احمد بن زینی دحلان مکی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1817ء [1] مکہ |
وفات | سنہ 1886ء (68–69 سال)[2][1] مدینہ منورہ |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | محمد نووی الجاوی ، علوی بن احمد سقاف |
پیشہ | مصنف ، ماہر اسلامیات |
کارہائے نمایاں | فتنہ الوہابیہ (کتاب) |
درستی - ترمیم |
شیخ سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی حسنی ایک مفتی، فقیہ مؤرخ اور اپنے زمانے میں علمائے حجاز کے شیخ الاسلام امام الحرمین تھے۔[3]
علامہ دحلان1232ھ بمطابق 1817ء مکہ مکرمہ معظمہ کے قریب پیدا ہوئے تھے۔
احمد بن زینی بن احمد بن عثمان دحلان بن نعمۃ اللہ بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد اللہ بن عثمان بن عطایا بن فارس بن مصطفٰی بن محمد بن احمد بن زینی بن قادر بن عبد الوہاب بن محمد بن عبد الرزاق بن علی بن احمد بن احمد بن محمد بن محمد بن زکریا بن یحییٰ بن محمد بن عبد القادر جیلانی بن موسیٰ جنگی دوست بن عبد اللہ جیلی بن یحیی زاہد بن محمد مدنی بن داؤد بن موسی ثانی بن عبد اللہ رضا بن موسی جون بن عبد اللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن حسن بن امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ بن ابو طالب۔[4]سلسلہ نسب کے اعتبار سے آپ اللہ پاک کے رسول حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے حفید ہیں۔
قرآن پاک اور بہت سارے متون حفظ کیے، حرم مکہ میں بہت سارے اساتذہ سے علم دین حاصل کیا جن میں سے ایک شیخ عثمان بن حسن دمیاطی ازہری ہیں۔اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔
خلافت عثمانیہ کے اواخر میں 1288ھ 1871ء کو مکہ المکرمہ میں مفتئ شافعیہ اور شیخ العلماء کا منصب سنبھالا۔ انھوں نے ایک محقق، مدرس اور مصنف کی حیثیت سے مختلف علمی و فکری میدانوںمیں عبور حاصل کیا اور مختلف فنون میں ان کی کتابیں ہیں۔ [5]
شریف اعظم عون الرفیق ترکی کے نائب پاشا سے کسی مخالفت کی بنا پر مکہ معظمہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ چلے گئے تواحمد بن زین دحلان نے بھی ان کی تقلید میں مدینہ منورہ چلے گئے۔
اپنی زندگی کے آخری برسوں میں علامہ زینی دحلان نے ایک مصنف کے اعتبار سے بہت سرگرمی دکھائی۔ انھوں نے نہ صرف روایتی اسلامی علوم کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا جن کا مطالعہ ان کے زمانہ میں مکہ معظمہ میں کیا جاتا تھا۔ بلکہ بعض وقتی طور پر زیر بحث مسائل پر بھی متعدد رسائل لکھے اور مکہ معظمہ میں انیسویں صدی میں تاریخ نویسی کے واحد نمائندہ بن گئے۔
علامہ دحلان کی وفات 4صفر 1304ھ بمطابق1886ء مدینہ منورہ میں ہوئی۔اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