اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ (اپریل 2009) |
جام صادق علی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
20 ویں وزیر اعلیٰ سندھ | |||||||
مدت منصب 6 اگست 1990 – 5 مارچ 1992 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 1899ء جام نواز علی (تحصیل) |
||||||
وفات | 5 مارچ 1992ء (92–93 سال) کراچی |
||||||
رہائش | جام نواز علی، ضلع سانگھڑ، Sindh | ||||||
مذہب | اہل سنت | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | سینٹ پیٹرک اسکول | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
درستی - ترمیم |
(وفات:1992ء) سندھ کے سیاست دان تھے۔ ان کا تعلق ساما خاندان کے ذیلی قبیلے جام کے نواب خاندان سے تھا۔ وہ سندھ صوبے کے 20 ویں وزیر اعلیٰ بھی رہے تھے۔
جام صادق علی 1935ء میں سانگھڑ میں جام کانبھو خان کے گھر پیدا ہوئے جو خود بھی ایک معروف وڈیرے تھے۔
جام صادق علی نے 50 کی دہائی میں بلدیاتی سیاست سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ 1962ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب نہ ہو سکے تاہم 1965ء میں انھوں نے قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر اپنی پارلیمانی زندگی کا آغاز کیا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے سندھ اسمبلی کا انتخاب جیتا تاہم بعد ازاں وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے ۔[1]
1971ء میں پہلی مرتبہ صوبائی وزیر بنے اور وزیر بلدیات کی حیثیت سے بڑی شہرت کمائی۔ 1977ء کے بعد انھوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی اور 1989ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد وطن واپس لوٹ آئے۔ 1990ء میں وہ سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰٰ بنے اور پھر اکتوبر 1990ء کے انتخابات کے بعد شدید جوڑ توڑ کے نتیجے میں سندھ کے مستقل وزیر اعلیٰٰ بن گئے اور اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے۔
1990 کی دہائی میں پنجاب میں غلام حیدر وائیں وزیر اعلی تھے اور جام صادق سندھ کے وزیر اعلی تھے اس دور میں پنجاب کے گلی محلوں میں بزرگ عام طور پر کہا کرتے تھے آج کل ملک میں جام اور وائین کی حکومت ہے۔(واضح رہے کہ اردو زبان میں جام اس پیالے یا گلاس کو کہتے ہیں جس میں شراب پی جاتی ہے اور وائن ایک مشہور شراب ہے)
جام صادق کے بقول جنرل جہانزیب ارباب نے انھیں اعتماد میں لے کر بتایا کہ جنرل ضیاء ان سے بھٹو کے خلاف اپنی مرضی کا کوئی بیان حاصل کرنا اور اس کی بنیاد پر بھٹو خاندان کو رسوا کرنا، اس کی خاندانی جائداد اور زمینوں کو متنازع بنانا اور تقسیم کرواکے پھوٹ ڈلوانا چاہتے تھے۔ ان کے انکار کرنے پر دھمکی دی گئی کہ ان کا وہ حشر کیا جائے گا کہ وہ بھٹو کا حشر بھول جائیں گے۔
جام صادق نے جنرل کو دوستی کا واسطہ دیکر مدد چاہی اور کہا کہ آپ لوگ تو اس وقت تک ہیں جب تک مارشل لا نافذ ہے، ہم نے تو یہیں جینا اور مرنا ہے لہذا وہ بھٹو خاندان سے بلاوجہ دشمنی مول نہیں لینا چاہتے۔ اس پر ان کے اور جنرل ارباب کے مابین وہ ڈیل ہوئی جس کے تحت بیرون ملک فرار ہونے میں ان کی مدد کی گئی۔ جنرل جہانزیب ارباب نہ صرف انھیں اپنے ساتھ ایئرپورٹ لے کر گئے بلکہ جہاز میں سوار ہونے تک وہاں موجود رہے۔
جام صادق نے لین دین کی تفصیل تو نہیں بتائی البتہ یہ انکشاف ضرور کیا کہ جنرل ضیاء کو کسی طرح اس کا علم ہو گیا جس کے بعد جنرل ارباب کو ہٹا کر ان کی جگہ جنرل ایس ایم عباسی کو سندھ کا گورنر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا۔
بیرون ملک انھوں نے پہلا پڑاؤ دبئی میں ڈالا جہاں کے حکمراں ایک تو بھٹو کے ذاتی دوست تھے دوسرے ان کے اپنے بھی کچھ با اثر شیوخ کے ساتھ گہرے مراسم تھے جن کی وجہ سے انھیںوہاں قیام کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، پاکستان سے ’’سپلائی لائن‘‘ بھی بحال تھی۔[1]
جلد ہی جنرل عباسی کی زیر قیادت سندھ کی مارشل لا انتظامیہ نے وہ سپلائی لائن کاٹ دی اور شیوخ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جام صادق کو پاکستان کے حوالے کریں،انھوں نے یہ تو نہیں کیا البتہ بحفاظت لندن نکل جانے میں ان کی مدد کی اور یہ بقول خود ’’اللہ کے آسرے‘‘ لندن پہنچ گئے، جہاں انھی کی طرح بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ کھر پہلے سے موجود جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ وہ بھی جام صادق کی طرح رئیس آدمی تھے، پھر ان کی سپلائی لائن بھی بند نہیں تھی اس لیے کھلا کھاتے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔
