تذکرہ

تذکرہایک عربی لفظ ہے جس کا معنی یاد کے آتے ہیں۔[1] تذکرہ ایک ادبی صنف بھی ہے۔ جدید عربی زبان میں تذکرہ کے معنی ٹکٹ کے ہیں۔ لفظ تذکرہ کا استعمال مندرجہ ذیل ہے:

تفصیل

[ترمیم]

اردو ادب میں تذکرہ نگاری کا فروغ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اہم ترین واقعات ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔ اصلاحی طور پر ”تذکرہ“ سے مراد وہ کتاب ہے جس میں شعراءکے حالات و واقعات حیات لکھے جاتے ہیں۔ تذکروں کی تالیف میں بیاض نگاری کے شوق نے ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ انتخاب اشعار کے ساتھ شعرا کے نام اور ان کے مختصر کوائف حیات جمع کیے جاتے تو اس کو ”تذکرہ“ کا نام دیا جاتا اور جب حالات کی جمع بندی اور اشعار کے انتخاب کے ساتھ مﺅلف کی مدلل ذاتی رائے بھی دی جانے لگی تو اس قسم کے تذکرے میں مﺅلف کا تنقیدی زاویہ بھی ابھرنے لگا۔ محمد حسین آزاد کی شہرہ آفاق کتاب ”آب حیات“ کو اس قسم کے تذکروں کی ترقی یافتہ ابتدائی صورت قرار دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں تذکرہ نگاری کو خواجہ میر درد کے زمانے سے ہی فروغ ملنا شروع ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے محمد یار خان خاکسار‘ محمد رفیع سودا‘ خان آرزو اور سید امام الدین کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے شاید اردو شعرا کے تذکرے بھی لکھے تھے‘ لیکن یہ کہیں دستیاب نہیں‘ اس لیے شنیدہ پر ہی اعتبار کرنا ناگزیر ہے۔ قدیم ترین تذکروں میں میر تقی میر کا ”نکات العشرائ“ حمید اورنگ آبادی کا ”گلشن گفتار“ اور افضل بیگ کا تحفتہ الشعرائ“ شمار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ”نکات الشعرائ“ کو پہلا موجود اور دستیاب تذکرہ قرار دیا ہے۔ قدیم تذکروں نے ادب کی تاریخ نویسی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ اکیسویں صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ لالہ سری رام کے ”خم خانہ جاوید“ کو جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ‘ اردو کا سب سے بڑا تذکرہ شمار کیا جاتا ہے تازہ ترین مثال جناب احمد حسین صدیقی نے صرف کراچی کے ادبا اور شعراءپر مشتمل تذکرے سے پیش کی ہے۔ اس کا نام ”دبستانوں کا دبستان“ ہے۔ پہلی جلد جس میں 194 ادبا کا تذکرہ ہے۔ 2003 میں اور 198 ادبا کے تذکرے پر مشتمل دوسری جلد 2005 میں شائع ہوئی۔ تیسری جلد 2010ء میں منظر عام پر آئی اور اس میں 181ادیبوں کا تذکرہ شامل ہے۔ ان تینوں جلدوں میں ممتاز ادبی شخصیات کی مجموعی تعداد 573 بنتی ہے اور اس تالیف کو کسی ایک شہر کے اہل دانش کا سب سے بڑا تذکرہ قرار دیا جانا چاہیے اور اس کا اندراج عالمی گنیز بک آف ریکارڈز میں ہونا چاہیے۔

اہم بات یہ ہے کہ ”دبستانوں کا دبستان“ کا مﺅلف جناب احمد حسین صدیقی پیشہ ور مصنف نہیں بلکہ انھوں نے کراچی کے ”اسکول آف آر کیٹکچر“ سے تعمیرات کے ماہر کی ڈگری حاصل کی‘ اسی شعبے میں عملی زندگی کا آغاز بلدیہ کراچی سے کیا اور 1977ء میں کراچی ترقیاتی ادارے سے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت میں ریٹائر ہوئے۔ ان کا سابقہ وطن مالوف امروہہ ہے‘ جہاں وہ 1937ءمیں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد مستقل بود و باش کے لیے کراچی آ گئے۔ جہاں سرکاری ملازمت میں ہی اپنے ادبی ذوق کی پرورش دہر داخت جاری رکھی۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ”سیاحت ماضی“ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ تاریخ کی دو کتابوں کے نام ”گوہر بحیرہ عرب“ (کراچی) اور ”کشور اولیائ“ (امروہہ کی تاریخ) ہے۔ امروہہ کی تاریخ میں ادبی زاوئیے سے تذکرہ نگاری کو بھی اہمیت حاصل ہے۔

اس شعبہ تالیف کا ایک اہم نام غلام ہمدانی مصحفی کا ہے جو امروہہ کے ممتاز شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں تذکرہ ہندی۔.۔. ”ریاض المنہا“ اور ”عقد ثریا “ تالیف کیے جو اس دور کی ادبی تاریخ کا بنیادی ماخذ ہیں احمد حسین صدیقی نے اس روایت کی تجدید اکیسویں صدی میں کی اور انداز اپنا اختراع کیا۔ نمایاں ترین پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تحقیق و تنقید کے جدید اصولوں پر عمل کیا۔ مستند معلومات کی تلاش میں بنیادی ماخذات تک رسائی حاصل کی۔ حالات حیات کے ساتھ تخلیق کار کی تصویر اور نمونہ تحریر بھی پیش کیا اور وفات و پیدائش کی تاریخوں کا اندراج ان کی جستجوئے پیہم کا ن

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "The Tezkires of Poet: Indispensable Sources for History of our Literature- Abstract, Filiz Kilic"۔ 06 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2022