انور شاہ کشمیری | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
دار العلوم دیوبند کے چوتھے صدر مدرس | |||||||
مدت منصب 1915ء – 1927ء | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 26 نومبر 1875ء لولاب |
||||||
وفات | 28 مئی 1933ء (58 سال) دیوبند |
||||||
شہریت | برطانوی ہند | ||||||
اولاد | ازہر شاہ قیصر، انظر شاہ کشمیری | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | دار العلوم دیوبند | ||||||
تلمیذ خاص | غلام غوث ہزاروی ، محمد يوسف بنوری ، مناظر احسن گیلانی ، محمد طیب قاسمی ، حفظ الرحمن سیوہاروی ، سعید احمد اکبرآبادی ، زین العابدین سجاد میرٹھی ، محمد میاں دیوبندی ، منظور نعمانی ، محمد شفیع عثمانی ، بدر عالم میرٹھی | ||||||
پیشہ | مفسر قرآن ، فقیہ ، شاعر ، محدث | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | کشمیری ، عربی ، فارسی | ||||||
شعبۂ عمل | فقہ | ||||||
دستخط | |||||||
درستی - ترمیم |
انور شاہ کشمیری (26 نومبر 1875ء – 28 مئی 1933ء) ایک کشمیری عالم دین، مفسر، محدث اور فلسفی تھے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں انھیں علومِ حدیث میں مہارت، زبردست حافظے اور احادیث کی منفرد تشریح کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ وہ دار العلوم دیوبند کے چوتھے صدر مدرس بھی تھے۔ ان کی علمی اور مذہبی وراثت کا سلسلہ بغداد سے جا ملتا ہے۔ انھوں نے محمود حسن دیوبندی کی سرپرستی میں دار العلوم دیوبند میں اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی اور روحانی تعلق رشید احمد گنگوہی سے استوار کیا۔ انھوں نے اپنی علمی زندگی کا آغاز مدرسہ امینیہ کے پہلے صدر مدرس کی حیثیت سے کیا۔
1906 میں انھوں نے مدینہ میں قیام کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی اور حدیث کے علوم میں مزید گہرائی پیدا کی۔ بعد ازاں انھوں نے دار العلوم دیوبند میں شمولیت اختیار کی اور تقریباً تیرہ سال تک شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل کو اپنے علمی سفر کا آخری مقام منتخب کیا۔ اگرچہ ان کی تحریری رجحان محدود تھا، تاہم چند رسائل انھوں نے خود تحریر کیے۔ ان کے تلامذہ نے ان کی علمی میراث کو محفوظ کیا، جو ان کے درسی تقاریر، خطبات اور مواعظ کی صورت میں قلم بند کیے گئے۔
ان کے علمی کام کا مرکز فقہ حنفی کی حمایت اور اس کی برتری کا اثبات تھا، تاہم انھیں مختلف مذہبی مسائل میں نسبتاً معتدل نقطہ نظر اختیار کرنے پر بھی پہچانا گیا۔ ان کی تصانیف کو 1929ء میں دہلی میں قائم ہونے والے علمی ادارہ مجلس علمی کے زیر سرپرستی شائع کیا گیا۔ ان کی علمی صلاحیت کو ”فیض الباری“ کی اشاعت سے باضابطہ طور پر قبولیت ملی، جو کہ صحیح بخاری کی ایک چار جلدوں پر مشتمل عربی شرح ہے اور بدر عالم میرٹھی کی تدوین کردہ ہے۔ اسے قاہرہ میں جمعیت علمائے ٹرانسوال کی مالی امداد سے شائع کیا گیا۔
ان کی علمی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع موضوعات پر مشتمل تھا، جن میں قرآن، بنیادی عقائد، فلسفہ، فقہ اسلامی، علم الحیوانات، شاعری، اور سیاسی نظریات شامل تھے۔ انھوں نے 15,000 اشعار بھی تخلیق کیے۔ ان کے نظریات اور آرا کا ہندوستان کے کئی علما نے حوالہ دیا اور انھیں "چلتی پھرتی لائبریری" کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ دار العلوم دیوبند میں اپنی اٹھارہ سالہ تدریسی زندگی کے دوران تقریباً دو ہزار طلبۂ حدیث نے ان سے استفادہ کیا۔ سیاسی میدان میں اپنی مصروفیت کے حوالے سے، وہ ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے سخت مخالف تھے اور جمعیۃ علماء ہند کے رکن کی حیثیت سے مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے قادیانی تحریک کے مقابلے میں اپنی توانائی صرف کی اور اس موضوع پر تقریباً دس تصانیف تیار کیں۔ ان کی علمی بصیرت نے محمد اقبال جیسے دیگر شخصیات کو بھی تحریک دی کہ وہ “اسلام اور قادیانیت“ کے موضوع پر غور کریں۔[1][2] جموں و کشمیر کی حکومت نے ان کے کشمیر کے مکان کو ایک قدیم لکڑی کے ورثے کے طور پر محفوظ کیا ہے۔
انور شاہ کشمیری 27 شوال 1292ھ (26 نومبر 1875ء) کو اپنے نانیہال دودھواں، لولاب، کشمیر میں ایک سید خاندان میں پیدا ہوئے۔[3][4] انھوں نے چار سال کی عمر میں اپنے والد معظم علی شاہ سے قرآن پڑھنا شروع کیا اور چھ برس کی عمر تک قرآن کے علاوہ فارسی کے متعدد رسائل بھی ختم کر لیے۔ غلام محمد صاحب سے فارسی و عربی کی تعلیم حاصل کی۔ تین سال تک آپ نے ہزارہ (خیبر پختونخوا) کے متعدد علما و صلحاء کی خدمت میں علوم عربیہ کی تکمیل کی۔[5][6] 1893ء میں انھوں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے حصول کے لیے دیوبند کا رُخ کیا اور محمود حسن دیوبندی اور دیگر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ 1314ھ مطابق 1896ء تک دورۂ حدیث سے تکمیل کرکے انھوں نے رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہو کر سند حدیث حاصل کرنے کے علاوہ ان سے روحانی فیوض بھی حاصل کیے۔[7]
دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے مدرسہ امینیہ دہلی میں تدریس کی اور اس کے پہلے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1903ء میں انھوں نے اپنے وطن کشمیر جا کر وہاں ”فیض عام“ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔[7] 1905ء (1323ھ) میں وہ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے اور کچھ مدت تک حجاز میں مقیم رہ کر وہاں کے کتب خانوں سے مستفید ہوئے اور 1909ء میں دیوبند واپس آئے، جہاں انھیں ان کے استاذ محمود حسن دیوبندی نے روک لیا۔ 1933ء تک انھوں نے دار العلوم دیوبند میں بغیر تنخواہ لیے کتبِ حدیث کی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ 1915ء میں محمود حسن دیوبندی کے حجاز جانے کے بعد سے 1927ء تک انھوں نے دار العلوم دیوبند کے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1927ء کی ابتدا میں انھوں نے بعض انتظامی اختلافات کے پیش نظر استعفا دے کر عزیز الرحمن عثمانی کے ساتھ مدرسۂ ڈابھیل چلے گئے، جہاں انھوں نے 1351ھ مطابق 1932ء تک تدریسِ حدیث کا مشغلہ جاری رکھا۔[8][9][10]
1933ء میں کشمیری بیمار ہوئے اور علاج کے لیے دیوبند آ گئے۔ 28 مئی 1933ء کو وہیں دیوبند میں ان کا انتقال ہوا۔ وفات کے وقت ان کے دو فرزند ازہر شاہ قیصر اور انظر شاہ کشمیری باحیات تھے۔[8] محمد اقبال نے تعزیتی تقریب کا اہتمام کیا اور اس موقع پر انھیں گزشتہ پانچ سو سال کا عظیم ترین عالم دین قرار دیا۔[11]
انور شاہ کشمیری کو برصغیر کے سب سے متنوع اور کثیر محدثین میں شمار کیا جاتا ہے۔[12] علم حدیث اور اسلامی علوم کے احیا میں ان کی خدمات کے اعتراف میں مصری عالم محمد رشید رضا نے کہا تھا: ما رأيت مثل هذا الأستاذ الجليل! (میں نے اس جلیل القدر استاذ جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا!)۔"[12][13]
جامعہ امام محمد انور شاہ انور شاہ کشمیری کے نام پر قائم کیا گیا دیوبند کا ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ یونس عثمان نے ان کی زندگی اور علمی خدمات پر یونیورسٹی آف ڈربن-ویسٹ وِل میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان Life and Works of Allamah Muhammad Anwar Shah Kashmiri تحریر کیا۔[14]
دسمبر 2015ء میں "دی پرائیڈ آف کشمیر" کے عنوان سے انور شاہ کشمیری پر ایک کتاب شائع کی گئی۔ کتاب کی اشاعت کے موقع پر اس وقت کے لنگیٹ کے ایم ایل اے، شیخ عبد الرشید نے کپواڑہ میں "اسٹوڈنٹ آف دی ایئر ایوارڈ" کا نام تبدیل کر کے "مولانا انور شاہ کشمیری ایوارڈ فار ایکسیلینس" رکھ دیا۔[15]
مختلف اسلامی موضوعات پر علامہ کی عربی اور فارسی میں ایک درجن سے زائد اہم اور معرکہ آرا کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جبکہ مزید کتب اشاعت کی منتظر ہیں:[8][2]
ان کی تصانیف میں شامل ہیں:[16][17]
کشمیری کے تلامذہ میں مناظر احسن گیلانی، محمد طیب قاسمی، حفظ الرحمن سیوہاروی، سعید احمد اکبر آبادی، زین العابدین سجاد میرٹھی، محمد میاں دیوبندی، منظور نعمانی اور محمد شفیع دیوبندی شامل ہیں۔[20][21]