ادریس آزاد | ||
---|---|---|
ادریس آزاد - دسمبر 2023 | ||
ادیب | ||
پیدائشی نام | ادریس احمد | |
قلمی نام | ادریس آزادؔ | |
تخلص | آزادؔ | |
ولادت | 7 اگست 1969ء خوشاب | |
ابتدا | لاہور، پاکستان | |
اصناف ادب | شاعری، افسانہ ، ناول نگار، نثر | |
ذیلی اصناف | غزل، نظم | |
ادبی تحریک | ترقی پسند | |
تعداد تصانیف | 15 | |
تصنیف اول | ابن مریم ہوا کرے کوئی | |
تصنیف آخر | قرطاجنہ | |
معروف تصانیف | سلطان محمد فاتح ، عورت، ابلیس اور خدا |
ادریس آزادؔ (7 اگست 1969ء) پاکستان کے معروف لکھاری، شاعر، ناول نگار، فلسفی، ڈراما نگار اور کالم نگار ہیں [1][2]۔ انھوں نے فکشن، صحافت، تنقید، شاعری، فلسفہ، تصوف اور فنون لطیفہ پر بہت کچھ تحریر کیا ہے۔ ان کا پیدائشی نام "ادریس احمد" ہے لیکن اپنے قلمی نام "ادریس آزادؔ" سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔[3] بطور شاعر انھوں نے بے شمار نظمیں تحریر کیں ہیں جو روایتی مذہبی شدت پسندی کے برعکس روشن خیالی کی غماز ہیں۔ ان کی مشہور کتب "عورت، ابلیس اور خدا"[4] ،"اسلام مغرب کے کٹہرے میں"[5] اور "تصوف، سائنس اور اقبالؒ"[6] ان کے مسلم نشاۃ ثانیہ کے جذبے کی عکاسی کرتی ہیں۔ "روزنامہ دن"، "آزادانہ" [7] کے عنوان سے ان کے کالم شائع کرتا ہے ۔[8]
ادریس آزاد “ قاری سعید احمد اسعد“ کے گھر پیدا ہوئے جو ایک عالم دین "مولانا اسماعلیل دیوبندیؒ" کے بیٹے ہیں۔ خوشاب شہر ان کی جائے پیدائش ہے جو پنجاب کا ایک صوبہ ہے۔ تعلیمی دستاویزات کی رو سے ان کی تاریخ پیدائش 25 مارچ 1970ء ہے جبکہ موصوف 7 اگست 1969ء کو اپنی تاریخ پیدائش تسلیم کرتے ہیں [1]۔ اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ ؛ "میرے دادا جی (مولانا اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے نجی ڈائری پر 7 اگست 1969ء کے صفحہ پر لکھا ہے ۔۔۔۔۔ تولد عزیز ادریس احمد بوقت 7:30 بجے دن کے ۔۔۔۔۔۔"۔ لٰہذا میری درست تاریخ پیدائش یہی ہے۔[8]
ان کی تعلیمی دستاویزات واضح کرتی ہیں کہ “گورنمنٹ پرائمری اسکول نمبر 1 مین بازار خوشاب“ سے 1980ء میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ 1983ء مڈل گورنمنٹ ہائی اسکول ٹانک (خیبر پختونخوا) سے بہ درجہ اول اور میٹرک 1985ء میں گورنمنٹ ایم۔ سی ہائی اسکول خوشاب سے پاس کیا۔ انھوں نے ایف۔ اے اور بی۔ اے کے امتحانات بالترتیب 1987ء اور 1989ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا (سرگودھا یونیورسٹی)سے پاس کیے۔ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور ہے فلسفے کی ڈگری حاصل کی۔[8]
ان کی تربیت دینی و علمی ماحول میں ہوئی۔ علم کی لو اُن کی گھٹی میں ہے۔ انھوں نے اپنی پہلی نظم اس وقت لکھی جب وہ پرائمری اسکول کے طالبعلم تھے۔[9] ان کی طبیعت کی ادبی آبیاری میں ان کے گھر کے ساتھ ساتھ اسکول اور کالج کا کردار نمایاں ہے۔ "اردو مجلس۔ جوہرآباد" کے تحت انھوں نے اپنے ادبی ذوق کو جلا دی، پھر گورنمنٹ کالج سرگودھا (سرگودھا یونیورسٹی) کے ادبی ماحول سے استفادہ کیا۔ بعد ازاں لاہور کے ادبی حلقوں اور خصوصاً اسلام آباد کے ادبی حلقوں سے مستفید ہوئے۔ ان کی ادبی شناخت بطور ناول نگار، افسانہ نگار، شاعر اور نثر نگار ہے۔ غیر افسانوی کتب بھی منصہ ء شہود پر آچکی ہیں۔[8]
پاکستان کے ادبی حلقوں میں ادریس آزاد ایک کہنہ مشق شاعر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کی شاعری ندرت خیال اور فن عروض سے مرسع ہوتی ہے۔ ان کا اسلوب بندھا ٹکا اور نپا تلا ہوتاہے :[10]
نمونہء شاعری
گذشتہ شب جو ہستی برفرازِ دارتھی میں تھا
پھر اگلے دن جو سرخی شوکت ِ اخبار تھی، میں تھا[11]
وہاں کچھ لوگ تھے، الزام تھے، باقی اندھیرا ہے
بس اتنا یاد ہے جلاد تھا، تلوار تھی، میں تھا
جہاں تصویر بنوانے کی خاطر لوگ آتے تھے
وہاں پس منظرِ تصویر جو دیوار تھی میں تھا
میں اپنا سر نہ کرتا پیش اجرت میں تو کیا کرتا؟
تمھاری بات تھی، وہ بھی سرِ بازار تھی، میں تھا
یہ ویراں سرخ سیّارے، انھیں دیکھوں تو لگتا ہے
تری دنیا میں جو چہکار تھی، مہکار تھی میں تھا
خفا مت ہو! مرے بدلے وہاں گلدان رکھ دینا
ترے کمرے کی چیزوں میں جو شے بیکار تھی، میں تھا
تمھارے خط جو میں نے خود کو ڈالے تھے نہیں پہنچے
تو انجانے میں جس کے پیار سے دوچار تھی میں تھا
مرے کھلیان تھے، دہقان تھے، تقدیر تھی، تو تھا
ترا زندان تھا زنجیر تھی، جھنکار تھی، میں تھا
مشہور اشعار
اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو
تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالوگے ہمیں
عید کا چاند تم نے دیکھ لیا
چاند کی عید ہو گئی ہو گی
تری تعریف کرنے لگ گیا ہوں
محبت نے دیانت چھین لی ہے
یہ اضطرار ضعفِ جنوں کی دلیل ہے
یوں خود کو بیقرار نہ کر انتظار کر
شاخیں جکھی ہوئی ہیں بدن کے درخت کی
اپنی ہوائے شوق کا پھل پا رہا ہوں میں
میں جس میں دفن ہوں، اِک چلتی پھرتی قبر ہے یہ
جنم نہیں تھا وہ ، دراصل مرگیا تھا میں
ادریس آزاد کی افسانوی نثر کا محور ناول نگاری ہے۔ ان کے شائع ہونے والے ناولوں کا موضوع اسلامی تاریخ ہے ۔سلطان محمد فاتح ان کا پہلا ناول ہے۔ تاریخی پس منظر میں موضوع کا چناؤ ناول نگار کے حسن انتخاب کے شعور کی دلیل ہے۔ قمر اجنالوی کی ناول نگاری سے حد درجہ متاثر ہیں۔ قمر اجنالوی کے ناول "سلطان، جنگ مقدس، بغداد کی رات اور خان الغازی" جو قرون وسطیٰ کی اسلامی تاریخ پیش کرتے ہیں۔ ادریس آزادؔ کی ناول نگاری ان مذکورہ ناولوں کے قریب قریب نظر آتی ہے۔ ایک ناول نگار گمشدہ تہذیب، تاریخ یا زمانے کی بازیافت کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ گمشدہ حقائق و واقعات کو منظرعام پر لاکر قدیم و جدید کے درمیان میں رابطہ استوار کرتاہے۔ دراصل ناول نگار اس عمل کے ذریعے ماضی کے طرز احساس کو اجاگر کر رہا ہوتا ہے۔ دیگر ناول نگاروں کی طرح ادریس آزاد نے بھی یہی کام کیا ہے۔ ادریس اپنے ہم عصروں میں اس لیے ممتاز ہیں کہ انھوں نے محض اسلامی تاریخ پر قناعت نہیں کی بلکہ دیگر قبائل اور ممالک کی تاریخ کے دھندلکوں میں بھی جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کام انتہائی مشکل اور بظاہر ناممکن سہی لیکن اپنے مطالعہ اور ذوق کے پیش نظر ممکن بنایا ہے ۔
