس اور ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔[22]