احمد حسن دانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 جون 1920ء باسنا |
وفات | 26 جنوری 2009ء (89 سال)[1] اسلام آباد |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ لندن بنارس ہندو یونیورسٹی |
ڈاکٹری مشیر | مورتیمر ویلر |
پیشہ | ماہر انسانیات ، ماہرِ لسانیات ، ماہر آثاریات ، مورخ |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [2] |
شعبۂ عمل | آثاریات |
ملازمت | جامعہ ڈھاکہ ، جامعۂ پشاور |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
پروفیسر احمد حسن دانی (20 جون 1920ء – 26 جنوری 2009ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور مفکر، مؤرخ، ماہر لسانیات، ماہر بشریات اور ماہر آثار قدیمہ تھے۔
پروفیسر احمد حسن دانی کشمیری الاصل تھے۔ وہ 20 جون 1920ء کو بسنہ، چھتیس گڑھ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[3]۔ انھوں نے 1944ء میں جامعہ بنارس ہندو سے ایم اے کیا۔ وہ اس ادارے سے ایم اے کی ڈگری لینے والے پہلے مسلمان طالبِ علم تھے۔ اگلے ہی برس انھوں نے محکمہ آثارِ قدیمہ میں ملازمت اختیار کر لی اور پہلے ٹیکسلا اور اُس کے بعد موہنجوڈارو میں ہونے والی کھدائی میں حصّہ لیا۔
آثارِ قدیمہ میں اُن کی بے حد دلچسپی کے پیشِ نظر انھیں برطانیہ کی حکومت نے تاج محل جیسے اہم تاریخی مقام پر متعین کر دیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور ڈھاکہ میں فرائض انجام دینے لگے۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کو عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راجشاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر تاریخی نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز ماہرین کے تحت کام کرتے ہوئے پروفیسر دانی کے دِل میں اس بیش بہا تاریخی، ثقافتی اور تمدنی خزانے کو دیکھنے کی تمنّا پیدا ہوئی تھی جو انگریزوں نے اپنے طویل دور میں جمع کر لیا تھا۔ پروفیسر دانی کی یہ خواہش بیس پچیس برس بعد اس وقت پوری ہوئی جب خود ان کا نام تاریخ اور عمرانیات کے مطالعے میں ایک حوالہ بن چُکا تھا۔ سن ستر کی دہائی میں انھیں انگلستان اور امریکا کے طویل مطالعاتی دوروں کا موقع مِلا۔
احمد حسن دانی کو ان کی اعلٰی ترين علمی خدمات کے صلے ميں حکومت پاکستان نے ستارہ امتياز اور ہلال امتياز سے نوازا۔ خود اُن کے علم و بصیرت کی چکا چوند جب مغربی دنیا میں پہنچی تو آسٹریلیا سے کینیڈا تک ہر علمی اور تحقیقی اِدارہ اُن کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی دوڑ میں پیش پیش نظر آنے لگا۔ امریکا، برطانیہ فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ انھیں جرمنی اور اٹلی میں بھی اعلٰی ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔
گندھارا تہذیب میں بے پناہ دلچسپی کے باعث پروفیسر دانی کا بہت سا وقت پشاور یونیورسٹی میں گذرا۔ اسی زمانے میں انھوں نے پشاور اور لاہور کے عجائب گھروں کی تزئینِ نو کا بیڑا بھی اُٹھایا۔ 1971ء میں وہ اسلام آباد منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے قائد اعظم یونیورسٹی میں علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کیا اور 1980ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی سے منسلک رہے۔
ریٹائر ہونے کے بعد انھیں پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں میں دلچسپی پیدا ہو گئی اور اواخرِعمر تک وہ گلگت، بلتستان، چترال اور کالاش کے علاقوں میں، آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہرین کی معاونت سے قدیم حجری کتبوں کے صدیوں سے سربستہ راز کھولنے کی کوشش میں مصروف رہے۔
حسن دانی گردے اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے۔ 22 جنوری 2009ء کو انھیں پمز ہسپتال اسلام آباد لایا گیا جہاں ان کے علاج کی کوشش کی گئی لیکن 26 جنوری 2009ء وہ 88 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