اسلام میں حیض

اسلام میں حیض (انگریزی: Menstruation in Islam) ایک بہت اہم موضوع ہے۔ حیض کے معنی بہنا ہے۔ شریعت میں ایسی عورت جو نا بالغہ نہ ہو،آئسہ نہ ہو،جریان خون کا مرض نہ ہو اور حمل نہ ہو اس کے رحم سے خون نکلے تو اس کو حیض کہتے ہیں۔ جس کو جریاں خون کا مرض ہو یا حاملہ ہو یا نا بالغہ ہو یا آئسہ ہو اس کے رحم سے جو خون نکلتا ہے وہ حیض نہیں ہوتا ہے بلکہ استحاضہ ہوتا ہے۔ الحیضۃ کسرہ کے ساتھ اسم ہے اور جمع الحیض ہے اور الحیضۃ کا معنی وہ کپڑے کا ٹکڑا بھی ہے جس کے ساتھ عورت اپنی فرج کو (حیض آنے کے وقت) باندھتی ہے۔ اور کلمہ کی اصل سیلان (بہہ پڑنا) اور انفجار (پھوٹ پڑنا) سے ہے۔ کہا جاتا ہے : حاض السیل وفاض سیلاب پھوٹ پڑا اور بہہ گیا اور حاضت الشجرۃ یعنی درخت کی رطوبت ظاہر ہو گئی بہہ گئی۔ اور اسی طرح الحیض بمعنی الحوض ہے، کیونکہ پانی اس کی طرف بہتا ہے اور عرب یاء کی جگہ واؤ اور واؤ کی جگہ یاء داخل کرتے رہتے ہیں۔ کیونہ دونوں ایک ہی چیز سے ہیں۔

کیفیت

[ترمیم]

حیض سے مراد وہ خون ہے جو رحم سے بغیر ولادت یا بیماری کے ہر مہینا فرج کی راہ سے نکلتا ہے۔ یہ سلسلہ تقریباً نو برس کی عمر سے ساٹھ برس کی عمر تک رہتا ہے۔ خون حیض اکثر سیاہ یا سرخ اور گرم ہوتا ہے۔

ابن عرفہ نے کہا ہے : المحیض اور الحیض کا معنی اس کے محل کی طرف خون کا جمع ہونا ہے اور اسی سبب سے حوض کو بھی یہ نام دیا گیا ہے کیونکہ اس میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ جبکہ معلوم اوقات میں عورت کا خون بہہ پڑے اسے حیض۔ اور جب وہ غیر معلوم ایام میں جاری ہو اور حیض کی رگ کے سوا کہیں اور سے آئے تو پھر مستحاضۃ کہا جاتا ہے اور اس کی آٹھ اسماء ہیں۔

  • (1) حائض۔
  • (2) عارک۔
  • (3) فارک۔
  • (4) طامس۔
  • (5) دارس۔
  • (6) کابر۔
  • (7) ضاحک۔
  • (8) طامث۔[1]

حیض کی مدت

[ترمیم]

حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے اس سے کم آکر رک جائیے یا دس دن سے زیادہ آجائے تو وہ حیض نہیں ہے وہ استحاضہ کا خون ہے۔ اس پر حیض کے احکام جاری نہیں ہو نگے ۔[2]

مزید دیکھیے

[ترمیم]


حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تفسیر قرطبی۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی سورہ البقرہ آیت222
  2. اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 1صفحہ251 - مؤلف : حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی