ابو الحسن علی حسنی ندوی

ابو الحسن علی ندوی

معلومات شخصیت
پیدائش 5 دسمبر 1913ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رائے بریلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 31 دسمبر 1999ء (86 سال)[2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رائے بریلی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش رائے بریلی
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن عرب اکیڈمی دمش   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ مولانا حیدر حسن خان   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلسفی ،  اکیڈمک   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر محمد اقبال ،  محمد الیاس کاندھلوی   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
بین الاقوامی شاہ فیصل اعزاز برائے خدمات اسلام   (1980)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹ abulhasanalinadwi.org

ابو الحسن علی حسنی ندوی (ولادت: 24 نومبر 1914ء – وفات: 31 دسمبر 1999ء) مشہور بہ علی میاں [5])ایک بھارتی عالم دین، مشہور کتاب انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر کے مصنف نیز متعدد زبانوں میں پانچ سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔[6][7]

ابتدائی زندگی و تعلیم

[ترمیم]

5 دسمبر 1913ء کو ابو الحسن علی ندوی کی ایک علمی خاندان میں پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔ اس کے بعد عربی، فارسی اور اردو میں تعلیم کا آغاز کیا۔ مولانا علی میاں کے والد عبد الحئی حسنی نے آٹھ جلدوں پر مشتمل ایک عربی سوانحی دائرۃ المعارف لکھا تھا،[8] جس میں برصغیر کے تقریباً پانچ ہزار سے زائد علما اور مصنفین کے حالات زندگی موجود ہیں۔[9] علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔ اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی۔[10]

تصانیف

[ترمیم]

علی میاں نے عربی اور اردو میں متعدد کتابیں تصنیف کی ہے۔ یہ تصانیف تاریخ، الہیات، سوانح موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمیناروں میں پیش کردہ ہزاروں مضامین اور تقاریر بھی موجود ہیں۔[6][11] علی میاں کی ایک انتہائی مشہور عربی تصنیف ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے، اردو میں اس کا ترجمہ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر کے نام سے شائع ہوا۔ اخوان المسلمون کے ایک رکن سید قطب نے اس کتاب پر مقدمہ لکھا جس میں انھوں نے خصوصا علی میاں کی استعمال کردہ اصطلاح جاہلیت کی تعریف کی جسے علی میاں نے کسی عہد کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ اسے مادیت اور اخلاقی زوال کا استعارہ بتایا ہے۔[12]

ذیل میں چند مشہور کتابوں کی فہرست درج ہے:

ابوالحسن علی الندوی کی تصانیف
نمبر شمار نام تصنیف نمبر شمار نام تصنیف نمبر شمار نام تصنیف
1 عالم عربی کا المیہ 14 علما کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں 27 قرآنی افادات
2 المرتضیٰ 15 کاروان ایمان و عزیمت 28 سیرت رسول اکرم
3 دریائے کابل سے دریائے یرموک تک 16 مدارس اسلامیہ 29 سوانح حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری
4 دستور حیات 17 مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں 30 سیرت سید احمد شہید
5 بارہ (12) دن ریاست میسور میں 18 مطالعۂ قرآن کے اصول و مبادی 31 صحبتے با اہل دل
6 دعوت فکر و عمل 19 نقوش اقبال 32 شرق اوسط کی ڈائری
7 حیات عبد الحی 20 نئی دنیا امریکا میں صاف صاف باتیں 33 طالبان علوم نبوت کا مقام
8 ہندوستانی مسلمان ایک تاریخی جائزہ 21 قادیانیت تحلیل و تجزیہ 34 تاریخ دعوت و عزیمت
9 انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر 22 پرانے چراغ
10 کاروان مدینہ 23 پاجا سراغ زندگی
11 مقالات مفکر اسلام 24 مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت
12 اسلامیات اور مغربی مستشرقین 25 اسمائے حسنی
13 کاروان زندگی 26

