فائل:Ijaz butt.jpeg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | محمد اعجاز بٹ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | سیالکوٹ، پنجاب، برطانوی ہند | 10 مارچ 1938|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 3 اگست 2023 لاہور، پنجاب، پاکستان | (عمر 85 سال)|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | وکٹ کیپر، اوپننگ بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ | 20 فروری 1959 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 16 اگست 1962 بمقابلہ انگلستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1955/56-1959/60 | پاکستان یونیورسٹیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1959/60-1964/65 | لاہور | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1959/60-1961/62 | راولپنڈی | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1963/64 | ملتان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1964/65-1967/68 | لاہور ریڈز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرکٹ آرکائیو، 23 ستمبر 2010 |
محمد اعجاز بٹ انگریزی:Mohammed Ijaz Butt (10 مارچ 1938 - 3 اگست 2023) ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے۔جس نے 62-1959ء تک کے کیرئیر میں 8 ٹیسٹ میچ کھیلے وہ ایک وکٹ کیپر اوپننگ بلے باز تھے انھوں نے لاہور، ملتان، پنجاب اور راولپنڈی کی طرف سے بھی اول درجہ کرکٹ میں شرکت کی۔ان کا انتقال لاہور میں 3 اگست 2023ء کی صبح 85 سال کی عمر میں ہوا۔[1]
اعجاز بٹ کھیلوں کا سامان بنانے کے لیے مشہور سیالکوٹ شہر میں پیدا ہوئے انھوں نے اپنے اول درجہ کیرئیر کا آغاز 16 جنوری 1956ء کو پاکستان کا دورہ کرنے والی میلبورن کرکٹ کلب کی ٹیم کے خلاف پاکستان یونیورسٹیز[2] کی طرف سے کیا اور تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 35 اور 97 رنز سکور کیے بدقسمتی سے وہ صرف تین رنز کی کمی سے اپنی اولین سنچری سکور نہ کر سکے اس کی ذمہ دار بلی سٹکلف کی بولنگ تھی جس نے اعجاز بٹ کو کین برنگٹن کے ہاتھوں کیچ کروا دیا گیا یہ میچ کسی نتیجہ کے ختم ہوا ایک مہینے کے بعد کے بعد ان کا سامنا پھر ایم ایم سی کی کرکٹ ٹیم سے ہوا جب وہ پنجاب کی طرف سے کھیل رہے تھے انھوں نے 43 اور 18 رنز بنائے 57-1956ء میں اعجاز بٹ کی قائد اعظم ٹرافی کے ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی سامنے آئی انھوں نے 56.25 کی اوسط سے 225 رنز بنائے جس میں اس کی اکلوتی سنچری 147 بھی شامل تھی اسی دوران میں انھوں نے ویسٹ انڈیز کے دورے پر بھی شمولیت کی مگر انھیں وہاں صرف ایک فرسٹ کلاس میچ تک ہی محدود رکھا گیا 59-1958ء میں انھوں نے قائد اعظم ٹرافی کے مسلسل دوسرے سیزن میں شرکت کی مگر 3 میچوں میں 24.33 کی اوسط سے 73 رنز بنائے۔[3] اپنے بین الاقوامی کیریئر کے اختتام کے بعد، انگلینڈ کے دورے میں دو سنچریوں سمیت 1,000 سے زیادہ فرسٹ کلاس رنز بنانے کے باوجود انھوں نے پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ میں مایوس کن کھیل پیش کیا۔ وہ 1963ء اور 1965ء کے درمیان میں قائد اعظم ٹرافی کے صرف تین میچوں میں نظر آئے۔ 1966ء میں پاکستان یونیورسٹیز کے خلاف گورنر پنجاب الیون کے ایک دعوتی میچ، 1967ء میں پاکستان بمقابلہ دی ریسٹ الیون اور آخری بار 15 جنوری 1968ء کو ایوب ٹرافی جہاں انھوں نے لاہور ریڈز کے لیے 40 اور 15 رنز بنائے۔[4][5]
1959ء میں اعجاز بٹ کو کراچی کے مقام پر ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو شروع کرنے کا موقع ملا پہلی باری میں 14 اور دوسری اننگ میں 41 ناٹ آوٹ کے ساتھ انھوں نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی اس نے باقی سیریز میں دو، 21، 47* اور دو رنز بنائے۔ 26 مارچ اور 4 دسمبر کے درمیان میں انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف مزید دو ٹیسٹ کھیلے، دوسرے ٹیسٹ میں کیریئر کے بہترین 58 رنز بنائے۔ اس کے بعد وہ 1962ء تک ٹیم سے باہر رہے اس کے بعد انھوں نے تین ٹیسٹ میچوں کے لیے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ ڈراپ ہونے سے پہلے اس نے جدوجہد کرتے ہوئے 10، 33، ایک، چھ، 10 اور چھ رنز بنائے۔[6]
1982ء میں اعجاز بٹ کو آسٹریلیا کے پاکستانی دورے کے لیے مینیجر مقرر کیا گیا اور 1984ء میں اس وقت کے بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان پاکستان کے سیکریٹری کا عہدہ سونپا گیا جہاں وہ 1988ء تک رہے اعجاز بٹ لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کی صدر بھی رہے۔ اکتوبر 2008ء میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔[7] ان کے ابتدائی اقدامات پاکستان کے اندر سخت سیکیورٹی حالات کے دوران میں بین الاقوامی کرکٹ کو محفوظ رکھنے کے لیے غیر جانبدار مقامات کے امکان کی تجویز کرنا تھے تاہم، پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی کے ممکنہ میزبان کے طور پر بہت کم حمایت حاصل ہوئے اور مہمان ٹیموں کے سیکیورٹی خدشات کم نہیں ہوئے 2009ء کے اوائل میں دورہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد اعجازبٹ نے ایک عوامی بیان میں اعتراف کیا کہ بین الاقوامی ٹیموں کو ملک میں آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 2009ء کے موسم سرما میں اعجاز بٹ نے یونس خان کے خلاف کپتانی کے تنازع پر دوٹوک موقف اپنایا اور جنوری 2010ء تک فیصلہ دیا کہ آسٹریلیا کے دورے کے بعد ایک نئے کپتان کا انتخاب کیا جائے گا، یونس خان پہلے ہی کپتانی چھوڑ چکے تھے۔ فروری 2010ء میں میچ فکسنگ کے مزید دعوے سامنے آئے اور اعجاز بٹ نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے بعد ملوث کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا جس نے آسٹریلیا کے دورے میں پاکستان کی وائٹ واش شکست کی تحقیقات کی تھیں۔2010ء میں اعجاز بٹ اور پی سی بی دونوں پر مزید میچ فکسنگ اور مالی بدعنوانی کے الزامات لگے۔ اس کے باوجود، آئی سی سی نے 11 فروری کو اعجاز بٹ کو کرکٹ کے لیے خدمات کے لیے تمغا دینے کا اعلان کیا اگرچہ اعجاز بٹ نے فروری 2010ء کے اوائل میں پاکستان کے دورہ آسٹریلیا کے دوران میچ فکسنگ کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا، مگر 2010ء کے دورہ انگلینڈ میں متعدد پاکستانی کھلاڑیوں اور انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کے دوران متنازع میچ فکسنگ الزامات کی وجہ سے عوامی سطح پر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور میزبان ملک اور آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے حوالے سے سکاٹ لینڈ یارڈ نے 17 ستمبر کو تصدیق کی کہ اس نے پاکستانی کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف، محمد عامر اور وہاب ریاض سے رشوت لینے کے الزام میں پوچھ گچھ کی تھی اور پولیس نے کراؤن پراسیکیوشن سروس کو شواہد بھیجے تھے اس صورت حال میں اعجاز بٹ سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں انھوں نے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل۔لرنے کی بجائے بہت جذباتی رویہ اپنایا جس کے اثرات نے پاکستان کرکٹ لو ہلا کر رکھ دیا اسی لیے اعجاز بٹ سے مستعفی ہونے کے کئی مطالبات ہوئے، تاہم انھوں نے انکار کر دیا۔ پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے بٹ کا دفاع کرتے ہوئے اس اختلاف کو "ایک بہت ہی معصوم دلیل" قرار دیا اور اس بات کی تردید کی کہ اس ایشو برطانیہ کے ساتھ تعلقات متاثر ہوئے۔ انگلینڈ کی ٹیم نے بعد میں بٹ کو بھیجے گئے ایک خط میں معافی مانگنے کے اپنے مطالبے کو باضابطہ طور پر پیش کیا، جس میں ان کی درخواست پوری نہ ہونے کی صورت میں مزید انتباہ کے بغیر قانونی کارروائی کا عندیہ دیا اعجاز بٹ لندن پہنچے اور اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہ وہ تین معطل پاکستانی کھلاڑیوں کے وکلا کے ساتھ ملاقات کے دوران میں اپنے الفاظ پر قائم رہیں گے نہیں ہٹیں گے تاہم، بعد میں انھوں نے راستہ بدل کر اپنا بیان واپس لے لیا اس کے باوجود انھیں پی سی بی نے وضاحت کے لیے واپس بلایا، ان قیاس آرائیوں کے درمیان میں کہ ان کا بطور چیئرمین مستقبل کمزور ہے۔ آئی سی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے دبئی میں ہونے والی میٹنگ میں انھیں برطرف کرنے پر تبادلہ خیال کیا[8]
اعجاز بٹ نے 6 ٹیسٹ میچوں کی 15 اننگز میں 2 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 279 رنز بنائے جس میں 58 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 19.92 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں ایک نصف سنچری شامل تھی جبکہ 67 فرسٹ کلاس میچوں کی 120 اننگز میں 8 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 3842 رنز بنائے۔ 161 ان کا بہترین سکور تھا۔ 34.30 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 7 سنچریاں اور 7 نصف سنچریاں شامل تھیں[9]
اعجازبٹ کا انتقال لاہور میں 3 اگست 2023 کو 85 سال کی عمر میں ہوا۔[10][11]
ویکی ذخائر پر اعجازبٹ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |