البابرتی

علامہ   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
البابرتی
(عربی میں: مُحمَّد بن مُحمَّد بن محمود بن أحمد الرومي البَابِرْتي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1314ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بایبورت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1384ء (69–70 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابو حیان الغرناطی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ملا شمس الدین فناری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  ماہرِ لسانیات ،  فقیہ ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم کلام   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں العنایہ   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

البابرتی (714ھ786ھ = 1314ء1384ء) انھیں صاحب العنایہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا نام محمد بن محمد بن محمود یا محمد بن محمود بن احمد بابرتی ہے۔ اكمل الدين ابو عبد اللہ ابن الشيخ شمس الدين ابن الشيخ جمال الدين الرومی البابرتی یہ رومی ہیں بغداد کے اطراف میں ایک گاؤں "بابرتا"کی طرف نسبت سے البابرتی مشہور ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ (بابرت) ارزن الروم - أرض روم کے گرد و نواح میں سے ہے جو تركی میں واقع ہے۔ حنفی فقیہ، امام، محقق، باریک بین، ماہر علم حدیث اور عربی اصول و ادب کے اساتذہ میں سے ہیں۔ علم حاصل کرنے کے لیے پہلے حلب اور پھر قاہرہ کے سفر کیے۔ کئی مرتبہ عہدہ قضاء پیش کیا گیا مگر آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔ ان کی وفات مصر میں ہوئی۔

تصنیفات

[ترمیم]
  • شرح تلخيص الجامع الكبير للخلاطی (فقہ)
  • العقيدة(توحيد)
  • العنایۃ في شرح الہدایہ(فقہ)
  • شرح مشارق الانوار
  • التقريرعلى اصول البزدوی
  • شرح وصیۃ الامام ابی حنيفہ
  • شرح المنار
  • شرح مختصر ابن الحاجب
  • شرح تلخيص المعانی
  • شرح الفیہ ابن معطی
  • النقود والردود
  • حاشیۃ على الكشاف
  • الارشاد( شرح الفقہ الاكبر لابی حنیفۃ)[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. سی ای آر ایل - آئی ڈی: https://data.cerl.org/thesaurus/cnp00847671 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اگست 2018
  2. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/132053403 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 جولا‎ئی 2021
  3. موسوعۃ الفقہیہ جلد1،صفحہ451،اسلامی فقہ اکیڈمی دہلی انڈیا