جام صادق نے رابطہ کیا تو کھر صاحب نے ا نہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا، اپنے ساتھ رکھا اور خوب عیش کرایا۔کچھ عرصہ دونوں نے خوب مزے کیے لیکن ایک دن اچانک پتہ چلا کہ کھرکی سپلائی لائن بھی کاٹ دی گئی ہے اور وہ سڑک پر آگئے ہیں۔ انھوں نے جام کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور اپنا انتظام کرنے کے لیے کہا کیونکہ اب وہ خود دوسروں کے رحم وکرم پر تھے اور ان کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔
یہاں سے کہانی میں نیا موڑ آیا، کھر کے ہاں سے رخصت ہوکر جام صادق بلا ارادہ ناک کی سیدھ میں ایک طرف چل پڑے، کوئی گھنٹہ بھر پیدل چلنے کے بعد تھک کر چور ہو گئے، سڑک کے کنارے ایک پبلک پارک نظر آیا تو سوچا وہیں بیٹھ کر خود کشی کی منصوبہ بندی کریں گے سو آکر ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔
سامنے والی بینچ پر ایک معمر جوڑا بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا، بڑے صاحب اخبار بینی میں مصروف تھے جب کہ بڑی بی کسی بچے کا سوئٹر بن رہی تھیں۔ جام صادق نے بتایا کہ سخت بھوک لگی تھی اور جیب میں دھیلا نہیں تھا، پارک میں لوگوں خصوصاً بچوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر بھوک اور بھی چمک اٹھی، اب ان سے مزید رہا نہیں جا رہا تھا، جی چاہتا تھا کسی کے ہاتھ سے برگر جھپٹ کر کھالیں۔ انھوں نے دیکھا وہ معمر جوڑا اٹھ کر جانے لگا تو اخبار اور کاغذ کا ایک تھیلا وہیں بینچ پر چھوڑ دیا۔
جام صادق کے بقول وہ لپک کر پہنچے، تھیلا چیک کیا تو اس میں برگر کے بچے ہوئے دو ٹکڑے اور کچھ فرائز پڑے تھے جو انھوں نے جھٹ سے نکال کر کھا لیے، پیٹ میں کچھ گیا تو وہ ٹیک لگا گر بیٹھ گئے اور اخبار کی ورق گردانی کرنے لگے۔
اچانک ان کی نظر ایک تصویر پر پڑی جس نے ان کے دن بدل دیے اور لندن میں رہنا ان کے لیے آسان ہو گیا۔ وہ تصویرآغا حسن عابدی کی تھی جس میں وہ لندن ہی میں کسی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔جام صادق نے بتایا کہ وہ زندگی میں پہلے کبھی آغا صاحب سے نہیں ملے تھے، بس اتنا جانتے تھے کہ وہ بہت بڑے پاکستانی بینکار ہیں۔ وہ اخبار ہاتھ میں لیے پارک سے باہر آئے اور ایک قریبی بینک میں جا کر اس جگہ کا پتہ پوچھا جہاں آغا صاحب کو تصویر میں دکھایا گیا تھا۔ یوں پتہ حاصل کرکے وہ ان سے ملنے میں کامیاب ہو گئے۔[2]
خلافِ توقع آغا صاحب نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی، نہایت تواضع سے پیش آئے اور یوں لگے ان کا حوصلہ بڑھانے اور تسلیاں دینے جیسے ان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوں۔ قصہ مختصر آغا صاحب کی دی ہوئی رقم سے انھوں نے لندن میں وہ گھر خریدا جو بعد میں غیر سرکاری سندھ ہاؤس کے نام سے مشہور ہوا اور آج تک وہاں ان کی طرح در در کی ٹھوکریں کھانے والے پاکستانیوں خصوصاً سندھیوں کی پناہ گاہ ہے۔ آغا صاحب کے مقرر کردہ ماہانہ وظیفے سے انھوں نے وہاں جلاوطنی کے باقی ایام اس ٹھاٹھ سے گزارے کہ کوڑوں کی سزا اور جیل کی صعوبتوں کے ڈر سے بھاگ کر وہاں پہنچے ہوئے کوئی درجن بھر دوسرے لوگ بھی ان کے خرچ پر پلتے تھے۔[3]
جام صادق نے زندگی کے آخری حصے میں جو سیاسی کردار نبھایا وہ بلاشبہ انتہائی شرمناک اور قابل نفرت تھا لیکن ان کا یہ انٹرویو پڑھ کر لگا کہ خاندانی شرافت چھپائے نہیں چھپتی اور برا آدمی بھی کبھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر بیٹھتا ہے۔ جام صادق چاہتے تو آغا صاحب کے احسانات نہ مانتے، مگر انھوں نے نہ صرف کھلے دل سے ان کا اعتراف کیا بلکہ لوگوں کو اپنے محسن کی بڑائی کے اس پہلو سے بھی روشناس کرایا جس کا آج کے خود غرضانہ دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔[2]
انھوں نے بتایا کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ ہی کے دنوں میں جب آغا صاحب بینک سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر کراچی پہنچے تو یہ ان سے ملنے گئے۔ وہ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور وطن واپسی و وزارت اعلیٰ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ اجازت چاہتے وقت جام صادق نے جب وہ رقم لوٹانا چاہی تو آغا صاحب گویا ہوئے ’’میں نے یہ واپس لینے کے لیے نہیں دی تھی اس لیے اپنے پاس ہی رکھو اور اگر کبھی کسی کو اپنی طرح برے وقت کی جکڑ میں پاؤ تو اس کی مدد کردینا، میں سمجھوں گا مجھے رقم واپس مل گئی۔‘‘[4]
جام صادق علی5 مارچ 1992ء کو سندھ کے وزیر اعلیٰٰ اور نامور سیاست دان جام صادق علی کراچی میں وفات پاگئے۔وہ قصبہ جام نواز علی ضلع سانگھڑ میں آسودۂ خاک ہیں۔
سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
ماقبل | وزیر اعلیٰ سندھ 1990–1992 |
مابعد |