Gulgee | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 25 اکتوبر 1926 پشاور |
وفات | 16 دسمبر 2007 کراچی |
(عمر 81 سال)
وجہ وفات | اختناق |
طرز وفات | قتل |
قومیت | پاکستانی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ہارورڈ یونیورسٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | مصور ، مجسمہ ساز |
شعبۂ عمل | اسلامی خطاطی |
تحریک | اسلامی خطاطی |
اعزازات | |
تمغا حسن کارکردگی، ستارۂ امتیاز (دو بار)، ہلال امتیاز | |
درستی - ترمیم |
پاکستان کے نامور مصور اور خطاط۔ پشاور میں انیس سو چھبیس میں پیدا ہوئے۔ امین اسماعیل گل کی پیشہ ورانہ زندگی کا سفر بحیثیت ایک انجینئر، تصویری مصور، اسلامی خطاط اور تجریدی مصور کے نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گل جی نے مصوری کا آغاز امریکا میں بحثییت انجنیئر اپنی تعلیم کے حصول کے دوران کیا۔ یہ تعلیم انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی اور بعد میں امریکا کے مایہ ناز تعلیمی ادارے ہارورڈ سے حاصل کی۔
گل جی کی تصاویر کی پہلی نمائش 1950 میں منعقد ہوئی۔ 1959 سے پہلے تک گل جی کا فن ایک تصویری مصور کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور یہی دور تھا جب انھوں نے افغانستان کے پورے شاہی خاندان کی تصاویر تخلیق کیں۔ 1960 کے بعد انھیں ایک ایسے تجریدی مصور کے طور پر دیکھا گیا جس کی تخلیقات میں اسلامی خطاطی کی روایت کا خاصا دخل نظر آتا ہے۔
گل جی کبھی فاقہ مست فنکار نہیں رہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ نہ صرف انھیں ہمیشہ حکومتی مدد میسر رہی بلکہ ان کے فن کو با اثر اور ذی حیثیت لوگوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ یہ سرپرستی ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے اوائل میں ایک تصویری مصور کے دور میں زیادہ نظر آتی ہے لیکن گل جی کو عالمی سطح پر فنون لطیفہ کے حلقوں میں بحیثیت ایک تجریدی مصور کے ہی شہرت حاصل ہے۔
اسلامی خطاطی کی روائیت سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ گل جی 50 اور 60 کی دھائیوں میں شروع ہونے والی ایکشن پینٹنگ موومنٹ سے بھی خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ جن میں بین الاقوامی سطح پر جیکسن پولک اور ایلیین ہیمیلٹن جیسے فنکاروں کے کام کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ گل جی کے کام میں اسلامی خطاطی اور ایکشن پینٹنگ کی ہم آہنگی کی ایک وجہ شاید ان دونوں جہتوں میں ’طاقت کی روانی‘ کی قدر مشترک ہے۔ گل جی کا اپنی تصاویر میں مختلف غیر روایتی چیزوں کا استعمال انھیں خاصا مختلف بناتا ہے۔ وہ اپنی آئل پینٹنگز میں شیشہ اور سونے اور چاندی کے ورق استعمال کرنے پر بھی جانے جاتے ہیں۔ 1960 کے بعد گل جی نے پینٹنگ کے ساتھ ساتھ مجسمہ سازی کی طرف بھی توجہ دی جو ان کی پینٹنگز کی طرح اسلامی خطاطی سے متاثر نظر آتی ہے۔ تانبے میں ڈھالے گئے یہ فن پارے اسلامی خطاطی سے نہ صرف دیکھنے میں متاثر لگتے ہیں بلکہ بعض قرآنی آیات کی تشریح کے طور پر تخلیق کیے گئے ہیں۔
ان کی پینٹگز چمکدار اور رنگوں سے بھرپور ہوتی تھیں جس میں ان کی حساسیت اور شدتِ جذبات کی جھلک نظر آتی۔ ان کی خطاطی کے چند نمونے اسلام آباد میں فیصل مسجد میں آویزاں کیے گئے ہیں۔ دنیا کی کئی مشہور ہستیوں اور سربراہ مملکت کی تصاویر انھوں نے بنائیں۔ فیصل مسجد کے میناروں پر موجود چاند بھی گل جی کی ڈیزائن کردہ ہیں۔ پاکستان کا پارلیمنٹ ہاؤس بھی ان کی مصوری سے مزین ہے۔
گل جی کو عالمی اور قومی سطح پر کئی ایوارڈ دیے گئے اور وہ اپنی کیلیگرافی اور پورٹریٹس کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کے بیٹے امین گل جی نے فن مصوری اور مجسمہ سازی میں بہت اہم مقام حاصل کیا۔
19 دسمبر 2007ء میں اپنی رہائش گاہ میں گل جی اپنی اہلیہ اور نوکرانی سمیت مردہ حالت میں پائے گئے۔ تینوں کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا پایا گیا۔[1]