بھارت خاصے عرصہ سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ بھارت کے کشمیر، ناگالینڈ، پنجاب، آسام، بہار وغیرہ صوبہ جات خصوصات دہشت گردی سے متاثر رہے ہیں۔ بھار ت میں دہشت گردی انجام دینے والے افراد کسی مخصوص فرقہ یا مذہب کی بجائے مختلف مذاہب و ادیان سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے ہندو، مسلم، مسیحی، سکھ، ماؤ وادی اور نکسل وادی وغیرہ۔
جو علاقے آج دہشت گرد سرگرمیوں سے طویل عرصے سے جڑے ہوئے ہیں ان میں جموں و کشمیر ،ممبئی، مدھیہ پردیش (نکسل واد ) اور سات بہن ریاستیں (شمال مشرق کی سات ریاستیں) شامل ہیں۔ ماضی میں پنجاب میں پنپنے والی انتہا پسندی میں دہشت گردانہ سرگرمیاں بھی شامل ہو گئیں جو پنجاب اور ملک کی راجدھانی دہلی تک پھیلی ہوئی تھیں۔
2006ء میں ملک کے 608 اضلاع میں سے کم سے کم 232 ضلع مختلف سطح پر متعدد باغی اور دہشت گرد سرگرمیوں سے متاثر تھے۔[3] اگست 2008ء میں قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائن کا کہنا تھا کہ ملک میں 800 سے زیادہ دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں۔[4]
بھارت میں حالیہ کچھ بڑے دہشت گردانہ حملے اس طرح ہیں:
شہر ممبئی اکثر دہشت گرد تنظیموں کا سب سے پسندیدہ ہدف رہا ہے، خاص طور پر کشمیر کی علیحدگی پسند قوتوں کا۔ گذشتہ چند سالوں میں جن سلسلہ وار حملوں کو انجام دیا گیا ان میں جولائی 2006 میں لوکل ٹرینوں میں ہوئے دھماکے اور 26 نومبر 2008 کو ہوئے بے مثال حملے شامل ہیں جہاں دو اہم ہوٹلوں اور جنوبی ممبئی میں واقع ایک عمارت پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔
ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں شامل ہیں:
جموں و کشمیر میں مسلح بغاوت میں اب تک دس ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ [حوالہ درکار] کشمیر میں انتہا پسندی مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ سن1989ء کے بعد سے انتہا پسندی اور اس کے مظالم کے رد عمل، دونوں کی وجہ سے ہزاروں لوگ مارے گئے۔ 1987 کے ایک متنازع انتخابات سے کشمیر میں بڑے پیمانے پر مسلح انتہا پسندی کی شروعات ہوئی، جس میں ریاستی اسمبلی کے کچھ عناصر نے ایک دہشت گرد خیمے کو تشکیل دیا، جس نے اس علاقے میں مسلح بغاوت میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ بھارت، پاکستان کی انٹر انٹیلی جنس سروسز کی طرف سے جموں وکشمیر میں لڑنے کے لیے مجاہدین کی حمایت کرنے اور تربیت دینے کے لیے مجرم ٹھہراتا رہا ہے۔ جموں وکشمیر اسمبلی میں جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں تقریبا 3،400 ایسے معاملے تھے جو لاپتہ تھے اور جھڑپوں کی وجہ سے جولائی 2009 تک 47000 افراد ہلاک ہو گئے۔ بہر حال، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا عمل تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے ریاست میں انتہا پسندی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔
اگرچہ ریاست بہار میں دہشت گردی کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، جبکہ ‘‘سی پی آئی-ایم ایل ‘‘(CPI-ML)، ‘‘پیپلز وار‘‘،‘‘ایم ایم سی‘‘،‘‘ رنویر سینا‘‘ اور ‘‘بلبیر ملیشیا‘‘ جیسے کچھ گروپ سرگرم ہیں اور وہ اکثر مقامی پولیس اور لیڈروں پر حملہ کرتے ہیں، یہ ایک تشویشناک امر بنا ہوا ہے۔
بہار میں لچر انتظامیہ اور امن و قانون کی حالت نے ملیشیا کی دہشت اور اس کے خطرات بڑھنے میں مدد کی ہے۔ رنویر سینا اعلی ذات اور زمین مالکان کی شہری فوج ہے جو اس علاقے میں طاقتور نکسلیوں کے اثرات سے مقابلے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
اس ریاست میں ان نسلی گروپوں اور دیگر جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی جوابی کارروائیوں میں ہونے والے قتل عام کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ تمام شہری ملیشیائیں اپنے ذاتی گروپوں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں۔
ان گروپوں کے تشدد کا بنیادی شکار مجبور لوگ ہوئے ہیں (خواتین، بوڑھے اور بچے بھی)، جو ذات کی بنیاد پر ہوئے قتل عام میں مارے گئے۔ ریاستی پولیس کی خستہ حالی کی وجہ سے اسے دہشت گردوں کے AK-47، AK-56 کا مقابلہ اپنی پرانی 303 رائفلوں سے کرنا پڑتا ہے۔ عسکریت پسند پولیس جماعتوں کو مارنے کے لیے گھات لگا کر بارودی سرنگوں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔
ریاست میں دہشت گرد سرگرمیوں کی اصل وجہ مختلف نسلی گروپوں کے درمیان موجود تفریق ہے۔ یہ خیال عام تھا کہ آزادی کے بعد زمینی اصلاحات کو لاگو کیا جائے گا اور اس سے نچلی ذات اور غریبوں کو اس زمین سے حصہ ملے گا جو اس وقت زیادہ تر اعلی ذات کے لوگوں کے پاس تھی۔
حالاں کہ ریاست میں ذات کی بنیاد پر تفریقی سیاست کی وجہ سے زمینی اصلاحات کو ٹھیک طرح سے لاگو نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے نچلی ذاتوں کے درمیان تنہائی کا احساس بڑھتا گیا۔
سی پی آئی-ایم ایل، MCC اور پیپلز وار جیسے کمیونسٹ گروہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور نچلی ذاتوں کے افراد کو نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے بھڑكايا، چنانچہ انھوں نے اعلی ذات کے امرا کو قتل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔
اعلی ذات کے لوگوں نے اپنے دفاع اور نکسلیوں سے مقابلے کے لیے اپنی فوج “رنویر سینا“ تشکیل دی، ریاست نے ان گروپوں کی طرف سے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں ہوئے اجتماعی قتل کا خونی دور بھی دیکھا۔ لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی اور ان ہلاکتوں کی خاموش گواہ بنی رہی۔ لیکن اب رنویر سینا اپنے اعلی رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد کافی حد تک کمزور ہو گئی ہے۔، تاہم دیگر گروپس اب بھی سرگرم ہیں۔
حال ہی میں ملک کے مختلف حصوں میں کئی گرفتاریاں ہوئی ہیں، خاص طور پر دہلی اور ممبئی پولیس کی طرف سے، جس سے اس بات کا اشارہ ملا ہے کہ انتہا پسند/دہشت گرد تنظیمیں ریاست میں اپنا نیٹ ورک پھیلا رہی ہیں۔ اس بات کا بھی بہت زیادہ شک ہے کہ ریاست بہار کو چھوٹے ہتھیار، جعلی کرنسی اور منشیات کے ڈیلروں کی طرف سے نیپال سے داخل کرنے کے لیے ٹرانزٹ پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور دہشت گرد مبینہ طور پر نیپال اور بنگلہ دیش سے دراندازی کرتے رہتے ہیں۔
تاہم، حالیہ برسوں میں مختلف نسلی گروپوں کے حملے کم ہوئے ہیں جو حکومت کی بہترین کارکردگی کا ثبوت ہے۔
1970 کی دہائی میں بھارتی سبز انقلاب سے پنجاب کی سکھ کمیونٹی کی اقتصادی خوش حالی میں اضافہ ہوا۔ اس رجحان نے سکھ برادری کے اندر ایک عرصہ پرانے خوف کو بھڑكايا کہ ہندو سماج ان کا استحصال کر رہا ہے، جس سے سکھ دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
1980 کی دہائی کے دوران انتہا پسندی کا رجحان تیز تر ہوتا گیا، کچھ ہی عرصہ میں تحریک نے تشدد کا رخ اختیار کیا اور خالصتان نام رکھا گیا، تو بھارتی یونین سے آزاد ہونے کی کوشش کی گئی۔ جرنیل سنگھ بھنڈران والہ کی قیادت میں تحریک کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے دہشت گردی کا استعمال شروع کیا گیا، تاہم وہ خالصتان کی تعمیر کے حامی تھے اور نہ اس کے مخالف۔ جب بھارت نے یہ الزام لگایا کہ پڑوسی ملک پاکستان ان دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے، تو اسے 4-1983 میں سکھوں کی وسیع حمایت حاصل ہو گئی اور اس معاملہ نے خونی موڑ لے لیا۔
1984 میں بھارتی حکومت نے تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آپریشن بلیو سٹار شروع کیا۔ گولڈن ٹیمپل کے احاطے میں حملہ کیا گیا، اس حملہ کے لیے بھنڈران والہ نے قلعہ بندی کی تیاری کر لی تھی۔ بھارت کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے فوج کو حکم دیا کہ وہ مندر پر حملہ کر دیں، فوج نے حملہ کیا اور بالآخر مندر پر ٹینکوں کا استعمال کیا گیا۔
چوہتر گھنٹے کی فائرنگ کے بعد فوج کو مندر پر کنٹرول کرنے میں کامیابی ہوئی، ایسا کرنے میں اکال تخت کے کچھ حصے، سکھ ریفرنس لائبریری اور خود گولڈن ٹیمپل کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچا۔ حکومت ہند کے ذرائع کے مطابق تراسی فوجی اہلکار ہلاک اور 249 زخمی ہو ئے۔ مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد 493 تھی اور چھياسی زخمی ہوئے۔
اسی سال دو سکھ باڈی گارڈز نے اندرا گاندھی کو قتل کر دیا، اس نتیجے میں سکھ فسادات ہوئے، خاص طور پر نئی دہلی میں۔ اس کے بعد 1988 میں پنجاب پولیس نے پہلے جولیو ربیرو اور اس کے بعد KPS گل کی قیادت میں بھارتی بری فوج کے ساتھ مل کر آپریشن بلیک تھنڈر چلایا جس نے تحریک کو زیر زمین ہونے پر مجبور کر دیا۔
1985 میں سکھ دہشت گردوں نے کینیڈا سے ہندوستان آ رہے ایئر انڈیا کے طیارے میں بم دھماکے کیے جس سے ایئر انڈیا کی پرواز 182 میں سوار تمام 329 مسافر ہلاک ہو گئے۔ یہ کینیڈا کی تاریخ میں سب سے زیادہ خوفناک دہشت گرد کارروائی تھی۔
سکھ دہشت گردی کے خاتمے اور خالصتان کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تب تباہ ہوا جب پاکستان کی اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ایک خیر سگالی اشارہ کے طور پر حکومت ہند کو پنجاب کے دہشت گردی سے متعلق تمام خفیہ مواد سونپ دیا۔ حکومت ہند نے ان انٹیلی جنس معلومات کا استعمال ہندوستان میں ہو رہے دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے سرگرم لوگوں کا خاتمہ کرنے میں کیا۔
1993 میں براہ راست سکھ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد نسبتا پرسکون مدت میں دہشت گرد کارروائیوں (مثال ہے 1995 میں پنجاب کے وزیر اعلی بیت سنگھ کا قتل) کے لیے نصف درجن کے ارد گرد لڑاکا سکھ تنظیموں کو مارک کیا گیا، ان تنظیموں میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان کمانڈو فورس، خالصتان لبریشن فورس اور خالصتان زندہ باد فورس شامل ہیں۔
خالصتان کو کینیڈا اور گرے ٹبرٹین کی سکھ کمیونٹی سے اب بھی وسیع مدد مل رہی ہے۔