اوپیندر ناتھ برہمچاری | |
---|---|
(بنگالی میں: উপেন্দ্রনাথ ব্রহ্মচারী) | |
![]() |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 دسمبر 1873ء جمالپور، منگر |
تاریخ وفات | 6 فروری 1946ء (73 سال) |
رہائش | کولکاتا |
شہریت | ![]() |
رکن | انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کلکتہ پریزیڈنسی یونیورسٹی، کولکاتا |
پیشہ | طبیب ، سائنس دان |
شعبۂ عمل | طب |
ملازمت | جامعہ کلکتہ |
اعزازات | |
نامزدگیاں | |
درستی - ترمیم ![]() |
رائے بہادر سر اوپیندر ناتھ برہمچاری ((بنگالی: উপেন্দ্রনাথ ব্রহ্মচারী)) (19 دسمبر 1873ء – 6 فروری 1946ء) ایک ہندوستانی سائنس دان اور اپنے وقت کے ایک اہم پیشہ ور طبیب تھے۔ انھوں نے 1922ء میں یوریا اسٹبامائن (کاربواسٹبامائڈ) کو بنایا اور اس بات کا تعین کیا کہ پروٹوزوائی لیشمانیا ڈؤنووانی کی وجہ سے ہونے والی بیماری کالا آزار (Visceral leishmaniasis) کے علاج میں یہ دیگر انٹیمونی پر مشتمل مرکبوں کے مقابلے میں ایک مؤثر متبادل ہے۔
ان کے انکشاف کردہ علاج کے ذریعے ہندوستان خاص کر اسام میں ہزاروں زندگیاں بچائی گئیں۔ اسام کے کچھ گاؤں میں کالا آزار کی بیماری کی وجہ سے آبادی گھٹ گئی۔ برہمچاری کے ایجاد کردہ طبی علاج اس وقت کی ایک بڑی کامیابی تھے۔
اوپیندر ناتھ برہمچاری کی پیدائش 19 دسمبر 1873ء میں مغربی بنگال کے ضلع بردھمان میں واقع پورب استھلی کے نزدیک سردنگا گاؤں میں ہوئی۔ ان کے والد نیلمونی برہمچاری ایسٹ ایڈین ریلوے میں ایک طبیب تھے۔ ان کی والدہ کا نام سوربھ سندری دیوی تھا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایسٹرن یوائز ریلویز اسکول، جمال پور سے حاصل کی۔ 1893ء میں ہوگلی محسن کالج سے انھوں نے کیمیا اور ریاضی میں بی اے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ اعلیٰ کیمیا کے ساتھ طب کا مطالعہ کرنے چلے گئے۔ 1894ء میں انھوں پریزیڈنسی کالج، کلکتہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ کلکتہ یونیورسٹی کے 1900ء کے ایم۔ بی۔ امتحانات میں طب اور سرجری میں ان کی پہلی پوزیشن آئی جس کے لیے انھیں گڈ ایو اور میکلوڈ اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کے تحقیقی پرچے ”Studies in Haemolysis“ کے لیے انھیں کلکتہ یونیورسٹی نے 1902ء میں ایم ڈی اور 1904ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بطور اعزاز عطا کیں۔[2] 1898ء میں انھوں نے نانی بالا دیوی سے شادی کی۔
ستمبر 1899ء میں انھوں نے صوبائی میڈیکل سروس میں شمولیت اختیار کی اور 1905ء میں ان کا ڈھاکہ میڈیکل اسکول میں امراضیات (Pathology) اور دوا شناسی (Pharmacology) کے استاد اور طبیب کے طور پر تقرر ہوا۔ 1905ء میں کیمپبیل میڈیکل کالج (موجودہ نیل رتن سرکار میڈیکل اینڈ ہاسپٹل) میں ان کا طبیب اور طب کے استاد کے طور پر تقرر ہوا، جہاں انھوں نے کالا آزار کا مفید علاج ”یوریا اسٹبامائن“ دریافت کیا۔ 1923ء میں میڈیکل کالج ہاسپٹل میں وہ ایک اضافی طبیب کے طور پر شامل ہوئے۔ وہ طبیب کی گورنمنٹ سروس سے 1927ء میں ریٹائر ہوئے۔ گورنمنٹ سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ کرمیکائیل میڈیکل کالج، کلکتہ میں ٹورپیکل امراض کے پروفیسر کے طور پر شامل ہوئے۔ نیشنل میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں بھی انھوں نے Tropical Disease Ward میں خدمات سر انجام دیں۔ وہ یونیورسٹی کالج آف سائنس، کلکتہ میں حیاتی کیمیا (Biochemistry) کے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ اور حیاتی کیمیا کے اعزازی پروفیسر بھی تھے۔[2]
غالباً سنہ 1924ء میں کورن ویلس اسٹریٹ، کلکتہ (موجودہ بدھان سرانی، کولکاتا) میں اپنی رہائش گاہ میں انھوں نے ”برہمچاری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ“ قائم کیا۔ بعد میں یہ انسٹی ٹیوٹ پارٹنر شپ میں تبدیل ہو گیا اور اس کے حصہ دار برہمچاری کے دو بیٹے پھنیندر ناتھ اور نرمل کمار تھے۔ برہمچاری کی رہنمائی میں یہ انسٹی ٹیوٹ تحقیق کے شعبوں اور دوائیوں کی تیاری دونوں میں اچھا ثابت ہوا۔ 1963ء میں اس انسٹی ٹیوٹ کا کام بند کر دیا گیا۔[2]
1939ء میں برہمچاری نے کلکتہ میں دنیا کا دوسرا بلڈ بینک بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ بلڈ ٹرانس فیوژن آف بنگال کے چیئرمین تھے۔ وہ بنگال کی سینٹ جان ایمبولینس ایسوسی ایشن کے صدر اور نائب صدر بھی تھے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جو بنگال کی مینیجنگ باڈی آف دی انڈین ریڈ کراس سوسائٹی کے چیئرمین بنے تھے۔ انھوں نے پورپ استھلی کے ہائی اسکول کے لیے فراخدلی سے خدمت کی۔ اسکول کا بعد میں نام تبدیل کر کے ”پورب استھلی نیلمونی برہمچاری“ رکھ دیا گیا تھا۔[2]
اپنی کامیابیوں کے لیے انھیں نے کئی انعامات ملے، جس میں کلکتہ یونیورسٹی کا گرفتھ میموریل انعام، کلکتہ اسکول آف ٹروپیکل میڈیسن کا منٹو میڈل اور ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کا ہائجین (1921ء) اور سر ولیم جونز میڈل بھی شامل تھے۔
ان کے کچھ اہم کام حسب ذیل ہیں:[2]