ارشد شریف | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 22 فروری 1973ء کراچی |
وفات | 23 اکتوبر 2022ء (49 سال) کاجیاڈو |
وجہ وفات | شوٹ |
شہریت | پاکستان |
زوجہ | جویریہ صدیقی [1] |
تعداد اولاد | 5 |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ قائداعظم جامعہ کراچی السٹر یونیورسٹی |
تعلیمی اسناد | ایم اے پبلک ایڈمنسٹریشن |
پیشہ | صحافی ، تجزیہ نگار ، اینکر پرسن |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | اے آر وائی ٹی وی نیٹ ورک |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
ارشد شریف ( پیدائش 22 فروری 1972 تا 23 اکتوبر 2022)، ایک پاکستانی صحافی، مصنف اور ٹی وی نیوز اینکر پرسن تھے۔ [2] ان کو تحقیقاتی صحافت میں مہارت حاصل تھی اور قومی اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں خاص طور پر برطانیہ کے لیے ملک میں بہت سے سیاسی واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ 23 مارچ 2019ء کو انھیں صحافت میں ان کی خدمات پر صدر پاکستان نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ وہ اپنی تحقیقی صحافت کے لیے جانے جاتے تھے
ارشد شریف 2022ء تک میزبانی کے شعبے سے وابستہ تھے اور آخری دنوں میں اے آر وائی نیوز پر پروکرام پاور پلے کے لیے میزبانی کر رہے تھے۔ شریف نے آج ٹی وی میں بطور نیوز ڈائریکٹر خدمات انجام دیں۔ آج میں شامل ہونے سے پہلے وہ دنیا ٹی وی کی نیوز ٹیم کی بطور ڈائریکٹر نیوز اور پروگرام کیوں کے میزبانی کر رہے تھے۔ [3]اگست 2022ء کے دوران میں ان کے ایک پروگرام کی وجہ سے ان کی اے آر وائی کی ملازمت چلی گئی جس کے بعد سے لے کر اپنی موت تک وہ اپنا یو ٹیوب چینل چلا رہے تھے۔
ارشد شریف کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئے، ان کے والد کمانڈر محمد شریف IK(N) IK ہيں۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993ء میں ایک فری لانس کے طور پر کیا جب وہ ابھی طالب علم تھے۔ انھوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی۔
ارشد شریف کے والد کمانڈر محمد شریف مئی 2011 میں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی، میجر اشرف شریف مئی 2011 میں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے ہلاک ہو گئے [4]۔ اپنے والد میجر اشرف شریف کی موت کی خبر سنتے ہی بنوں چھاؤنی چھوڑ کر نکلے اور ڈرائیور یا اسکارٹ سے انکار کر دیا۔ چند کلومیٹر دور ان کی گاڑی سڑک سے ہٹ کر ایک درخت سے ٹکرا گئی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ کمانڈر محمد شریف اور ارشد شریف کے چھوٹے بھائی میجر اشرف شریف کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ H-11 قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ [4]
ارشد شریف آ ج نیوز اور دنیا ٹی وی کے بطور ڈائریکٹر نیوز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ [3] وہ 2011 میں ڈان نیوز کے بیورو چیف کے طور پر کام کر چکے ہیں [4]
ان کی پہلی میڈیا ملازمت ہفتہ وار اخبار پلس کے ساتھ تھی، انھوں نے 1999 میں کالم نگار، رپورٹر اور منیجنگ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں ارشد شریف نے 1999 میں دی نیوز اور 2001 میں ڈیلی ڈان میں شمولیت اختیار کی۔
ارشد شریف نے دفاع اور خارجہ امور میں مہارت کے ساتھ قبائلی علاقوں میں تنازعات کا احاطہ کیا۔ انھوں نے لندن، پیرس، اسٹراسبرگ اور کیل سے معروف پاکستانی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹ کیا۔ ارشد شریف 2012 کے آگاہی ایوارڈ کے فاتح ہیں۔ [5] پروگرام پاور پلے کے لیے ارشد شریف بطور اینکر اور عدیل راجا نے بطور پروڈیوسر 2016 کے انویسٹی گیٹو جرنلسٹ آف دی ایئر کا ایوارڈ جیتا [6]۔ 2018 میں، ارشد شریف نے کرنٹ افیئر اینکر آف دی ایئر کا ایوارڈ جیتا تھا۔
ارشد شریف نے 2014ء میں اے آر وائی نیوز پر اپنا پروگرام پاور پلے شروع کیا اور یہ پروگرام زبردست کامیاب ثابت ہوا۔ پروگرام میں بحث کرنے کی بجائے ناظرین کو نئی معلومات دینے پر توجہ دی گئی۔ اس پروگرام کے بعد حکومت کو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی نجکاری کا جائزہ لینا پڑا۔ ارشد شریف نے توجہ دلائی کہ موٹروے کا منصوبہ احتساب کمیشن شہرت کے سیف الرحمان کے پاس جا رہا ہے۔ انھوں نے سیف الرحمان اور چائنہ میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے چیئرمین کے دستخط شدہ دستاویز کو چینی سرمایہ کاری کمپنی میں عام کیا۔