اعزازات

[ترمیم]
ابوالحسن علی ندوی کو جاری کیے گئے مشہور اعزازات
نمطر شمار اعزازات سنہ
1 مکہ میں واقع رابطہ عالم اسلامی کے قیام کے موقع پر افتتاحی نشست کے سیکریٹری۔[13] 1962ء
2 بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کے لیے کمیٹی کے رکن۔ 1976ء
3 شاہ فیصل ایوارڈ [14] 1980ء
4 آکسفرڈ سینٹر برائے اسلامک اسٹڈیز کے صدر۔[15] 1980ء
5 رابطہ ادب اسلامی کے صدر۔[16] 1984ء
6 پاکستان حکومت کی جانب سے "ستارۂ امتیاز" سے نوازا گیا۔ 1988ء
7 بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائیشیا کی طرف سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری۔ 1991ء
8 متحدہ عرب امارات کے محمد بن راشد آل مکتوم کی جانب سے قائم کردہ ایوارڈ "اسلامی شخصیت ایوارڈ" دیا گیا۔[17] 1999ء
9 سعودی عرب کی جانب سے "شاہ عبد العزیز ایوارڈ"۔ 1999ء
10 مدینہ یونیورسٹی کی جانب سے "اعزازی ڈاکٹریٹ"۔ 1999ء
11 متعدد اسلامی کانفرنسوں اور اداروں کی طرف سے بین الاقوامی اعزازات۔

کعبہ تک رسائی

[ترمیم]

1951ء میں دوسرے حج کے دوران میں کلید بردار کعبہ نے دو دن کعبہ کا دروازہ کھولا اور علی میاں کو اپنے رفقا کے ساتھ اندر جانے کی اجازت دی

دیگر اہم خدمات

[ترمیم]

سلسلہ شیوخ

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/17737 — بنام: ʿAlī ibn ʿAbd al-Ḥayy al-Nadawī
  2. مصنف: آرون سوارٹزhttps://openlibrary.org/authors/OL4898492A/Maulana_Syed_Abul_Hassan_Ali_Nadwi
  3. http://abulhasanalinadwi.org/books/Short-Life-Sketch-Wikipedia.pdf
  4. "Biography" (PDF)۔ 24 جنوری 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2014 
  5. David Arnold, Stuart H. Blackburn, Telling Lives in India: Biography, Autobiography, and Life History, p 127. ISBN 0-253-21727-X
  6. ^ ا ب Syed Ziaur Rahman، Maulana Ali Mian – Life, Works and Association with My Family, We and You (A monthly magazine)، Aligarh, اپریل 2000، p. 16-18
  7. http://www.central-mosque.com/biographies/nadwi.htm
  8. http://fr.scribd.com/doc/88904130/Nuzhat-Al-Khawatir Nuzhat al Khawatir
  9. Sayed Khatab, The Political Thought of Sayyid Qutb: The Theory of Jahiliyyah، Routledge (2006)، p. 207
  10. Roxanne Leslie Euben, Princeton Readings in Islamist Thought: Texts and Contexts from Al-Banna to Bin Laden, p 107. ISBN 978-0-691-13588-5
  11. "The Great Muslims of the 20th Century India" By Mohsin Atique Khan
  12. Roxanne Leslie Euben, Princeton Readings in Islamist Thought: Texts and Contexts from Al-Banna to Bin Laden, p 108. ISBN 978-0-691-13588-5
  13. John L. Esposito, The Oxford Dictionary of Islam, p 226. ISBN 0-19-512559-2
  14. Roxanne Leslie Euben, Princeton Readings in Islamist Thought: Texts and Contexts from Al-Banna to Bin Laden, p 110. ISBN 978-0-691-13588-5
  15. "Timeline" 
  16. Roxanne Leslie Euben, Princeton Readings in Islamist Thought: Texts and Contexts from Al-Banna to Bin Laden, p 109. ISBN 978-0-691-13588-5
  17. "Sheikh Muhammad"۔ 24 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2014