اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے لیے اسماعیلی جماعت خانہ ایک اجتماعی عبادت گاہ ہے۔ اسماعیلیوں کا تعلق اسلام کی شیعہ شاخ سے ہے۔
مختلف مجالس کے عنوانات سے اور جدا جدا مواقع پر اسماعیلی جماعت خانوں کے اندر جماعت سے پیسے لیے جاتے ہیں، اس بارے میں اسماعیلیوں کاعقائد و نظریات کے بارے میں دلیل پیش کرتے ہوئے اسماعیلی سکالر نصیر الدین نصیر ہنزائی آپنی کتاب ٫آٹھ سوالاتے کے جوابات، میں لکھتاہے۔کہ جماعت خانہ ہو یا کہ مسجداسمیں دنیاوی قسم کی تجارت وغیرہ جائز نہیں، مگر زکوٰة، صدقہ اور ہر قسم کی مالی قربانی کے علاوہ اور بھی بہت سے نیک کام ایسے ہیں جن کو خدا ہی کے گھر میں انجام دینے میں زیادہ ثواب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: وَاِذجَعَلنَا البَیتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمناً (2: 125
اے رسولﷺ) وہ وقت بھی یاد دلاﺅجب ہم نے خانۂ کعبہ لوگوں کے ثواب اور پناہ کی جگہ قرار دی۔ اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ خدا کا گھر مثابہ ہے یعنی ہر قسم کے ثواب کی جگہ اور خدا کا گھر سب سے پہلے خانۂ کعبہ ہے اور اس کے بعد مسجد اور جماعت خانہ خدا کا گھر ہے، پھر جب ثواب کا مرکز خدا ہی کا گھر ہے توبہت سے نیک کام وہاں کیوں نہ انجام دیے جائیں۔ جبکہ یہ کام خدا ہی کے ہیں، تو خدا ہی کے گھر میں ہونے چاہئیں، جبکہ یہ عبادات میں سے ہیں، جبکہ یہ مالی قربانیاں اور اعمالِ صالحہ ہیں، تو یہ خدا کے گھر میں سب کے سامنے کیوں نہ ہوں تا کہ نیکی کرنے والے کو سب کی دعائیں حاصل ہوں، ساتھ ہی ساتھ یہ ایک عملی تعلیم بھی ہے تاکہ جماعت کے افراد اسے دیکھ کر اپنے اندر ایسی مالی قربانیوں کا جذبہ پیدا کرسکیں اور یہی سبب ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عہدِ مبارک میں اکثر مالی قربانیاں مسجد ہی میں لی جاتی تھیں۔
اس حوالے سے اسماعیلی سکالر نصیر الدین نصیر ہنزائی نے آپنی کتاب آٹھ سوالوں کے جواب میں درجہ زیل وضاحت لکھاہے۔
(الف) : اسلام صراطِ مستقیم ہے یعنی راہِ راست، جو اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لیے مقرر ہے، جب دینِ حق اس مثال میں ایک راستے کے مشابہ ہے تو اس کی کچھ منزلیں بھی ہیں، جو شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کہلاتی ہیں، چنانچہ جماعت خانہ اور اس کے آداب و رسومات اسی راہِ اسلام پر چل کر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی ایک زندہ مثال ہیں جس طرح کہ تصوف اسلام کے ارتقا کا ایک بین ثبوت ہے اور ظاہر ہے کہ صوفیوں کے مسلک میں ہزاروں ایسی چیزیں ہیں جو شریعت میں نہیں ہیں اور وہ چیزیں شریعت میں کیونکرہوسکتی ہیں، جبکہ وہ طریقت کی چیزیں ہیں، اسی طرح جماعت خانہ کی چیزیں یعنی وہاں کے آداب و رسومات حقیقت کی ہیں، لہٰذا ان کو کسی اور معیار سے پرکھنا سراسر غلطی اور لا علمی کا ثبوت ہے۔
(ب) : نیز یہ کہ اگر مقامِ شریعت پر عورت شرعی نماز مردوں کو نہیں پڑھا سکتی ہے، تو اس کی وجہ ظاہر میں کچھ بھی نہیں سوائے اس کی تاویل کے، اس کے برعکس جماعت خانہ میں جو عبادت و بندگی ادا کی جاتی ہے، اس کی کوئی تاویل نہیں بلکہ وہ خود تاویل ہے، لہٰذا یہاں عورت دُعا پڑھا سکتی ہے۔