ارشد شریف نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع نجکاری مسلم کمرشل بینک (MCB) کی توجہ دلائی۔ ارشد شریف نے ایم سی بی کی نجکاری کے بارے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی طویل گمشدہ رپورٹ کا پتہ لگایا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح نواز شریف نے چھوٹے چھوٹے احسانات کے لیے بینک میاں منشا کے حوالے کیا۔ انھوں نے نشاط گروپ کی طرف سے لندن میں سینٹ جیمز ہوٹل کی ناجائز خریداری پر بھی توجہ دلائی۔
پاور پلے شاید پاکستانی نیوز چینلز کا واحد پروگرام ہے جس نے پاناما پیپرز سے پہلے ہی شریف خاندان کی غیر ملکی جائیدادوں پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے تھے۔ بعد ازاں پاور پلے ٹیم نے پرائم منسٹر میڈیا سیل کو اپنی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے سوالات بھیجے جن کا تاحال جواب نہیں ملا۔ ارشد شریف اپنے پروگرام پاور پلے کے ذریعے اسحاق ڈار کے بیان حلفی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی پاناما لیکس اور دیگر آف شور کمپنیوں کی انکوائری سے متعلق زیادہ تر دستاویزات اور تحقیقات لائے تھے جنہیں بعد میں نواز شریف نے تسلیم کیا تھا۔ خاندان ارشد شریف اور پاور پلے کی ان کی پروگرام ٹیم کے تحقیقاتی کام کو نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نااہل قرار دینے والے فیصلوں میں گہری اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے بہت سے نتائج نواز شریف خاندان کے بارے میں لیڈز اور تحقیقات پر مبنی تھے جو اس سے قبل پروگرام پاور پلے پر دکھائے گئے تھے۔ [7]
ارشد شریف نے ناظرین کو ایک نیا ذائقہ دیا ہے جہاں وہ دستاویزات کے ساتھ ٹی وی پروگرام کرتے ہیں، انھیں اسکرین پر ڈال کر ناظرین کو درست معلومات، بدعنوانی کے شواہد اور مشکوک سودے دکھاتے ہیں۔ یہ صحافت کا ایک نیا انداز ہے جو ان سے پہلے پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔ ان میں سے زیادہ تر معلومات اصل دستاویزات کو بتائے بغیر ذرائع سے ہوتی تھیں جن پر وہ اپنی کہانی کی بنیاد رکھتے ہیں۔
وہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی صحافی کے طور پر مشہور تھے۔ اپریل 2022ء کے رجیم چینج کے بعد انھوں نے پی ٹی آئی اور عمران خان کا کافی حد تک ساتھ دیا۔ اسی دوران میں اگست 2022ء میں انھوں نے ایک پروگرام میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کا ایک متنازع بیان کو اپنے پروگرام میں چلایا۔ جس کے بعد شہباز گل کے خلاف تو قانونی کارروائی کا آغاز ہو ہی گیا۔ ساتھ ہی دوسری طرف ان کے ادارے اے آر وائی بھی پابندوں اور بندش کا شکار ہو گیا۔
13اگست کو پولیس نے ارشد شریف سمیت اے آر وائی کے صحافیوں اور سی ای او کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ یہ مقدمہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی جانب سے اس ٹی وی چینل پر دیے گئے ایک بیان کے بعد درج ہوا تھا اور گل پر مسلح افواج کے اراکین کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
مقدمے کے اندراج کے بعد ارشد شریف نے پاکستان چھوڑ دیا اگرچہ دیگر صحافی ملک میں ہی رہے۔
اس کے کچھ ہی دن بعد ارشد شریف کے بیانات کے رد عمل میں اے آر وائی نے اعلان کیا کہ چینل ان کے ساتھ اپنی 8 سالہ رفاقت ختم کر رہا ہے۔ [8] شائد یہی تنازع ان کی زندگی کے اختتام کا باعث بھی بنا
24 اکتوبر 2022ء کو ان کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر ملی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو سر پہ گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
اس معاملے کی مزید تفصیلات کے مطابق ارشد شریف اپنے اے آر وائی چھوڑنے کے بعد دبئی میں رہ رہے تھے ، پھر وہآں سے کسی کے کہنے پر کینیا چلے گئے ، وہاں پر ان کے دو میزبان جو وہیں کے رہائشی تھے اور پاکستانی نژاد تھے ، وہ ان کو جائے واردات کے قریب ان کو ڈنر پر لے کر گئے تھے ۔
وہاں ایک جگہ پولیس نے ناکہ لگا رکھا تھا اور وہیں پر پولیس نے ان کو گاڑی نہ روکنے پر دور مار ہتھیار سے گولی مار کر شہید کر دیا ۔
کچھ دنوں کے بعد ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ ان کو باقاعدہ تین گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنا کر قریب سے گولی ماری گئی۔