انتظار حسینستارہ امتیاز | |
---|---|
فائل:انتظار حسین.jpg انتظار حسین | |
پیدائش | انتظار حسین 21 دسمبر 1925 ضلع میرٹھ، برطانوی ہند |
وفات | فروری 2، 2016 لاہور | (عمر 90 سال)
پیشہ | صحافی، ناول نگار |
زبان | اردو |
قومیت | پاکستانی |
شہریت | پاکستان |
تعلیم | ایم اے اردو |
مادر علمی | جامعہ پنجاب، پاکستان |
دور | 1953ء تا 2016ء |
اہم اعزازات | کمال فن ادبی انعام آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز |
انتظار حسین (پیدائش: 21 دسمبر، 1925ء - وفات: 2 فروری،2016ء) اردو کے ایک ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار تھے، انھوں نے ایک داستان اور آپ بیتی طرز پر دو کتابیں لکھیں۔ حکومت فرانس نے ان کو ستمبر 2014ء میں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز عطا کیا۔ انتظار حسین کا انتقال 2 فروری 2016ء کو 92 سال کی عمر میں لاہور کے ایک ہسپتال میں ہوا۔[1]
انتظار حسین 21 دسمبر 1925ء کو دیبائی , ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ [2][3][4][5]
انتظار حسین نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز ان کے والد ( منتظر علی ) کے کٹر مذہبی رجحان اور زمانے کے تقاضوں کے درمیان کشمکش کا ایک سبب بن گیا ۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ روایتی مذہبی تعلیم حاصل کریں اور اسکول جانے کے سخت خلاف تھے ۔ ان کی بڑی بہن نے اصرار کرکے ان کو اسکول میں داخل کروایا اور باقاعدہ تعلیم کے سلسلے کا ایک آغاز کروایا۔ انتظار حسین نے 1942ء میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ اور 1944ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انتظار حسین نے میرٹھ کالج سے اُردو میں ایم اے کیا۔ انتظار حسین نے اُردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی،
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے ‘‘ 1953ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم ’’لاہور نامہ‘‘ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کی کتابوں میں سے "بستی" اور "خالی پنجره" کا سمیرا گیلانی نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب اور بدلتے لہجوں کے باعث پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج تھے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انھوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاؤ کرنا چاہا۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت کاایک ریلا سا آتا ہے جس کی بنا پر ان کے سنجیدہ قارئین کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔ ان کی خود ساختہ صورت حال حقیقت سے بہت دور ہے۔ اس طرح کی صورت حال تخیل کے حوالے سے یورپ میں سامنے آئی۔
ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ ان کے یہاں پچھتاوے، یاد ماضی، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار کے ضمن میں بہت سی جگہوں پر انداز اور لب و لہجہ ترش ہو جاتا ہے۔
وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کو نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار تھے، لیکن اپنی تمام تر ماضی پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔ اس میں ویسی ہی کشش ہے جو چاندنی راتوں میں پرانی عمارتوں میں محسوس ہوتی ہے۔
انتظار حسین کا فن عوامی نہیں۔ انھوں نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے افسانوں کے اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ کرنا بھی لازمی ہے۔ ہجرت کے حوالے سے ایک خاص طرح کا تناؤ انتظار حسین کے ہاں جاری و ساری ہے۔ اس صورت حال سے وہ خود کو منطقی طور پر الگ نہیں کر سکے۔ انھیں زندگی کی ظاہری بناوٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ باطن میں جو حالت درپیش ہوتی اس کا خیال رکھتے۔ یہی باطن کی غوطہ زنی اور اسلوبیاتی تنوع انتظار حسین کی پہچان ہے۔ لیکن وہ اسے فکری اور نظری پسماندگی کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ فرد کی انفرادی سطح پر اخلاقی جدوجہد کو بے معنی قرار دیتے ہیں۔ یہی موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح وہ مقام ہے جہاں پر انتظار حسین افسانے کے پیش منظر میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔
1# چاند گہن(1953ء)
انتظار حسین کا 2 فروری 2016ء کو مختصر علالت کے بعد انتقال ہوا اور 3 فروری کو انھیں فردوسیہ قبرستان فیروزپور روڈ گجومتہ لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی قبر کا نمبر 886 ہے لیکن قبر پر نمبر نہیں لکھا ہوا۔ اگلی اور پچھلی قبر کے ذریعے سے قبر تک رسائی با آسانی ہو جائے گی۔ یعنی قبر تک رسائی کے لیے 885 اور 887 نمبر دیکھنا ہوگا۔