اگر پوچھا جائے کہ عورت کی امامت شرعی نماز میں جائز نہ ہونے کی کیا تاویل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دین میں حضرت پیغمبرﷺ مرد کے درجے پر ہیں اور تمام افرادِ امت عورت کے مقام پر ہیں، نیز امامِ عالی مقامؑ مرد ہیں اور مرید سب کے سب عورت ہیں، اسی طرح معلم مرد اور متعلم عورت ہے، پس اگر کوئی عورت نمازِ شریعت میں پیشوائی کرے تو اس کی تاویل یہ بتلانے لگے گی کہ (نعوذباللہ) رسولﷺ امت ہوکر پیچھے آئیں اور امت پیغمبر بن کر آگے بڑھیں، امامؑ مریدی اختیار کریں اور مرید امام بن جائیں نیز معلم شاگرد بن کر رہے اور شاگرد اپنے استاد کے لیے استادی کرے، سو یہ تاویل ناممکن بات کی ترجمانی کرتی ہے، اسی لیے نمازِ شرعی میں مردوں کی امامت عورت نہیں کرسکتی ہے۔ مگر مقامِ حقیقت میں ایسی کوئی تاویل نہیں۔
(ج) : اسلام دراصل نام ہے قرآن اور معلمِ قرا ٓن کی تعلیمات و ہدایات کا اور اِن تعلیمات و ہدایات کے مختلف مدارج کو عملاً طے کرنا صراطِ مستقیم پر چلنا اور منزل بمنزل آگے بڑھنا ہے، پھر اِسی معنی میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام اپنے مراتبِ علم و عمل کے اعتبار سے ایک ایسی یونیورسٹی کی طرح ہے، جس کے تحت تعلیم کے بہت سے مدارج آتے ہوں، اب اِس مثال سے ظاہر ہے کہ دینِ اسلام کے اِن تمام علمی اور عملی درجات کے لیے الگ الگ معیار مقرر ہیں، اِسی لیے میں کہتا ہوں کہ اسماعیلیت کی رسومات کو غیر اسماعیلیت کی کسوٹی پر پرکھنا ہرگز درست نہیں ہو سکتا۔
(د) : اگر اسلام صراطِ مستقیم ہے تو ماننا ہی پڑے گا کہ مسلم فرقے یا جماعتیں یکے بعد دیگرے اس طرح سے ہیں، جیسے کسی رستے کی مختلف منزلوں پر پھیلے ہُوئے مسافر، اگر دینِ حق اللہ تعالیٰ کی رسی ہے اور وہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان میں واقع ہے، تو اس میں بھی ان کو درجہ وار اور سلسلہ وار پکڑنے کی جگہ ہے، جہاں خدا کی معرفت کی بلندیوں کی طرف عروج کر جانے کی مثال سیڑھیوں سے دی گئی ہے، (70: 3 تا 4) وہاں اہلِ مذاہب الگ الگ زینوں پر ہیں، جس اعتبار سے دینِ مبین ایک عظیم یونیورسٹی کی طرح ہے، اُس اعتبار سے اس کے ماننے والے علم و عمل کے مختلف درجات پر ہیں اور جس وجہ سے دین فطرت کی تشبیہ انسانی تخلیق اور زندگی کے مختلف مراحل سے دی گئی ہے، اسی وجہ سے لوگ ایسے درجہ وار ہیں، جیسے انسانی خلقت اور عمر کے جدا جدا مراحل ہوا کرتے ہیں، یعنی کچھ لوگ اس بچے کی طرح ہیں جو ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، کچھ نومولود بچے کی طرح، کچھ طفلِ شیر خوار کے مانند، بعض طفلِ مکتب جیسے، بعضے نوجوان کی طرح، کچھ تیس سال کے مکمل جوان کی طرح، کچھ چالیس سال والے کی طرح اور کچھ اس سے بھی بڑی عمر والے کی طرح اور یہ مثال اس لیے ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور اسے ایک انسان کی طرح رفتہ رفتہ درجۂ کمال کو پہنچنا ہے اور ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہُوا کہ اسلام کی تعلیمات درجہ وار ہیں اور اس کی ہدایات بھی تدریجی صورت میں ہیں، پس کسی کا کسی پر اعتراض کرنا اسلامی تعلیمات کے مدارج سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے۔
