بھکت ویدُر 1921ء میں ریلیز ہوئی بھارتی ہندی فلم۔ جسے بھارت کی پہلی ممنوعہ (Banned) فلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔[1]
فلم کی کہانی، ویدُر کی زندگی اور فلسفہ پر مبنی تھی۔ مہابھارت کی کہانی میں ویدُر دراصل دھرت راشٹر کے وزیر تھے اور انصاف پسند ہونے کی وجہ سے پانڈؤں کے خیر خواہ تھے، جو کورو اور پانڈوں کو آپس میں جنگ کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے، وہ شاعر بھی تھے اور انھوں نے اپنے فلسفہ اور اصولوں کی ایک کتاب دیدُر نیتی بھی لکھی۔ عمر کے آخری دور میں جنگل میں گوشہ نشین ہو گئے تھے اور وہیں وفات پائی۔[2][3]
بھارت میں سن 1918 میں سنسر شپ ایکٹ بنایا گیا، جس پر پہلی بار عمل 1921 ء میں ہوا، ہدایت کار ڈی ڈبلیو گریفتھ کی انگریزی فلم "آرفنس آف دی سٹورم" ۔[4] کو سینسر بورڈ کے سامنے لایا گیا تو اس فلم کے کچھ مناظر کو کاٹنے کے بعد سینسر بورڈ نے اسے سرٹیفکیٹ دے دیا۔ یہی بھارت کی پہلی سینسر سرٹیفکیٹ والی فلم مانی جاتی ہے، اس فلم میں فرانس کے انقلاب اور طبقاتی جدوجہد اور نسلی نفرت کو دکھایا گیا تھا۔ لہذا کانٹ چھاٹ کے بعد بھارت میں ریلیز ہونے سے پہلے اسے بھارت میں پہلا سینسر سرٹیفکیٹ ملا [5]
لیکن 1921ء ہی میں کوہ نور فلم کمپنی کے بینر تلے ہدایت کار کانجی بھائی راٹھور کی ہندی فلم بھکت ویدر بھارت کی پہلی فلم بنی جسے کہ سنسر شپ کے تحت سندھ اور مدراس (موجودہ چنائی) میں نمائش کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔ یہ ایک خاموش فلم تھی۔ موہن لال جی ڈیو کی کہانی جو مہا بھارت کے دور پر مبنی تھی۔ جس میں پانڈو اور كوروو کے درمیان تنازعات کو ایک شاعر بھکت ویدرکے نقطۂ نظر سے دکھایا گیا تھا۔ اب آپ سوچیں گے کی اس میں فلم کو پابندی کرنے کی ایسی کون سی بات تھی۔ تو اس کا سبب یہ تھا کی بھارت اس وقت اپنی آزادی کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ مارچ 1919 میں ہندوستان کی برطانوی حکومت کی طرف سے بھارت میں گاندھی جی کی قیادت میں ابھر رہی قومی تحریک کو کچلنے کے مقصد سے "رولٹ ایکٹ" نام کا ایک قانون منظور کیا گیا۔ اس کے مطابق برطانوی حکومت کو یہ حق حاصل ہو گیا تھا کہ وہ کسی بھی ہندوستانی پر عدالت میں بغیر مقدمہ چلائے اور بغیر سزا دیے اسے جیل میں بند کر سکتی تھی۔ اس قانون کے تحت مجرم کو اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے والے کا نام جاننے کا حق بھی ختم کر دیا گیا تھا / اس قانون کی مخالفت میں ملک گیر ہڑتالیں، جلوس اور جلسے ہونے لگے۔ مہاتما گاندھی نے وسیع ہڑتال کا اعلان کیا۔ 13 اپریل 1919 کو ڈاکٹر سیف الدین كچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کی مخالفت میں جلياوالا باغ میں لوگوں کی بھیڑ جمع ہوئی۔ امرتسر میں تعینات فوجی کمانڈر جنرل ڈائر نے اس بھیڑ پر اندھا دھند گولیاں چلوائیں۔ ہزاروں لوگ مارے گئے۔ بھیڑ میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر تھی۔ ایسے میں اگلے ہی سال فلم "بھکت ویدر" ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں بھکت کا اہم کردار دوارکا داس سمپت نے ادا کیا تھا۔ جو خاموش فلموں کے منجھے ہوئے اداکار تھے۔ دیگر اداکاروں مین میں مانک لال پٹیل(جنوں نے کرشنا کا کردار نبھایا)، ہومی ماسٹر( جو دریودھن کے کردار میں نظر آئے)، پربھا شنکر، گنگا رام اور سکینہ تھے۔ اس فلم میں ویدر کے کردار نے سر پر گاندھی ٹوپی لگائی تھی اور کھدی کے کپڑے پہنے تھے۔ یہی انگریزی حکومت کی آنکھوں میں کھٹک گئی کیونکہ رولٹ ایکٹ کے خلاف مزاحمت اور جاليا والا باغ قتل عام سے لوگوں میں پہلے ہی برطانوی حکومت میں فی زبردست غم و غصہ تھا۔ گاندھی جی کی نقل و حرکت سے ڈری ہوئی انگریزی حکومت نے فلم کو بھارت میں پابندی عائد کر دی۔ برطانوی سینسر بورڈ نے فلم کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دی کی ہم جانتے ہیں کہ آپ کیا دکھا رہے ہیں یہ ویدر نہیں یہ گاندھی ہے۔ اس فلم میں ہندو تاریخی کردار ویدر کو موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت جیسا دکھایا گیا ہے۔ اسے نمائش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس فلم کو حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے کی کوشش مانتے ہوئے برطانوی حکومت نے فلم کے پرنٹ قبضہ کر لیے اس طرح "بھکت ویدر" مدراس، کراچی اور کچھ دیگر صوبوں میں ممنوعکر دی گئی۔ ہدایت کار کانجی بھائی راٹھور برطانوی حکومت کو سمجھانے میں ناکام رہے اور انھیں ایک بڑا معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔[6][7][8]
ویکی ذخائر پر بھکت ویدور سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |