ذاتی معلومات | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | کراچی، پاکستان | 12 جون 1957||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قد | 5 فٹ 8 انچ (173 سینٹی میٹر)[1] | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا لیگ بریک، گوگلی گیند باز | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | بلے باز | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | انورمیانداد (بھائی) فیصل اقبال (بھتیجا)[2] | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 71) | 9 اکتوبر 1976 بمقابلہ نیوزی لینڈ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 16 دسمبر 1993 بمقابلہ زمبابوے | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 15) | 11 جون 1975 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 9 مارچ 1996 بمقابلہ بھارت | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1975–1991 | حبیب بینک لمیٹڈ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1976–1979 | سسیکس | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1980–1985 | گلیمورگن | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: [1]، 23 جولائی 2010 |
محمد جاوید میانداد خان (پیدائش: 12 جون 1957ء، کراچی، پاکستان) پاکستان کے مایہ ناز اور عالمی شہرت کے حامل کرکٹ کھلاڑی ہیں جو 1975ء سے لے کر 1996ء تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلتے رہے اور پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے ٹیسٹ اور ایک روزہ میچوں کے کپتان رہے۔ جاوید میانداد ایک طویل عرصہ تک ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ اسکور بنانے والے بلے باز رہے تاہم بعد میں یہ اعزاز یونس خان کے پاس آ گیا اور وہ اس وقت پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے کا اعزاز رکھتے ہیں۔[3] جاوید میانداد کو پاکستان کی کرکٹ تاریخ کا سب سے مستند بلے باز سمجھا جاتا ہے انھوں نے اپنے کیرئیر میں 124 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ 233 ایک روزہ بین الاقوامی ایک روزہ میچز بھی کھیل چکے ہیں۔
جاوید میانداد 3 جون 1957ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ان کے والدین پالن پور، گجرات، ہندوستان سے تعلق رکھتے تھے، جہاں ان کے والد میانداد نور محمد، پولیس کے محکمے میں کام کرتے تھے اور نوکری کے دوران میں احمد آباد اور بڑودہ جیسے شہروں میں تعینات رہے جہاں ان شہروں میں کھیلوں کے کلبوں کی نگرانی ان کے ذمہ تھی شائد یہی وجہ تھی کہ ان کی فیملی کا رحجان کھیلوں کی طرف ہوا اور پھر انھوں نے اس میں سے کرکٹ کو چن لیا جاوید میانداد کے تین بھائی بھی گیند اور بلے کے اس شہرہ آفاق کھیل سے وابستہ رہے۔مگر وہ فرسٹ کلاس سے اگے نہ بڑھ سکے ان میں انور میانداد نے 141 فرسٹ کلاس میچ بشیر میانداد نے 5 اور سہیل میانداد نے 62 فرسٹ کلاس میچوں میں قسمت آزمائی کی مگر صیحیح معنوں میں جاوید میانداد ہی تھے جنھوں نے کرکٹ کے کھیل کو انتہائی عروج پر پہنچا دیا البتہ ان کے ایک بھتیجے فیصل اقبال 26 ٹیسٹ میچوں اور 18 ایکبروزہ مقابلوں میں اپنے جوہر آزمانے میں کامیاب رہے مگر اس خاندان میں میانداد جیسی قسمت اور شہرت کسی اور کا مقدر نہ بن سکی اور شائد مرد میدان کا لقب ان کے لیے ہی بنا تھا کیونکہ وہ اس پر پورے اترتے تھے درجنوں مواقع پر انھوں نے پاکستان کرکٹ کی نیا کو پار لگایا تھا۔
جاوید میانداد کا بین الاقوامی کرکٹ کیریئر تقریباً 21 برسوں پر محیط ہے اور ایک روزہ بین الاقومی میچوں میں ابھی تک کسی بھی کھلاڑی کا 20 سال اور 272 دنوں کے ساتھ سب سے طویل کیریئر ہے۔[4] ان کے اس طویل کیریئر کی ایک اور منفرد بات یہ ہے کہ ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کے عالمی کپ (آئی سی سی ورلڈ کپ) میں انھوں نے 6 دفعہ شرکت کی، 1975ء کے پہلے ورلڈ کپ سے 1996ء کے چھٹے عالمی کپ تک، دنیا کے کسی اور کھلاڑی کو یہ اپنی نوعیت کا منفرد اعزاز حاصل نہیں ہے۔
جاوید میانداد کے بین الاقوامی ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 19 سال کی عمر میں ہوا جب انھیں نیوزی لینڈ کے خلاف قذافی سٹیڈیم، لاہور میں 9 اکتوبر، 1976ء کو اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے کو ملا اور انھوں نے ان لمحات کو یادگار بناتے ہوئے اپنی پہلی ہی اننگز میں، میچ کے پہلے ہی دن، سنچری بنا کر شائقینِ کرکٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور اپنے آئندہ آنے والے یادگار کیریئر کی بنیاد رکھی۔ اس ٹیسٹ سینچری نے ان کو دو یادگار ریکارڈ بنانے کا موقع دیا، ایک تو یہ کہ وہ عباد اللہ کے بعد دوسرے پاکستانی بلے باز بن گئے جنھوں نے اپنے پہلے ٹیسٹ میں سنچری اسکور کی۔[5] دوسرے یہ کہ وہ اس وقت سب سے کم عمر ٹیسٹ سینچری بنانے والے بلے باز تھے کیونکہ اس وقت جاوید میانداد کی عمر 19 سال اور 119 دن تھی، اگرچہ اب یہ عالمی ریکارڈ ان کے پاس نہیں رہا بلکہ بنگلہ دیش کے کھلاڑی محمد اشرافل کے پاس ہے جنھوں نے 17 سال اور 61 دن کی عمر میں ٹیسٹ سینچری اسکور کی۔[6] ان کی اس پہلی ٹیسٹ سیریز کے تیسرے میچ میں جو 30 اکتوبر، 1976 کو نیشنل سٹیڈیم، کراچی میں کھیلا گیا، جاوید میانداد نے ایک اور عالمی ریکارڈ بنایا جب میچ کے دوسرے دن 31 اکتوبر کو انھوں نے ڈبل سنچری اسکور کی اور دنیائے کرکٹ کے سب سے کم عمر ڈبل سنچری اسکور کرنے والے بلے باز بن گئے۔[7] اس وقت میانداد کی عمر 19 سال اور 141 دن تھی، پہلے یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے بلے باز جارج ہیڈلی کا تھا جو انھوں نے 1930ء میں انگلینڈ کے خلاف بنایا تھا اور میانداد نے اس ریکارڈ کو 46 سال بعد توڑا دلچسپ امر یہ ہے کہ جاوید میانداد کا ہہ ریکارڈ ابھی تک محفوظ ہے اور 46 سال گذر جانے کے بعد بھی وہ دنیائے کرکٹ کے سب سے کم عمر ٹیسٹ ڈبل سنچری بنانے والے بلے باز ہیں۔ آنے والے وقت میں اس اپنی طرز کے باصلاحیت کھلاڑی نے اپنی موثر بیٹنگ سے ایک الگ تاریخ رقم کی اور ایسے انمٹ نقوش چھوڑے کہ۔تاریخ اسے دھرانے سے قاصر رہے گی اور جدید کرکٹ کا مورخ جاوید میاں داد کے تذکرے کے بغیر 150 سال سے زائد کرکٹ کی انمول تاریخ کو نامکمل لکھے گااور تادیر تک آج کی نوجوان نسلیں اس بے مثل کھلاڑی کو اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی لیکن اس کے باوجود میانداد کے مقام و منزلت کو کبھی ماپا یا ناپا نہیں جا سکے گا کیونکہ آج پاکستان کی کرکٹ جس جگہ آ گئی ہے اور بابر اعظم، محمد رضوان جیسے کھلاڑی منظرعام پر ہیں تو پھر ظہیر عباس، جاوید میانداد اور آصف اقبال جیسے عظیم ہیرو ہماری نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے خلاف اس پہلی سیریز کے تین ٹیسٹ میچوں کی پانچ اننگز میں 126.00 کی اوسط سے 504 اسکور کرنے کے بعد اگلی کچھ ٹیسٹ سیریز میں جو پاکستان سے باہر ہوئیں جاوید میانداد کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے، 1976ء میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا ایڈیلیڈ کے پہلے ٹیسٹ میں 15 اور 54 جبکہ میلبورن کے اگلے ٹیسٹ میں صرف 5 اور 10 بنائے نیز سڈنی کا تیسرا ان کی واحد اننگز 64 کے ساتھ سب کی نظروں میں آگیا لیکن بدقسمتی سے اسی سیزن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاوں ٹیسٹ میں رنز ان سے ناراض لگ رہے تھے لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ ناکامی عارضی ہے۔ اور آنے والے وقت میں رنز جاوید میانداد پر ہر طرح سے عاشق ہوں گے 1977ء میں ہی انگلستان کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا لاہور ٹیسٹ میں 71 اور دوسری اننگ میں 19 ناقابل شکست کیا کم تھے کہ حیدرآباد کے دوسرے ٹیسٹ میں میانداد نے دونوں اننگز میں 88 اور 61 رنز کا جادو جگایا یہ دونوں اننگز اس لحاظ سے بھی اہم تھیں کہ دونوں دفعہ وہ ناٹ آوٹ رہے کراچی میں آخری ٹیسٹ میں 23 بنا کر اس نے سیریز میں اچھا اختتام کیا
پاکستان کے دورہ انگلینڈ کے 1978ء میں تین میچوں میں جاوید میانداد نے 15.00 کی اوسط سے صرف 77 اسکور بنائے جس میں 39 اس کا زیادہ سے زیادہ سکور تھا اس کے بعد 1978ء میں بھارت کی کرکٹ ٹیم کے خلاف ملک کے اندر میانداد نے ایک بار پھر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دو سنچریاں اسکور کیں کراچی ٹیسٹ میں 100 اور 62 ناقابل شکست اس کے فارم میں ہونے کا باعث تھے اگلے سال اس نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ کیا تو میانداد نے دونوں ٹیموں کے خلاف سینچریاں اسکور کیں، نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں بننے والی ناقابل شکست سینچری 160 ان کے کیریئر کی پانچویں اور ملک سے باہر ان کی پہلی سینچری تھی وہ اگلے 3 ٹیسٹ 26,30,19,16 کی اننگز دکھا رہے تھے لیکن پھر پرتھ ٹیسٹ آ گیا جہاں اس نے پہلی اننگ میں 129 بغیر آوٹ ہوئے بنائے اس دوران میں اس نے کریز پر 390 منٹ قیام کو ممکن بنایا اور دوسری باری میں 19 رنز تک پہنچے 1979ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا بنگلور میں 76 اور 30 ناٹ آوٹ دہلی میں 34 ممبئی میں 16 اور 64جبکہ چنائی اور کولکتہ کے ٹیسٹوں میں 45 ، 52,کے ساتھ 50 اور 46 اس کی تسلسل کے ساتھ فارم میں ہونے کی علامت تھے اور اس سیزن میں اس نے پھر ثابت کر دیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے حالات میں ٹیم کی ضرورت کے مطانق کھیل سکتا ہے
بھارت کے دورے سے واپسی پر آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا تو کراچی میں 40 اور 21 کے بعد اس نے فیصل آباد میں ایک اور سنچری بنا ڈالی اس نے ایک بڑے سکورنگ میچ میں جہاں گریگ چیپل 235 گراہم یلپ172 اور کم ہیوز 88 کی بدولت 617 کا بڑا سکور بنایا جواب میں 2 وکٹوں پر 382 رنز ہی بنائے تھے کہ میچ کا وقت ختم ہو گیا جاوید میانداد کے 106 رنز اس میں شامل تھے مگر تسلیم عارف کے 210 رنز کی ضرور تعریف کرنی پڑے گی لاہور کے ٹیسٹ میں جاوید صرف 14 رنز ہی بنا سکے اسی سیزن میں جاوید میانداد نے ملی جلی لیکن اچھی کارکردگی کے سلسلے کو برقرار رکھا لاہور میں 6 اور 30 فیصل آباد میں 50 اور 72 سے بھی ٹیم کی خوب مدد ہوئی اور کراچی میں ایک اور نصف سنچری سامنے آئی ملتان کے ٹیسٹ میں ان کے بلے سے 57 شاہکار اننگ دیکھنے کو ملی اسی سیزن میں پاکستان نے تین ٹیسٹ میچوں کے لیے آسٹریلیا کا دورہ کیا پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں دوسری اننگ میں 85 اور برسبین کے دوسرے ٹیسٹ میں 20 اور 38 اور تیسرے ٹیسٹ میں میلبورن کے مقام اس نے 62 رنز کے ساتھ دورے کا اختتام کیا
اس سیزن کا آغاز سری لنکا کے دورہ پاکستان سے ہوا پہلا ٹیسٹ کراچی میں تھا جاوید میانداد نے دوسری اننگ میں 96 رنز بنا کر ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا پہلی اننگ میں وہ صرف 4 رنز ہی بنا پائے تھے پاکستان نے اس ٹیسٹ میں 204 رنز سے سری لنکا پر برتری حاصل کی تھی تاہم فیصل آباد ٹیسٹ میں 18 اور 36 جبکہ لاہور لے آخری معرکے میں وہ 20 تک ہی محدود رہا جولائی میں پاکستان نے انگلستان کا قصد کیا تین ٹیسٹوں میں اس کے بلے سے 54 اور 52 کی دو ہی قابل ذکر باریاں منظر عام پر آئیں لیکن اس نے اپنے مداحوں کو زیادہ انتظار نہیں کروایا اور ستمبر میں آسٹریلیا کی ٹیم کے خلاف کراچی میں 32 رنز مگر فیصل آباد کے ٹیسٹ میں صرف 6 تک ہی ان کی ہمت جواب دے گئی ان کے چاہنے والے تشویش میں مبتلا تھے اور اس کا جاوید میانداد کو بھی احساس تھا اسی لیے تو لاہور کے آخری ٹیسٹ انھوں نے ایک بڑی اننگ تلاش کر ہی لی جب ان کے کیریر کی ایک اور تیسرے ہندسے کی باری سامنے آئی آس میچ کے اصل ہیرو تو عمران خاں تھے جنھوں نے پاکستان کی 9 وکٹوں کے واضح مارجن سے فتح کی راہ ہموار کی آسٹریلیا کی ٹیم اپنی پہلی باری میں 316 رنز بنا سکی اس کے ذمہ دار عمران خان 45/4 اور جلال الدین 77/3 تھے تو دوسری پاکستانی بلے بازوں جاوید میانداد 138 اور محسن حسن خان 135 کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ تھے عمران خان نے دوسری اننگ میں 35/4 کے ساتھ آسٹریلوی بیٹسمینوں کے شکست سے بچ نکلنے کا راستہ مسدود کر دیا تھا اس کے بھارت کا اہم دورہ شروع ہوا جو اس کے لیے کئی لحاظ سے یادگار ثابت ہوا، اس سیریز کے چھ میچوں کی چھ اننگزوں میں میانداد نے 118٫80 کی اوسط سے دو سینچریوں اور ایک نصف سینچری کے ساتھ 594 اسکور بنائے جس میں ان کی حیدر آباد میں کھیلی گئی 280 اسکور کی ناقابلِ شکست اور یادگار اننگز بھی شامل تھی۔ میانداد کے کیریئر کی یہ دوسری ڈبل سینچری تھی۔ اور ان کی یہ ڈبل سنچری کئی اعتبار سے قابل دید بھی تھی اور قابل داد بھی میانداد نے اپنے کیریئر میں 6 ڈبل سینچریاں اسکور کی ہیں، جو کسی بھی پاکستانی کی سب سے زیادہ ڈبل سینچریاں ہیں جب کہ عالمی فہرست میں ڈبل سینچریوں کے لحاظ سے وہ چوتھے نمبر پر ہیں۔[8] جاوید میانداد نے لاہور کے پہلے ٹیسٹ میں واحد اننگ میں 17 کراچی کے دوسرے ٹیسٹ میں 39 اور فیصل آباد میں ایک کلاسک سنچری اپنی ٹیم کے نام کی یہ ٹیسٹ پاکستان نے دس وکٹوں سے جیت لیا تھا عمران خان نے 98/6 کے ساتھ بھارت کی ٹیم کو 372 رنز سے آگے نہیں بڑھنے دیا اور جواب میں پاکستان نے 652 رنز کا بڑا ہدف بنا کر روایتی حریف کو ششدر کر دیا ظہیر عباس 168 جاوید میانداد 126 عمران خان، 117 اور سلیم ملک 107 کے ساتھ ایک سے ایک بڑھ کر نمایاں ہوئے تھے بھارتی باولر کیپل دیو نے 7 وکٹ حاصل کیے تاہم وہ 220 رنز دے کر مہنگے ثابت ہوئے۔
سیریز کا چوتھا ٹیسٹ حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں 14 سے 19 جنوری کے درمیان میں کھیلا گیا۔ عمران خان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن 60 کے مجموعی سکور پر اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے بلوندر سنگھ ساندھو نے لگاتار گیندوں پر محسن خان اور ہارون رشید کو آؤٹ کر دیا۔ اس کے بعد ہونے والے دو واقعات انتہائی اہم ہیں، ایک تو مدثر نذر اور جاوید میانداد کے درمیان میں ہونے والی شراکت اور دوسرا عمران خان کا اننگز ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ۔ جاوید میانداد دوسرے دن کھیل کے اختتام پر 238 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔ تیسرے دن یعنی 16 جنوری کو نیاز اسٹیڈیم میں موجود شائقین اور ٹی وی پر یہ میچ دیکھنے والے انھیں ٹرپل سنچری بناتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے لیکن پاکستان کا سکور جب 3 وکٹوں پر 581 رنز ہوا تو کپتان عمران خان نے اننگز اس وقت ڈکلیئر کر دی جب جاوید میانداد 280 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے لگاتار دو گیندوں پر وکٹیں لینے کے بعد انڈیا کی ٹیم مزید کامیابیوں کے لیے ُپرجوش ہو گئی تھی لیکن جاوید میانداد اور مدثرنذر نے جس اعتماد سے کھیلنا شروع کیا اس کی وجہ سے انڈین کھلاڑیوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ پہلا دن ختم ہونے پر مدثر نذر 92 اور جاوید میانداد 96 رنز پر کھیل رہے تھے اور پاکستان کا سکور دو وکٹوں پر 224 رنز تھا۔ دوسرے دن انڈیا کھلاڑیوں کے صبر کا امتحان بڑھتا چلا گیا۔ مدثر نذر اور جاوید میانداد نے سنچریاں مکمل کیں لیکن ان کی شراکت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دونوں نے اپنی ڈبل سنچریاں بھی مکمل کر ڈالیں۔جاوید میانداد دوسرے دن کھیل کے اختتام پر 238 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔تیسرے دن یعنی 16 جنوری کو نیاز اسٹیڈیم میں موجود شائقین اور ٹی وی پر یہ میچ دیکھنے والے انھیں ٹرپل سنچری بناتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے لیکن پاکستان کا سکور جب تین وکٹوں پر 581 رنز ہوا تو کپتان عمران خان نے اننگز اس وقت ڈکلیئر کر دی جب جاوید میانداد 280 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔
ٹیسٹ پاکستان نے جیت لیا لیکن اس اننگ ڈیکلریشن نے ایک تنازع کے طور پر جنم لیا عمران خان کو اس تنازعے میں خوامخواہ گھسیٹ لیا گیا اگرچہ اس معاملے کو پاکستان کی فتح سے جوڑ کر کچھ معاملہ ٹھنڈا ہوا مگر آج بھی اس معاملہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے خود جاوید میانداد نے 2003ء میں شائع ہونے والی اپنی سوانح حیات کٹنگ ایج میں اننگز ڈکلیئر کرنے سے متعلق 13 صفحات پر مشتمل ایک پورا باب تحریر کیا جس میں میانداد لکھتے ہیں میرے ذہن میں تھا کہ میں حنیف محمد کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں ٹرپل سنچری بنانے والا دوسرا پاکستانی بنوں گا۔ میں 300 سے آگے کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔ ظاہر ہے میرے ذہن میں سرگیری سوبرز کے 365 رنز بھی تھے۔ ایسا موقع آپ کو زندگی میں بار بار نہیں ملتا۔جب دوسرے دن کھیل ختم ہوا تو عمران خان نے ڈکلیئر کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ کوئی ہدایت دی تھی یہان تک کہ جب تیسرے دن ہم نے اننگز شروع کی تو اس وقت بھی عمران خان نے ڈکلیئریشن کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا جاوید نے لکھا میں نے جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ کھیل کی ابتدا کی تھی۔ انڈیا دفاعی فیلڈ پلیسنگ کی وجہ سے باؤنڈری لگانا چیلنج تھا لیکن جب پانی کا وقفہ ہوا تو اس وقت تک میں گھنٹے بھر میں 42 رنز کا اضافہ کر چکا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ ظہیرعباس پویلین کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سے عمران خان ہمیں اشارہ کر رہے تھے میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں دکھ اور غصے کی کیفیت سے دوچار تھا۔ میانداد اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں مجھے اندازہ تھا کہ تیسرے دن بیٹنگ کر کے پاکستانی ٹیم کو اتنا وقت نہیں مل پاتا کہ وہ انڈیا ٹیم کو آؤٹ کر سکے لیکن پاکستانی ٹیم سیریز میں دو صفر کی پہلے ہی سبقت لے چکی تھی اور انڈیا ٹیم میں مقابلے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی اور اس بات کا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ وہ پانچویں اور چھٹے ٹیسٹ میں کم بیک کرسکے گی۔ میانداد کا کہنا تھا کہ عمران خان کو مجھے کم ازکم ٹرپل سنچری مکمل کرنے کا موقع ضرور دینا چاہیے تھا یا پھر وہ مجھے پہلے سے یہ بتا دیتے کہ میرے پاس کھیلنے کا کتنا وقت ہو گا؟ میانداد کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب میں پویلین کی طرف واپس جا رہا تھا تو سنیل گواسکر نے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ میں بمشکل جواب دے پایا کہ ہم نے اننگز ڈکلیئر کر دی ہے جس پر گواسکر حیرت میں پڑ گئے اور کہنے لگے اگر کوئی انڈین بیٹسمین تین سو کے قریب ہوتا تو میں کبھی اننگز ڈکلیئر نہ کرتا۔
حیدرآباد ٹیسٹ کو 39 سال بیت چکے ہیں۔ اپنی کتاب میں ڈکلیریشن کے بارے میں عمران خان پر کھل کر تنقید کرنے کے بعد جاوید میانداد اب اس معاملے میں بالکل مختلف رائے رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ قبل ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں بتایا کہ : اس وقت دونوں چیزیں صحیح تھیں۔ یا تو آپ ریکارڈ کے لیے جانے دیتے تو ہو سکتا ہے میچ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا۔ ہمارے لیے میچ جیتنا زیادہ ضروری تھا اور آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انڈیا کے خلاف جیت کیا معنی رکھتی ہے۔ جاوید میانداد کہتے ہیں انڈین ٹیم نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی تھی اور اس کے بولرز ایک اوور کرانے کے لیے پانچ سے دس منٹ لے رہے تھے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس زمانے میں دن میں 90 اوورز کی قید نہیں تھی۔
میانداد نے نیوزی لینڈ کے خلاف 1984–85 کی سیریز کے دوسرے ٹیسٹ کی ہر اننگز میں سنچریاں بنائیں۔ انھوں نے نیاز اسٹیڈیم، حیدرآباد میں 104 اور 103 ناٹ آؤٹ رنز بنائے۔ میچ کی دوسری اننگز میں انھوں نے مدثر کے ساتھ تیسری وکٹ کے لیے 212 رنز کی شراکت قائم کی جو اس وقت ایک پاکستانی ریکارڈ تھا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا 1000 میچ تھا وہ سیریز کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے، جنھوں نے 84 سے زیادہ کی اوسط سے 337 رنز بنائے؛ پاکستان نے سیریز 2-0 سے جیتی۔ میانداد نے اسی ٹیم کے خلاف اگلی سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی، جو نیوزی لینڈ میں کھیلی گئی تھی۔ وہ ان کے خلاف اپنی سابقہ فارم کو برقرار نہیں رکھ سکے اور 28 سے کم اوسط کے ساتھ صرف 138 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ 1985-86ء سری لنکا کے دورہ پاکستان کے دوران میں ٹیموں کے درمیان میں تین ٹیسٹ میچ کھیلے گئے۔ پاکستان کی کپتانی کر رہے میانداد نے اقبال اسٹیڈیم میں پہلے ٹیسٹ میں اپنی تیسری ڈبل سنچری بنائی۔ 203 ناٹ آؤٹ کی اپنی اننگز کے دوران، انھوں نے قاسم عمر کے ساتھ تیسری وکٹ کے لیے 397 رنز کی پارٹنرشپ کی، جنھوں نے اننگز میں ڈبل سنچری بھی بنائی، جو اس وقت تیسری وکٹ کے لیے مجموعی طور پر آٹھویں اور دوسری سب سے بڑی شراکت تھی۔ میانداد کا تین اننگز میں 306 رنز سیریز میں کسی بھی بلے باز کا سب سے زیادہ سکور تھا اور اسکور کے لیے ان کی اوسط 153.00 تھی۔اسی سیزن میں پاکستان نے سری لنکا کا دورہ کیا اور ان کے خلاف 3 ٹیسٹ کھیلے۔ دوسرے ٹیسٹ کے دوران، دو ناخوشگوار واقعات پیش آئے: جب ایک امپائر نے زمین پر پرانی گیند کی جگہ نئی گیند کو رگڑنا شروع کر دیا، پاکستان کی دوسری اننگز کے دوران میں سولہ اوورز کے بعد اسی طرح کی خصوصیات حاصل کرنے کے لیے؛ پاکستانی منیجر امپائر کے پاس آئے اور انھیں 1985ء کا وزڈن کا متعلقہ قانون دکھایا۔ اور میانداد کا امپائر کے خلاف ایل بی ڈبلیو کے فیصلے سے اختلاف۔ بعد میں ہجوم میں سے کسی نے میانداد پر پتھر پھینکا اور وہ تماشائی سے بدلہ لینے کے لیے ہجوم میں گھس گئے۔
1992ء میں پاکستان کے دورہ انگلینڈ کے دوران میں انھوں نے ایجبسٹن، برمنگہم میں پہلے ٹیسٹ میں ناٹ آؤٹ 153 رنز بنائے۔ اس کے بعد سے ریٹائرمنٹ تک انھوں نے 11 ٹیسٹ میں 32.11 کی اوسط سے بغیر کوئی سنچری بنائے 578 رنز بنائے۔ اس دوران میں انھوں نے صرف چار نصف سنچریاں بنائیں میانداد نے 124 ٹیسٹ میچز میں مجموعی طور پر 8,832 ٹیسٹ رنز بنائے جو اس وقت ایک قومی ریکارڈ تھا جب تک کہ یونس خان نے اسے 2015ی میں نہیں توڑا تھا۔ انضمام الحق بھی صرف 4 رنز کی کمی سے اس ریکارڈ کو توڑنے کے قریب پہنچے تھے۔ اگرچہ ان کا ٹیسٹ کیریئر 17 سال پر محیط تھا، لیکن وہ 10,000 سے زیادہ رنز کے ٹیسٹ مجموعی کے ساتھ بلے بازوں کے سب سے بڑے زمرے میں جگہ بنانے میں ناکام رہے۔ میانداد کی 23 سنچریاں اور 43 نصف سنچریاں پاکستانی قومی ریکارڈ تھے، جب تک کہ انضمام الحق نے ان کو توڑ نہیں دیا۔ میانداد کے ٹیسٹ کیریئر کی بیٹنگ اوسط 52.57 پاکستانی بلے بازوں کے لیے اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ انھوں نے چھ ڈبل سنچریاں اسکور کیں جو کسی پاکستانی کی جانب سے سب سے زیادہ اور مجموعی طور پر چھٹے نمبر پر سنچریاں ہیں۔ وہ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے بلے باز بن گئے جنھوں نے اپنے پہلے اور 100ویں ٹیسٹ (بالترتیب نیوزی لینڈ اور بھارت کے خلاف) دونوں میں سنچری بنائی۔
میانداد ان چند افراد میں سے ایک ہیں وقار یونس اور رچرڈ پائبس کے ساتھ جنھوں نے تین یا زیادہ الگ الگ مواقع پر پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی ہے۔ وہ پہلی بار ستمبر 1998ء میں کوچ مقرر ہوئے تھے۔ ان کے دور حکومت میں پاکستان نے بھارت کو اس کے ملک میں شکست دی تھی جبکہ ایک بار ٹیسٹ سیریز میں جو 1-1 سے ختم ہوئی تھی اور ایک بار ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ میں پاکستان کا۔پلڑا بھاری رہا علاوہ ازیں سہ فریقی سیریز جیتی تھی، ایشین ٹیسٹ جیتا۔ چیمپئن شپ اور اپریل میں 1999ی کا شارجہ کپ جیتا۔ عجیب بات ہے کہ میانداد نے 1999ء کے کرکٹ ورلڈ کپ سے عین قبل اپریل 1999ء کے آخر میں پی سی بی کو اپنا استعفا فیکس کیا۔ ان کے پہلے استعفا کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ بہت سے لوگوں نے ممکنہ وجہ کے طور پر رچرڈ پائبس (ٹیکنیکل کوچ) اور سرفراز نواز (بولنگ کوچ) کی خدمات حاصل کرنے کا حوالہ دیا۔ دوسروں نے سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ناقابل برداشت رویہ کا الزام عائد دیا۔ 2000ء میں معین خان نے سعید انور سے کپتانی سنبھالنے کے بعد میانداد کو دوبارہ کوچ مقرر کیا تھا۔ ان کے دوسرے دور حکومت میں، پاکستان نے شارجہ کپ (مارچ 2000)، ایشیا کپ (مئی/جون 2000ء)، ویسٹ انڈیز کی سہ فریقی سیریز اور سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز جیتیں۔ پاکستان ان کے دور میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں ہار گیا تھا۔ میانداد کو اپریل 2001ء میں نیوزی لینڈ میں ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد معین خان کے ساتھ ہٹا دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے کی ٹیسٹ سیریز کے دوران میچ فکسنگ کی بھی اطلاعات تھیں جو پاکستان نے تیسرا میچ ہارنے کے بعد ڈرا کر دیا 2003ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کے مایوس کن مظاہرہ کے بعد، پی سی بی نے ایک اور کلین اپ آپریشن شروع کیا، مارچ 2003ء میں راشد لطیف کو کپتان اور جاوید میانداد کو ٹیم کا کوچ نامزد کیا۔ اس دور حکومت میں میانداد نے انضمام اور یوسف جیسے بڑے ناموں سے محروم پاکستان کو شارجہ کپ (اپریل 2003) جتوایا تھا۔ پاکستان نے ون ڈے سیریز میں 3-2 سے شکست کے بعد جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ پاکستان 2004ء میں بھارت سے ہوم ون ڈے سیریز ہار گیا تھا اور ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد، میانداد کو جون 2004ء میں ھٹا کر ان کی جگہ جنوبی افریقہ کے باب وولمر نے لے لی تھی۔ اس کے بعد انھیں بھارت میں براڈکاسٹنگ اور کوچنگ کے عہدوں کی پیشکش کی گئی۔ نومبر 2010ء میں بھی میانداد کو بیٹنگ کوچ کے طور پر ایک کردار دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔ اور میانداد کو سری لنکا میں 2012ء کے ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے دوبارہ بیٹنگ کنسلٹنٹ کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
سنہ 1981ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم پرتھ میں پہلا ٹیسٹ کھیل رہی تھی۔ جاوید میانداد بیٹنگ کر رہے تھے، انھوں نے لیگ سائیڈ شاٹ کھیل کر ایک رن لیا لیکن جب وہ بولر اینڈ کی طرف آ رہے تھے تو ڈینس للی ان کے راستے میں آ گئے اور انھیں کندھا مارتے ہوئے رن مکمل کرنے سے روکنے کی کوشش کی جس پر کمنٹیٹر نے بھی اس حرکت کو ’بیوقوفی‘ کہا لیکن بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی جب ڈینس للی نے میانداد کی طرف بڑھتے ہوئے انھیں لات مار دی جس پر میانداد نے بھی انھیں دھمکانے کی غرض سے اپنا بیٹ اوپر اٹھا لیا۔ اس دوران میں کپتان گریگ چیپل بھی وہاں آ گئے اور وہ بھی ڈینس للی کی اس حرکت پر خوش نہیں تھے۔ اس میچ کے کمنٹیٹرز بھی للی کی اس حرکت کو شرمناک قرار دے دیا اور کہا کہ یہ معاملہ ڈینس للی نے شروع کیا تھا۔ اس واقعے کے فوراً بعد جاوید میانداد نے آسٹریلوی ٹی وی پر اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ جب وہ رن لے کر بولر اینڈ کی طرف جا رہے تھے تو ڈینس للی نے ان سے نامناسب زبان استعمال کی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ فیلڈر کی تھرو وکٹ کیپر راڈنی مارش کے ہاتھوں میں آئی تھی اور وہ میرے اینڈ کی طرف تھرو کر کے مجھے رن آؤٹ کر سکتے تھے لہٰذا انھوں نے ڈینس للی کو دھکا دے کر راستے سے ہٹانے کی کوشش کی تاکہ وہ کریز میں پہنچ جائیں۔ جاوید میانداد کا کہنا تھا کہ للی نے نہ صرف انھیں لات ماری بلکہ وہ امپائر ٹونی کرافٹر کی جانب سے بیچ بچاؤ کروانے کے باوجود انھیں گالیاں دیتے رہے تھے۔ ڈینس للی نے اس واقعے کی ذمہ داری اپنے اوپر لینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا تصویر کے دونوں رُخ دیکھنے چاہئیں۔ میانداد کو لات مارنے کے بارے میں للی کا کہنا تھا کہ جب آپ کے ساتھ کوئی کچھ کرتا ہے تو پھر آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ بھی اس کا جواب دیں حالانکہ یہ حرکت صحیح نہیں تھی۔اس واقعے پر آسٹریلوی ٹیم کے مینیجر جان ایڈورڈز نے ڈینس للی پر دو سو آسٹریلوی ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا تھا تاہم اپنے ٹی وی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کو متعدد بار سلو موشن دیکھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی ابتدا جاوید میانداد نے ڈینس للی کو دھکا دے کر کی تھی۔ جان ایڈورڈز نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جاوید میانداد نے تین سال قبل میلبرن ٹیسٹ میں بھی راڈنی ہاگ کو غلط طریقے سے رن آؤٹ کیا تھا۔
جاوید میانداد نے 1981ء میں خالد سہگل اور فریدہ حیات کی بیٹی طاہرہ سہگل سے شادی کی۔ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کے بیٹے جنید میانداد کی شادی ماہ رخ ابراہیم سے ہوئی، جو داؤد ابراہیم کی بیٹی ہے، جنہیں بھارتی حکومت ایک مافیا گینگ ہونے کا الزام دہتی ہے جسے انھوں نے ہمیشہ رد کرتے ہیں، میانداد نے پریس کو بتایا کہ ان کے بیٹے اور ابراہیم کی بیٹی کی ملاقات برطانیہ میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں ہوئی تھی۔ 2011ء میں، میانداد نے جیو ٹی وی کے لیے نعت ریکارڈ کی۔ ان کے مداحوں کی طرف سے ان کے "سکون پیا" کو خوب پزیرائی ملی لیکن اس کے بعد انھوں نے مزید نعت نہیں پڑھی۔
جاوید میانداد پاکستان کے ایک عظیم بلے باز ہیں۔ پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان اور بااثر ایڈمنسٹریٹر عبد الحفیظ کاردار کے ذہن میں کوئی شک نہیں تھا، جب انھوں نے پہلی بار 70ء کی دہائی کے اوائل میں ایک نوجوان کے طور پر ان پر نگاہ ڈالی اور میانداد کی "دہائی کی تلاش" کی مشہور پیش گوئی کی تھی۔ وہ غلط نہیں تھے، جیسا کہ 1976ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار ڈیبیو سیریز نے ثابت کر دیا تھا میانداد کلاسیکی بیٹنگ کے اسکول سے نہیں تھا، حالانکہ اس کے پاس ایک خوبصورت مربع کٹ تھا اور کتاب کے اندر اور باہر زیادہ تر شاٹس تھے: وہ ابتدائی طور پر ایک اچھا ریورس سویپر تھا۔ لیکن اس نے زاویوں اور خالی جگہوں کو یکساں طور پر اچھی طرح سے کام کیا۔ وہ سب سے بڑھ کر جانتا تھا کہ تقریباً کسی بھی صورت حال میں رنز کیسے بنانا ہے۔ ان خوبیوں نے اپنے پورے کیرئیر میں خود کو منفرد انداز میں پیش کیا، ایک بار بھی ان کے کیریئر کی اوسط پچاس سے نیچے نہیں آئی۔ کسی پاکستانی نے ان سے زیادہ ٹیسٹ رنز نہیں بنائے اور انضمام الحق کو چھوڑ کر، شاید کوئی بلے باز پاکستان کے لیے اتنے میچ نہیں جیت سکا۔
