![]() اسرائیل |
![]() میانمار |
---|
اسرائیل میانمار تعلقات سے مراد دو طرفہ تعلقات ہیں جو اسرائیل اور میانمار کے بیچ ہیں۔ ان دونوں ممالک نے 1953ء میں سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ [1] اسرائیل کا سفارت خانہ یانگون میں ہے جب کہ میانمار کا سفارت خانہ تل ابیب میں ہے۔ یہودی ریاست کی میانمار سے دوستی کافی لمبے عرصے سے چلی آ رہی ہے جو ایشیا کے اولین ممالک میں سے ایک تھا جس نے اسرائیل کی آزادی کو تسلیم کیا اور ایک نو خیز ملک سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ ان دو ممالک کے بیچ کافی تعاون جاری ہے، جو زراعت، تعلیم اور دفاعی شعبوں پر مشتمل ہے۔[2]
میانمار کے وزیر اعظم |او نو پہلے وزیر خارجہ تھے جنھوں نے 1955ء میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم داوید بن گوریون نے 1961ء میں یانگون کا دورہ کیا تھا۔[3]
جنرل مین آنگ ہلانگ نے 2015ء میں اسرائیل کا دورہ کیا تا کہ ان دونوں ممالک کے بیچ تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے۔[4]
اسرائیل نے میانمار کے ساتھ سابقہ فوجی حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھے تھے۔ تاہم فوجی حکومت سے نزدیکی کے باوجود اسرائیل نے جمہوریت حامی فعالیت پسند خاتون قائد آنگ سان سو چی کے لیے کئی مواقع پر تائید کا اظہار کر چکا ہے۔ [5][6]
2016ء میں نو مامور شدہ میانمار کے سفیر ریووین ریولین نے اپنے متعلق دستاویزات کو اگست 2016ء میں پیش کیا تھا۔ سفیر کی دختر انٹر ڈسپلینری سنٹر ہرزلیا کی طالبہ بتائی گئی ہے اور وہ وہاں پہلی برمی متعلمہ ہے۔[7]
ڈانیئیل زون شائن جو میانمار میں اسرائیل کے سفیر بنائے گئے، 2016ء میں ایک مقامی میانماری اخبار کے انٹرویو میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو "اچھے اور دوستانہ، جن میں مزید بہتری اور دوستی کی گنجائش ہے" بتایا۔ [8]
اسرائیل میانمار کی مسلح افواج کے لیے سب سے زیادہ ہتھیاروں کا فراہم کنندہ رہا ہے۔ ستمبر 2017ء میں روہینگیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اسرائیل کے سپریم کورٹ میں ہتھیاروں کی فروخت روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔ عدالت کا فیصلہ عوامی عدم افشائے راز کے تحت رکھا گیا ہے۔ [9][10]
2018ء میں ایک تحریر شدہ معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی تاریخی کتب کا جائزہ لے سکتے ہیں تاکہ حقائق کی تصدیق کی جا سکے۔[11]