ابن السکیت | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: يعقوب بن إسحاق بن السكيت البغدادي) |
پیدائش | سنہ 802ء [1] بغداد |
وفات | 17 اکتوبر 858ء (55–56 سال) بغداد |
وجہ وفات | قتل |
طرز وفات | سزائے موت |
شہریت | دولت عباسیہ |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | ابوحنیفہ دینوری |
پیشہ | ماہرِ لسانیات ، ماہرِ علم اللسان ، شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | قواعدِ زبان ، عربی |
درستی - ترمیم |
ابن السکیت – ابو یوسف یعقوب بن اسحاق ابن السکیت الدورقی الاہوازی البغدادی (پیدائش: 802ء – وفات: 17 اکتوبر 858ء) خلافت عباسیہ کے نامور ممتاز لغت نگار، نحوی، عالم، ادیب اور مصنف تھے۔
ابن السکیت کی پیدائش 186ھ مطابق 802ء میں بغداد میں ہوئی۔ ابن السکیت کے والد اسحاق ابن السکیت کے متعلق ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں سوائے اِس کے کہ وہ قصبہ دَورَق کا باشندہ تھا جو خوزستان میں واقع ہے۔ اسحاق عربی لغت و شعر میں خاصی دسترس رکھتا تھا۔ ابن السکیت بظاہر خود بغداد میں پیدا ہوا تھا، اِسی لیے اُسے بغدادی لکھا جاتا ہے۔
ابن السکیت نے عربی صَرف و نَحو کے ابتدائی اُصول اپنے والد اسحاق سے سیکھے اور نو عمری میں ہی تدریس کا کام شروع کر دیا۔ بغداد کے محلۂ دَرْب القَنطَرہ کے مدرسہ میں اپنے والد کے ساتھ معاون کی حیثیت سے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ تدریس کا یہ کام بالکل ادنیٰ درجے کا رہا ہوگا کیونکہ جب اُسے کسبِ معاش کی فکر دامن گیر ہوئی تو اُس نے ابو عمرو اسحاق بن مُرار الشَّیبانی سے تحصیل علم شروع کردی۔ اِن دِنوں علم صَرف و نحو اور علوم لُغویہ کا بڑا چرچا تھا اور ہر ذہین و ہونہار طالب علم انھیں علوم میں کمال حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مشہور روایت ہے کہ ایک بار حج کے موقع پر ابن السکیت کے والد نے دعا مانگی کہ: ’’ اے خدایا! میرے بیٹے کو صَرف و نَحو کا عالم بنا دے‘‘۔ یہ بات آگے چل کر درست ثابت ہوئی۔[2]
ابن السکیت علم صَرف و نَحو میں کوفہ کے دبستان کا پیرو تھا تاہم زبان اور صَرف و نحو کی تکمیل کے لیے اُس نے بصرہ کے لغوی دبستان کی جانب بھی رجوع کیا۔ علاوہ بریں کوفی مدرسہ فکر اپنی انفرادیت کھوچکا تھا اور کوفی علما خود بغداد کی طرف رجوع کرنے لگے تھے کیونکہ بصرہ اُس زمانے میں مرکزِ علوم بن چکا تھا۔ مگر پیدائش اور تحصیل علم کے لحاظ سے ابن السکیت کا ذِکر بغداد کے علما میں ہوتا ہے جہاں اُس نے تمام عمر بسر کی۔ ابن ندیم نے بغداد کے اُن علما کے ساتھ ذِکر کیا ہے جنھوں نے کوفیوں کے ساتھ تحصیل علم کیا۔ المبرد نے بھی ابن السکیت کے شاہکار ’’اصلاح المنطق‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے اُسے بغداد کے علما و مشائخ میں شمار کیا ہے۔ یاقوت الحموی اور جلال الدین سیوطی کے بیان کے مطابق ابن السکیت نے ابوعمرو الشَّیبانی، الفراء، ابن الاعرابی اور الاشرم سے براہِ راست اخذِ علم کیا لیکن اصمعی، ابو عبیدہ اور ابو زید سے ابن السکیت نے بالواسطہ روایت کی۔ ابن ندیم نے لکھا ہے کہ: ’’ابن السکیت صحرا کے فصیح البیان عربوں سے ملتا رہتا تھا اور جو کچھ اُن سے حاصل کرتا تھا، اُس کو وہ اپنی تصانیف میں درج کردیتا تھا‘‘۔ [3][4] [5]
ابن السکیت کی اولین حیثیت لغوی کی ہے۔ زَبِیدی اپنی تصنیف ’’طبقات‘‘ میں ابن السکیت کا ذِکر علمائے لغت میں کرتا ہے۔ الانباری نے بھی لغوی لکھا ہے اور ثعلب نے ایک بار اِس کے متعلق کہا تھا کہ: ’’ تمام احباب کا اِس پر اتفاق ہے کہ ابن الاعرابی کے بعد عربی زبان کا عالم ابن السکیت جیسا کوئی اور نہیں ہوا‘‘۔ مختصراً یہ کہ عربی زبان اور قدیم عربی شعر میں ابن السکیت نے خاص کمال حاصل کیا تھا، کیونکہ اُس زمانے میں مؤخر الذکر کا مطالعہ اول الذکر کے مطالعہ کے لیے ازبس ضروری تھا۔ [6]
ابن السکیت کی زندگی کا آخری حصہ المناک گذرا ۔ اُس کے مذہبی خیالات پر تشیع کا رنگ غالب تھا اور اُسے امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور اہل بیت سے والہانہ عقیدت تھی۔ وہ نہ صرف خلیفہ المعتز باللہ کا اُستاد تھا بلکہ المتوکل علی اللہ کا بھی ندیمِ خاص ہو گیا تھا۔ ایک بار دربار میں اُس نے جوش میں آ کر کہہ دیا کہ: ’’ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا تو ذِکر ہی کیا؟ قنبر‘ اُن کا ادنیٰ غلام بھی رتبے میں المتوکل علی اللہ اور اُس کے بیٹوں سے اعلیٰ ہے‘‘۔ خلیفہ المتوکل علی اللہ اِس بات پر مشتعل ہو گیا اور اپنے ترکی محافظ دستوں کو حکم دیا کہ ابن السکیت کو گھوڑوں کے پاؤں تلے روند دالیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ بعض روایات میں ہے کہ المتوکل علی اللہ کے حکم سے ابن السکیت کی زبان کاٹ دی گئی تھی اور زخمی حالت میں ہی اُسے گھر لایا گیا جہاں وہ 5 رجب 244ھ مطابق 17 اکتوبر 858ء کو دار فانی سے کوچ کرگیا۔ [7]