وہ پاکستان کے سب سے کم عمر کپتان بھی تھے اور ہمیشہ حکمت عملی سے سب سے زیادہ ہوشیار سمجھے جاتے تھے۔ عمران خان اکثر میدان میں اہم فیصلوں کے ساتھ میانداد کے نائب کپتان کے طور پر ادا کیے گئے کردار کو تسلیم کرتے ہیں، حالانکہ دونوں ایک دوسرے کے پنیر کو چاک کر رہے تھے۔ لیکن بحیثیت کپتان ممکنہ طور پر وہ اپنے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے بہت زیادہ کھرچنے والا تھا، جیسا کہ کم از کم دو کھلاڑی ان کی قیادت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔ اور عمران کی قیادت کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے، انھوں نے کبھی اتنے ٹیسٹوں میں کپتانی نہیں کی جتنی انھوں نے کی ہوگی۔ جیسا کہ سب سے زیادہ برصغیر کے عظیم لوگوں کے ساتھ، وہ ممکنہ طور پر مشورہ سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے، آخر کار 1996ء میں ورلڈ کپ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد ہار گئے۔
کپتانی کے مسائل اس وقت دوبارہ سامنے آئے جب وہ پاکستان کے کوچ بنے جہاں ان کے اتار چڑھاؤ تھے۔ نتائج زیادہ تر مثبت تھے لیکن کھلاڑیوں کی طرف سے اس کے ضرورت سے زیادہ ہینڈ آن اپروچ کے بارے میں مسلسل جھگڑا اتنا اچھا نہیں تھا۔ انچارج کے تین ادوار کے بعد، انھوں نے 2004ء میں ٹیم سے علیحدگی اختیار کر لی تاکہ باب وولمر کو بھارت کے خلاف ایک روزہ اور ٹیسٹ میں شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔ اکتوبر 2008ء میں، میانداد نے دوبارہ پاکستان کا کوچ بننے کی پیشکش کو مسترد کر دیا، لیکن جلد ہی انھیں پی سی بی کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کر دیا گیا، جو ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ اثر و رسوخ کا حامل ہے۔ اس اقدام کو بہت سے پاکستانیوں نے سراہا لیکن یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا - میانداد نے جنوری 2009ء میں اپنے کردار کے صحیح دائرہ کار پر بورڈ کے ساتھ اختلافات کے بعد ملازمت چھوڑ دی۔
جاوید میانداد ذہین، شرارتی اور باتونی کرکٹ کھلاڑی تھے جو چھیڑ چھاڑ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
اسکور | منٹ | گیند | چوکے | چھکے | بمقابلہ | مقام | تاریخ |
---|---|---|---|---|---|---|---|
206 | 410 | 29 | 2 | نیوزی لینڈ | کراچی | 31 اکتوبر 1976ء | |
280* | 696 | 460 | 19 | 1 | بھارت | حیدر آباد، سندھ | 15 جنوری 1983ء |
203* | 1 | سری لنکا | فیصل آباد | 21 اکتوبر 1985ء | |||
260 | 617 | 521 | 28 | 1 | انگلینڈ | اوول (کرکٹ میدان) | 7 اگست 1987ء |
211 | 636 | 441 | 29 | 1 | آسٹریلیا | کراچی | 16 ستمبر 1988ء |
271 | 558 | 465 | 28 | 5 | نیوزی لینڈ | آکلینڈ | 25 فروری 1989ء |
شمار | اسکور | مخالف | پوزیشن | اننگ | ٹیسٹ | مقام | گ/ب/غ | تاریخ | نتیجہ | حوالہ |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | 163 | نیوزی لینڈ | 5 | 1 | 1/3 | قذافی اسٹیڈیم، لاہور | گھر | 9 اکتوبر 1976 | جیتا | [9] |
2 | 206 | نیوزی لینڈ | 4 | 1 | 3/3 | نیشنل اسٹیڈیم، کراچی، کراچی | گھر | 30 اکتوبر 1976 | ڈرا | [10] |
3 | 154* | بھارت | 5 | 1 | 1/3 | اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد | گھر | 16 اکتوبر 1978 | ڈرا | [11] |
4 | 100 | بھارت | 6 | 2 | 3/3 | نیشنل اسٹیڈیم، کراچی، کراچی | گھر | 14 نومبر 1978 | جیتا | [12] |
5 | 160* † | نیوزی لینڈ | 4 | 3 | 1/3 | لنکاسٹر پارک، کرائسٹ چرچ | باہر | 2 فروری 1979 | جیتا | [13] |
6 | 129* | آسٹریلیا | 4 | 1 | 2/2 | مغربی آسٹریلیا کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ، پرتھ | باہر | 24 مارچ 1979 | ہارا | [14] |
7 | 106* | آسٹریلیا | 4 | 2 | 2/3 | اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد | گھر | 6 مارچ 1980 | ڈرا | [15] |
8 | 138 | آسٹریلیا | 5 | 2 | 3/3 | قذافی اسٹیڈیم، لاہور | گھر | 14 اکتوبر 1982 | جیتا | [16] |
9 | 126 | بھارت | 4 | 2 | 3/5 | اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد | گھر | 3 جنوری 1983 | جیتا | [17] |
10 | 280* † | بھارت | 4 | 1 | 4/5 | نیاز اسٹیڈیم، حیدرآباد، سندھ | گھر | 14 جنوری 1983 | جیتا | [18] |
11 | 131 | آسٹریلیا | 4 | 2 | 3/5 | ایڈیلیڈ اوول، ایڈیلیڈ | باہر | 9 دسمبر 1983 | ڈرا | [19] |
12 | 104 † | نیوزی لینڈ | 4 | 2 | 2/3 | نیاز اسٹیڈیم، حیدرآباد، سندھ | گھر | 25 نومبر 1984 | جیتا | [20] |
13 | 103* † | نیوزی لینڈ | 4 | 4 | 2/3 | نیاز اسٹیڈیم، حیدرآباد، سندھ | گھر | 25 نومبر 1984 | جیتا | [20] |
14 | 203* ‡ | سری لنکا | 4 | 2 | 1/3 | اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد | گھر | 16 اکتوبر 1985 | ڈرا | [21] |
15 | 260 † | انگلینڈ | 4 | 1 | 5/5 | اوول (کرکٹ میدان)، لندن | باہر | 6 اگست 1987 | ڈرا | [22] |
16 | 114 | ویسٹ انڈیز | 4 | 2 | 1/3 | بؤردا، جارج ٹاؤن، گیانا | باہر | 2 اپریل 1988 | جیتا | [23] |
17 | 102 | ویسٹ انڈیز | 4 | 4 | 2/3 | کوئنز پارک اوول، پورٹ آف اسپین | باہر | 14 اپریل 1988 | ڈرا | [24] |
18 | 211 † ‡ | آسٹریلیا | 4 | 1 | 1/3 | نیشنل اسٹیڈیم، کراچی، کراچی | گھر | 15 ستمبر 1988 | جیتا | [25] |
19 | 107 ‡ | آسٹریلیا | 4 | 3 | 2/3 | اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد | گھر | 23 ستمبر 1988 | ڈرا | [26] |
20 | 118 | نیوزی لینڈ | 4 | 2 | 2/3 | بیسن ریزرو، ویلنگٹن | باہر | 10 فروری 1989 | ڈرا | [27] |
21 | 271 † | نیوزی لینڈ | 4 | 1 | 3/3 | ایڈن پارک، آکلینڈ | باہر | 24 فروری 1989 | ڈرا | [28] |