"صبح دم افق کے دریچے سے سورج کی پہلی کرن جھانکتی تو سیدھی صدر دروازے کی بالکونی پر پڑتی۔ چڑیاں چہچہانے لگتیں اور ندی صبح کی آمد کا گیت گنگنانا شروع کردیتی۔ سورج غروب ہونے لگتا تو مکان کی عقبی طرف چلا جاتا۔ مکان کی پشت پر لیٹے جھلمل کرتے پانی میں دن بھر کا تھکا ماندا سورج منہ ہاتھ دھوتا شفق پاراترنے سے پہلے مشرقی پہاڑیوں کی اوٹ میں تھوڑی دیر کے لیے رک کر غمگین نظروں کے ساتھ وادی میں رکھے جل پنا کے مقام کو جھانکتا۔ سفق کی لالی پھیل کر تالاب کو چند لمحوں کے لیے خون آلود کرد یتی۔ "[12]
"ذہن میں تصویر نہیں بنتی، تصور بنتا ہے اور ذہن رحم مادر کی طرح اس تصویر کو اپنے تن بدن کا لہو پلا کر پرورش دیتا ہے۔ بالآخر وہ تصور جنم لیتا ہے تو تصویر بن جاتی ہے۔ میں کیوں نہ چاہوں گی کہ میری بنائی ہوئی تصویر کوئی دیکھے۔ میں مصورہ اس لیے ہوں کہ اپنا شاہکار دوسروں کو دکھا سکوں۔ خدا کیا چاہتا ہے، کیا وہ بھی یہی نہیں چاہتا؟ خدا بھی ایک مصور ہے۔ "[13]
ادریس آزاد رجعت پسند، آئیڈئیلسٹ فلسفی ہیں ۔[14] ان کا سب سے اہم کام بائیوسوشائیلوجی پر ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کرہ ہر زندہ جاندار بڑی شدت کے ساتھ زمین کے ساتھ منسلک ہے۔ جسے زمینی پویستگی یا ارتھ روٹیڈنس کہتے ہیں۔ جتنا کوئی زمین کے نزدیک ہوگا اتنی اس کی زندگی ارزل ہو گی۔ [15]ادریس آزاد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بائیوسوشائیلوجکلی جانور چار گروہوں میں منقسم ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
جانوروں کے عمیق مطالعہ کے بعد انھوں نے روح حیوانی کا نظریہ پیش کیا ہے۔ بعینہ ہمہ روح حیوانی کی ترکیب مسلم تصوف میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ ادریس آزاد نے اس ترکیت کا اپنے نظریہ کے ساتھ ططابق پیدا کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ ارتقا کے دروان بہت سی وجوہات ایسی تھیں جن کی وجہ سے انسان نے جانوروں کی خصلتیں اختیار کیں۔ ادریس آزاد انسانوں کو معاشرہ میں، پرندوں کی طرح زندگی بسر کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ الہٰیات پر بات ہو تو ادریس آزاد کے مطابق خدا کا انکار کسی صورت ممکن نہیں، اگرچہ خدا کے ہونے کو ثابت کرنے میں بھی عقل نارسا ہے۔ ان کی تعلیمات سے بعض اوقات ظاہر ہوتا ہے کہ بدھوں کی طرح غیر شخصی خدا کے قائل ہیں۔ تاہم وہ شخصی خدا کے ماننے پر زور دیتے ہیں جسے ثابت کرنے میں عقل کی رسائی نہیں۔ اسی طرح کائنات کی معقولیت کو شخصی خدا کے ہونے کا ثبوت سمجھتے ہیں۔ آزادیء اختیار کے بارے میں ادریس آزاد اپنی کتاب " تصوف، سائنس اور اقبال " میں لکھتے ہیں کہ :
"فطرت ہمیں چنتی ہے کہ ہم فطرت کو چنیں "[14]
وہ انسان کے مسقبل کے بارے میں بہت ہی پر امید ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک دن یہ زمین انسانیت کے لیے بہت ہی اچھی جگہ بن جائے گی۔ ادریس آزاد کے بقول ابھی انسان نادان اور کم علم ہے لیکن وہ بڑی تیزی کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار کو اختیار کر رہے ہیں ۔
فلسفـــہ
ناول
دیگر تصانیف