بھارت میں قحبہ گری قانونًا ناجائز نہیں ہے۔ تاہم بھارت میں قحبہ گری کو قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مخرب اخلاق بازارکاری (immoral trafficking) جیسے کچھ قوانیں کو بہ روئے کار لاتے ہوئے کئی بار اس پیشے میں شامل عورتوں، بچولیوں اور گاہکوں پر قانونی شکنجہ کسا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ایک وسیع ملک میں پھیلے پیشے کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا ہے، تاہم ذیل میں چند اہم قحبہ گری کے رواج کو لکھا گیا ہے:
دیوداسی کا لفظی مطلب خدا کی باندی ہے۔ قدیم زمانے میں جوان عورتوں کو مقامی دیوتاؤں سے بیاہا جاتا تھا۔ یہ لوگ مندر کی پوجا کے علاوہ رقص و سرود میں مہارت رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے کچھ داسیوں کو راجا، مہاراجا، حتی کہ ادنٰی سطح پر رجواڑوں سے بیاہا جاتا یا انھیں ان لوگوں کے حرم میں جگہ ملتی اور آرام و آسائش سے زندگی گزرتی۔ انگریزوں کی آمد کے بعد چونکہ ملکی حکمرانوں کا وجود رہا ہی نہیں یا مفقود ہو گیا، اس لیے یہ عورتیں بھی قحبہ گری پر مجبور ہو گئیں۔ 1988ء میں اس نظام کی مسدودی کے باوجود آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کرناٹک اور تمل ناڈو میں ہزا رہا خواتین اسی نظام میں پھسیں ہیں۔
مغربی مدھیہ پردیش کے اس قبیلے میں جسمانی فروخت کا کاروبار عام ہے۔ اس قبیلے میں بہ طور خاص خاندان کی سب سے بڑی لڑکی کو بچپن سے قحبہ گری کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس رواج کو اس درجہ عام کیا گیا ہے کہ قبیلے پر کئی ڈاکیومنٹری فلمیں بن چکی ہیں۔ 2004ء میں میسٹیل برابے نے ہائی وے کارٹیسن (شاہ راہ کی رقاصائیں) نامی ایک ڈاکیومنٹری تیار کیا تھا۔ یہ عنوان در حقیقت اس اس پس منظر سے متاثر ہے کہ ماضی میں کبھی یہاں کی عورتیں درباری رقاصائیں تھیں جو اب محض قحبائیں رہ گئی ہیں۔ یہ ڈاکیومنٹری اسی قبیلے کی لڑکی گُڈو کی جد و جہد پر مبنی ہے جو دس سالہ کش مکش کے بعد اس ناگفتہ بہ نظام سے اوپر آ گئی تھی۔ یہ کہانی اس قبیلے کا شاذ و نادر واقعہ رہا ہے۔
یہ شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے ہردوئی ضلع کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ ایک بے حد غریب گاؤں ہے اور زیادہ تر دیہاتی نٹ قب لیے سے ہیں جو رسی پر چلنے اور دیگر کربت بازیوں سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ 1871ء میں برطانوی ہند کے دور میں مجرمانہ قبائل قانون منظور ہوا۔ نٹ برادری کو بھی مجرم قرار دیا گیا۔ انھیں پیٹا گیا، قید و بند کیا گیا اور یہ بربریت یوں ہی جاری رہی۔ اس سے قبیلے کے روزگار کے روایتی ذرائع ختم ہو گئے اور عورتوں کے پاس کمائی کے ذرائع نہیں تھے۔ وہ قحبہ گری کا سہارا لینے لگیں۔ موجودہ دور میں یہ حال ہے کہ ایک جواں سال اس پیشے میں کود پڑی تھی، صحافیوں کو بتاتی ہے کہ اس کی دادی نے اسے تعلیم دی کہ تمھیں شرمانے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ تمھاری عمر کی تقریبًا یہاں کی سبھی عورتیں اس پیشے میں شامل ہو چکی ہیں۔
شمالی گجرات: یہ گاؤں پورے بھارت میں قحبہ گری کے میدان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں گھر میں کسی لڑکی کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے کیوں کہ اسے خاندان کے لیے ایک اور ذریعۂ روزگار تصور کیا گیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ لڑکیوں کو قحبہ گری کی زندگی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں بارہ برس کی عمر میں ہی کاروبار کا حصہ بنتی ہیں۔ لڑکے دلالوں اور بچولیوں کا کام انجام دیتے ہیں۔ مرد گاہک واڈیا کو احمد آباد، راجستھان، ممبئی اور پاکستان سے ہم بستری کی تلاش میں آتے ہیں اور یہاں پر ایک بار کا نِرخ پانچ سو سے دس ہزار کے بیچ ہوتا ہے۔[1]