22 | 145 | بھارت | 4 | 2 | 3/4 | قذافی اسٹیڈیم، لاہور | گھر | 1 دسمبر 1989 | ڈرا | [29] |
23 | 153* ‡ | انگلینڈ | 4 | 1 | 1/5 | ایجبیسٹن کرکٹ گراؤنڈ، برمنگہم | باہر | 4 جون 1992 | جیتا | [30] |
نمبر۔ | سکور | گیند | بمقابلہ | پوزیشن۔ | اننگز۔ | نمایاں شرح | بمقام | اندرون یا بیرون ملک | تاریخ | نتیجہ | حوالہ |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | 106 † | 106 | بھارت | 4 | 1 | 100.00 | میونسپل اسٹیڈیم، گوجرانوالہ | ملک میں | 3 دسمبر 1982 | جیتا | [31] |
2 | 119* † | 77 | بھارت | 4 | 1 | 154.54 | قذافی سٹیڈیم، لاہور | ملک میں | 31 دسمبر 1982 | ہارا | [32] |
3 | 116* † | 114 | بھارت | 4 | 2 | 101.75 | شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم، شارجہ | غیر جانبدار | 18 اپریل 1986 | جیتا | [33] |
4 | 113 | 145 | انگلینڈ | 4 | 1 | 77.93 | اوول (کرکٹ میدان)، لندن | بیرون ملک | 21 مئی 1987 | ہارا | [34] |
5 | 103 † | 100 | سری لنکا | 4 | 1 | 103.00 | نیاز سٹیڈیم، حیدرآباد | ملک میں | 8 اکتوبر 1987 | جیتا | [35] |
6 | 100 † | 99 | ویسٹ انڈیز | 4 | 1 | 101.01 | بؤردا، جارج ٹاؤن | غیر جانبدار | 30 مارچ 1988 | ہارا | [36] |
7 | 115* † | 119 | سری لنکا | 3 | 1 | 111.65 | نیاز سٹیڈیم، حیدرآباد | ملک میں | 15 جنوری 1992 | جیتا | [37] |
8 | 107 † | 144 | جنوبی افریقا | 4 | 1 | 74.30 | بفیلو پارک، ایسٹ لندن، مشرقی کیپ | بیرون ملک | 13 فروری 1993 | جیتا | [38] |
جاوید میانداد نے 124 ٹیسٹ میچوں کی 189 اننگز میں 21 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 8832 رنز سکور کیے۔ 52.57 رنز کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 280 ناٹ آئوٹ ان کی کسی ایک اننگ کا انفرادی سکور تھا۔ 23 سنچریاں اور 43 نصف سنچریاں ان کے اس مجموعے کی زینت تھیں۔ 93 کیچ اور ایک سٹمپ بھی ان کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ پاکستان کے اس عظیم بیٹسمین نے 233 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی 218 اننگز میں 41 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 7381 رنز 41.70 کی اوسط سے اپنے نام کیے۔ 119 ناقابل شکست رنز ان کی کسی ایک اننگ کا بہترین سکور قرار پایا۔ 8 سنچریاں اور 50 نصف سنچریاں بھی سکور کرکے انھوں نے خود کو ایک بڑا کھلاڑی ثابت کرنے کی سعی کی۔ 71 کیچ اور 2 سٹمپ ان کی چابکدستی ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔ اسی طرح 402 فرسٹ کلاس میچوں کی 632 اننگز میں 95 مرتبہ بغیر آئوٹ ہوئے انھوں نے 28663 رنز کا بڑا سکور بنایا۔ 53.37 کی اوسط سے بنائے جانے والے ان رنزوں میں 311 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 80 سنچریاں اور 139 نصف سنچریاں ان کے فرسٹ کلاس کیریئر کا نمایاں حصہ تھیں۔ 144 کیچز اور دو سٹمپ کے ذریعے انھوں نے فیلڈ میں اپنے ہونے کا ثبوت دیا۔ جاوید میانداد نے بولنگ کے شعبے میں بھی اپنے جوہر آزمائے۔ 124 میچوں میں 683 رنز دے کر 17 ٹیسٹ وکٹیں 40.11 کی اوسط سے اپنے قبضے میں کی تھیں۔ 3/74 ان کی کسی ایک اننگ میں بہترین جبکہ 94/5 ان کی کسی ایک میچ میں بہترین بولنگ پرفارمنس تھی۔ انھوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 297 رنز دے کر 7 وکٹوں کا حصول ممکن بنا لیا تھا۔ 22/2 ان کی بہترین بولنگ پرفارمنس تھی اور انھیں 42.42 فی وکٹ اوسط حاصل ہوئی تھی۔ جاوید میانداد نے 6507 رنز دے کر 191 فرسٹ کلاس وکٹیں اپنے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔ 34.6 کی اوسط سے حاصل کردہ ان وکٹوں میں 39/7 ان کی کسی ایک اننگ کی بہترین بولنگ تھی۔ جاوید میانداد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے کم عمر کپتان کی حیثیت سے جب ان کی عمر 22 سال 260 دن تھی کراچی میں آسٹریلیا کے خلاف 1980ء میں کپتان کی حیثیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی شروع کی تھی۔ پاکستان کی طرف سے یہ سب سے کم عمر کپتان ہونے کا اعزاز ہے۔ افغانستان کے راشد خان اس لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں کہ انھوں نے 20 سال 350 دن کی عمر میں بنگلہ دیش کے خلاف بطور کپتان ٹیم کی قیادت کی تھی۔ میانداد اس فہرست میں 8 ویں نمبر پر ہیں۔ جاوید میانداد کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ انھوں نے چوتھے نمبر پر کھیلتے ہوئے 280 رنز ناقابل شکست رہ کر بنائے۔ بھارت کے خلاف حیدرآباد سندھ میں بنائے جانے والے یہ رنز اس لیے بھی اہیمت کے حامل ہیں کہ جاوید میانداد کو کسی ایک اننگ میں ساتویں پوزیشن حاصل ہے۔ اس کے علاوہ جاوید میانداد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے ٹیسٹ کیریئر کے آغاز میں 163 رنز کی اننگ کھیلی تھی جب انھیں نیوزی لینڈ کے خلاف 1976ء میں لاہور کے مقام پر کرکٹ ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی اعزاز جاوید میانداد کی کرکٹ کیریئر کا حصہ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح جاوید میانداد نے جانفشانی اور متانت سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کو آگے بڑھایا۔