ابن دقیق العید | |
---|---|
(عربی میں: مُحمَّد بن علي بن وهب بن مُطيع بن أبي الطاعة القشيري القوصي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 22 جولائی 1228ء [1][2] ینبو |
وفات | 5 اکتوبر 1302ء (74 سال)[1][2] قاہرہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
استاذ | عز بن عبد السلام |
تلمیذ خاص | ابو حیان الغرناطی ، ذہبی ، Ibn Jamil al-Rabaʿī |
پیشہ | فقیہ ، قاضی ، معلم ، شاعر |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | فقہ |
کارہائے نمایاں | الاقتراح فی بیان الاصطلاح |
درستی - ترمیم |
شیخ الاسلام، امام المجدد ابن دقیق العید (پیدائش: 22 جولائی 1228ء— وفات: 5 اکتوبر 1302ء) تیرہویں صدی عیسوی میں مصر کے شیخ الاسلام، فقیہ، محدث تھے۔
نام محمد بن علی ہے جبکہ نسب یوں ہے: محمد بن علی بن وہب بن مطیع بن ابی طاعہ المنفلوطی القوصی الثبجی المصری المالکی الشافعی۔ کنیت ابوالفتح ہے۔ القابات تقی الدین، ابن القاضی ہیں۔ابن دقیق صحابی رسول بہز بن حکیم القشیری کی اولاد سے ہیں۔[3][4][5] آپ کی والدہ شیخ الصالح تقی الدین مظفر بن عبد اللہ المقترح کی بیٹی تھیں۔[6]
ابن دقیق کی پیدائش 15 شعبان 625ھ مطابق 22 جولائی 1228ء کو بحیرہ احمر کے ساحل پر ینبع کے قریب سمندری سفر کے دوران ہوئی جب اُن کے والدین قوص سے حجاز حج کی ادائیگی کے لیے مکہ پہنچنے والے تھے۔[7]
آپ کی نشو و نما قوص میں ہوئی، جہاں آپ نے مالکیہ اور شافعی علما سے حدیث کا درس لیا۔قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے فقہ مالکی کی تعلیم اپنے والد سے اور فقہ شافعی کی تعلیم اپنے والد کے اور اُن کے شاگرد بہاء الدین ھبۃ اللہ القفطی سے حاصل کی۔ اِس کے بعد قاہرہ چلے گئے اور وہاں محمد بن عبد السلام، ابو الحسن بن فقیر، ابن الرواج سے علم حدیث کی تحصیل کی۔[8] دمشق میں شیخ ابی العباس احمد بن عبد الدائم بن نِعمہ المقدسی اور ابوالبقاء خالد بن یوسف سے سماع حدیث کیا۔ بعد ازاں اسکندریہ چلے آئے اور یہاں شیخ الحافظ عبد العظیم المنذری (متوفی 656ھ/ 1258ء) ، محمد بن انجب الصوفی بغدادی، ابوعلی الحسن بن محمد التیمی البکری اور ابو الحسن عبد الوہاب بن حسن الدمشقی سے سماع حدیث کا شرف حاصل کیا۔[9] بعد ازاں مصر، بلاد الشام اور حجاز کے علمائے حدیث سے مزید علم حاصل کیا۔ شیخ الاسلام عز بن عبدالسلام (متوفی 660ھ) سے تلمذ شرف حاصل کیا۔ عربی زبان اور فقہ کی تعلیم شیخ شرف الدین محمد بن ابی الفضل المرسی سے حاصل کی۔اپنی والدہ سے بھی سماع حدیث کیا۔اِس نتیجے میں انھیں علم فقہ اور علم حدیث میں ایسی بصیرت حاصل ہوئی جو اُس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔
ابن دقیق ابتداً اپنے والد کے زیر اثر مالکی المذہب تھے لیکن بعد ازاں انھوں نے فقہ شافعی کی ہمنوائی اختیار کرلی اور اِس میں مجتہدانہ مقام حاصل کیا۔[10]
ابن دقیق اپنے زمانے کے جید عالم تھے جس کی بنا پر حکمران اور سلاطین بھی اُن کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ ایک بار جب وہ سلطان حسام الدین لاچین سے ملنے کے لیے اُس کے پاس گئے تو سلطان تخت سے نیچے اُتر آیا اور مؤدب ہوکر اُن سے نیچے ہوکر بیٹھا۔[11] مدت تک وہ اپنے آبائی شہر قوص میں فقہ مالکی کے قاضی رہے لیکن جب وہ قاہرہ چلے گئے تو عہدہ قضا سے دستبردار ہو گئے۔ البتہ 695ھ (1296ء)کے قریب قریب کچھ عرصے تک انھوں نے شافعی قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول کر لیا۔[12] اِس عہدے پر وہ کئی سال تک فائز رہے۔ اِس دوران میں انھوں نے متعدد اصلاحی اِقدامات کیے جس سے مصر میں نفاذِ قانون کا عمل بہتر ہوا۔
11 صفر 702ھ مطابق 5 اکتوبر 1302ء کو ابن دقیق العید کا انتقال قاہرہ میں ہوا۔[13] اُن کے جنازہ میں عوام و خواص کی کثیر تعداد شریک ہوئی جن میں مصری امرا اور اعیانِ دولت، خصوصاً نائب السلطنت بھی شامل تھے۔ تدفین قرافۃ الصغریٰ میں اُن کے استاد عز بن عبدالسلام کے پہلو میں کی گئی۔[14]
اِس کتاب کا ایک قلمی مخطوطہ برطانیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔[18]
رجال الحدیث پر انھوں نے ابوشجاع احمد بن حسن بن احمد اصفہانی کی التقریب کی شرح بعنوان ’’تحفۃ اللبیب فی شرح التقریب‘‘ لکھی۔ اِس کا ایک قلمی مخطوطہ برلن میں موجود ہے جبکہ عکسی نسخہ قاہرہ میں موجود ہے۔[19]
علم فقہ پر اُن کی دستیاب شدہ کتب یہ ہیں:
ابن دقیق العید کو شعر و ادب سے بھی دلچسپی رہی۔ اُن کی شاعری کے موضوعات وصف، دوستوں سے فراق کی کیفیت اور نعت نبوی (بالخصوص علی صاحبھا التحیۃ والسلام) پر مشتمل ہے۔[22][23] کچھ قصائد قلمی صورت میں بغداد، عراق کے ایک کتب خانہ میں موجود ہیں۔