نزاری اسماعیلی جماعت خانے میں جب کبھی کوئی دُوسرا مسلم بھائی یا غیر مسلم داخل ہوتاہے تو اس کواجازت نہیں دیاجاتاہے۔اس مسئلہ پر دیگر لوگوں کو مختلف شک وشہبات رہتا ہیں کہ اگر جماعت خانہ عبادت خانہ ہے تو وہان جانے پر دوسروں کے لیے پاوپندی کیون ہے۔اس حوالے سے نصیر الدین نصیر ہنزائی نے آپنی کتاب ( آٹھ سوالات کے جوابات) پر مندرجہ زیل وضاحت لکھتاہے ۔
(الف) ایسا کوئی بھائی جب آئے تو کیاوہ جماعت خانہ میں آنے کے تمام شرائط اور آداب و رسومات کو بالکل اسی طرح قبول کرے گا جس طرح کہ ایک اسماعیلی کرتا ہے؟اور اگر یہ بات نہیں ہو سکتی ہے، تو اس کے جماعت خانہ آنے میں کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا اس کا نہ آنا ہی بہتر ہے۔
(ب) : دینِ اسلام میں کچھ مقدس عمارتیں سب مسلمانوں کے درمیان مشترک ہیں اور کچھ عمارتیں مخصوص ہیں، جو مقاماتِ مقدسہ مشترک ہیں، اُن میں سب سے پہلے خانۂ کعبہ ہے، پھر مسجد ہے کیونکہ وہ اُس وقت سے ہے جس میں کہ سب مسلمان ایک تھے، تاہم بعض جگہوں میں مسجدیں بھی الگ الگ جماعتوں کے لیے یا جدا جدا نظریات کی بنا پر مخصوص ہوجاتی ہیں، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ سختی کے ساتھ خانقاہ، امام باڑہ اور جماعت خانہ مخصوص ہیں، جن کی حرمت صرف وہی لوگ بجا لاسکتے ہیں جو بنیادی طور پر عقیدةً ان سے منسلک ہیں اور دوسرے کسی کی ان میں کوئی شرکت نہیں۔
(ج) : مسجد کے معنی ہیں جائے سجدہ، محلِ عبادت اس لیے یہ لفظ گویا سب مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہاں جائیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے سر جھکائیں اور عبادت کریں، مگر لفظِ جماعت خانہ میں عبادت کا مفہوم و مطلب ظاہر نہیں بلکہ پوشیدہ رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ جماعت خانہ (خانۂ جماعت) یعنی جماعت کا گھ رہے، جو سب کے لیے نہیں صرف ایک ہی جماعت کے لیے ہے، جس طرح خانقاہ کے معنی میں یہی فلسفہ پایا جاتا ہے کہ خانقاہ مُعَرب ہے خانگاہ (خانہ گاہ) کا اور خانگاہ کے معنی ہیں صوفیوں اور درویشوں کے رہنے کی جگہ، جس میں عبادت کا مفہوم پوشیدہ رکھا گیا ہے اور اگر وہ چاہتے تو بڑی آسانی سے اس مطلب کے لیے کوئی ایسا نام منتخب کرتے جس سے کہ فوراً ہی عبادت و بندگی کے معنی ظاہر ہوجائیں، مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، کیونکہ وہاں تو اسلام کی تعلیمات کسی پیرِ طریقت کے مخصوص نظریات و تشریحات کے مطابق دینی تھیں اور اس میں عبادت و بندگی اور ریاضت اپنی نوعیت کی کرنی تھی اور وہ خانقاہ بھی صرف اسی پیر یا شیخ کے مریدوں کے واسطے مقرر تھی، سو یہی مثال جماعت خانہ کی بھی ہے اور جماعت خانہ شروع شروع میں تھا ہی خانقاہ، جس طرح صوفیوں کے تذکرے میں ملتا ہے کہ ”خواجہ بختیار کاکی کا جماعت خانہ“ پھر اس کے بعد جماعت خانہ اسماعیلیت میں اپنایا گیا، یہ تاریخی واقعہ اس امر کی ایک روشن دلیل ہے کہ شریعت کے باطن سے طریقت پیدا ہوتی ہے اور طریقت کے باطن سے حقیقت اور ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت خانہ صرف امام حاضر ہی کے مریدوں کے لیے مخصوص ہے۔
1..آٹھ سوال کے جواب