جمعیۃ علماء ہند | |
---|---|
ملک | بھارت |
صدر دفتر | 1، بہادر شاہ ظفر مارگ، نئی دہلی |
تاریخ تاسیس | 19 نومبر 1919 |
بانی | کفایت اللہ دہلوی ، ثناء اللہ امرتسری ، ابراہیم میر سیالکوٹی ، عبدالباری فرنگی محلی ، منیر الزماں اسلام آبادی ، محمد اکرم خان |
مقاصد | ابتدائی طور پر بھارت میں برطانوی حکمرانی کے خلاف عدم تشدد کی جدوجہد جاری رکھنا تھا، اس وقت بھارتی مسلم عوام کی ترقی ہے |
صدر |
|
باضابطہ ویب سائٹ | |
درستی - ترمیم |
جمعیۃ علماء ہند[1] بھارتی مسلمانوں کی ایک متحرک و فعال تنظیم ہے، جس میں فی الحال دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے علماء زیادہ فعال ہیں۔ نومبر 1919ء میں اس کی بنیاد عبد الباری فرنگی محلی، ابو المحاسن محمد سجاد، کفایت اللہ دہلوی، عبد القادر بدایونی، سلامت اللہ فرنگی محلی، انیس نگرامی، احمد سعید دہلوی، ابراہیم دربھنگوی، محمد اکرام خان کلکتوی، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری سمیت علمائے کرام کی ایک جماعت نے رکھی تھی۔ جمعیت نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر تحریک خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے متحدہ قومیت کا موقف اختیار کرتے ہوئے تقسیم ہند کی مخالفت کی اور یہ موقف اپنایا کہ ہندوستان کے مسلمان اور غیر مسلم ایک ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جمعیت کے ایک مختصر حصے نے جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے علاحدہ ہو کر تحریک پاکستان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعیت کے آئین کا مسودہ کفایت اللہ دہلوی نے تیار کیا تھا۔
آزادی ہند کے بعد جمعیت نے اپنی سرگرمیوں میں تنوع اختیار کیا اور زیادہ تر رفاہی میدانوں میں متحرک رہی۔ جمعیت کی اب پورے ہندوستان میں ریاستی اکائیاں ہیں، مثلاً: جمعیۃ علماء آسام، جمعیۃ علماء بہار، جمعیۃ علماء جھارکھنڈ، جمعیۃ علماء کرناٹک، جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش، جمعیۃ علماء مہاراشٹر، جمعیۃ علماء راجستھان، جمعیۃ علماء اترپردیش، جمعیۃ علماء اتراکھنڈ، جمعیۃ علماء تلنگانہ، جمعیۃ علماء مغربی بنگال اور جمعیۃ علماء اڈیشا۔
سید ارشد مدنی اپنے بھائی سید اسعد مدنی کے بعد فروری 2006ء میں صدر منتخب کیے گئے، تاہم یہ تنظیم مارچ 2008ء میں حلقۂ ارشد (الف) اور حلقۂ محمود (میم) میں تقسیم ہو گئی۔ عثمان منصورپوری حلقۂ میم کے صدر بنائے گئے اور تا وفات یعنی مئی 2021ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد محمود مدنی عبوری صدر، پھر مستقل صدر بنائے گئے۔ سید ارشد مدنی حلقۂ الف کے صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔
جمعیت نے 2008ء میں دہشت گردی مخالف کانفرنس کرکے دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی تھی اور اس کے لیے 6000 علما کا دستخط شدہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا، جس پر دار العلوم دیوبند کے مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی کا دستخط بھی ثبت تھا۔ اس اعلامیہ میں یہ کہا گیا تھا کہ اسلام ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام – جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے – جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے آیا ہے۔
سنہ 2009ء میں جمعیت کی طرف سے مسلمانوں سے یہ اپیل کی گئی کہ ہندو کو کافر نہیں کہنا چاہیے؛ کیوں کہ اگرچہ اس اصطلاح کا مطلب صرف غیر مسلم ہے؛ مگر اس کا استعمال برادریوں کے درمیان غلط فہمی کو جنم دے سکتی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند نے نومبر 2019ء میں اپنی صد سالہ تقریب منائی۔ جب کہ جمعیۃ علمائے اسلام (ف) نے ازاخیل میں 7 اپریل 2017ء سے دو روزہ جشن صد سالہ منایا تھا۔
جون 2021ء میں جمعیۃ علماء ہند کی گجرات یونٹ نے کووِڈ-19 ویکسین کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کیمپ لگائے۔ اس سلسلے میں جمعیت (الف) کے صدر ارشد مدنی نے کہا تھا کہ جو چیز انسانی جانوں کو بچاتی ہے وہ جائز ہے۔ ہمیں ویکسین لگوانی چاہیے اور اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے ہر فرد کو کووِڈ 19 سے بچانا چاہیے۔
جمعیت کے دونوں حصوں نے ادارہ مباحث فقہیہ، جمعیۃ علماء لیگل سیل، جمعیۃ نیشنل اوپن اسکول، جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ اور جمعیۃ یوتھ کلب جیسے ادارے اور وِنگ قائم کیے۔ جمعیۃ لیگل سیل، جمعیت (الف) کی طرف سے 2007ء میں قائم کیا تھا اور اس نے مئی 2019ء تک پورے ہندوستان میں 192 قیدیوں کی بری الذمہ رہائی میں مدد کی ہے۔
23 نومبر 1919ء کو تحریک خلافت کمیٹی نے دہلی میں اپنی پہلی کانفرنس منعقد کی، جس میں بھارت بھر سے مسلم علما نے شرکت کی۔[2][3] اس کے بعد ان میں سے پچیس مسلم علما کی ایک جماعت نے دہلی کے کرشنا تھیٹر ہال میں ایک الگ کانفرنس منعقد کی اور اس میں جمعیۃ علماء ہند کی تشکیل دی۔[2] ان علما میں عبدالباری فرنگی محلی، احمد سعید دہلوی، کفایت اللہ دہلوی، منیر الزماں خان، محمد اکرم خان، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری شامل تھے۔[4] دیگر علما میں عبد الحلیم گیاوی، آزاد سبحانی، بخش امرتسری، ابراہیم دربھنگوی، محمد عبد اللہ، محمد امام سندھی، محمد اسد اللہ سندھی، محمد فاخر، محمد انیس، محمد صادق، خدا بخش مظفرپوری، خواجہ غلام نظام الدین، قدیر بخش، سلامت اللہ، سید اسماعیل، سید کمال الدین، سید محمد داؤد اور تاج محمد شامل تھے۔[5]
جمعیَت؛ جسے "جمعیّت" بھی کہا جاتا ہے، ایک اصطلاح ہے جسے اسلامی پس منظر میں اسمبلی، لیگ یا کسی دوسری تنظیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔[6] یہ لفظ عربی لفظ "جمع" سے نکلا ہے، جس کے معنی جمعیت کے ہیں اور اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔[7][8]
جمعیۃ علماء ہند کا پہلا عام اجلاس امرتسر میں ثناء اللہ امرتسری کی درخواست پر 28 دسمبر 1919ء کو منعقد ہوا، جس میں کفایت اللہ دہلوی نے جمعیت کے آئین کا مسودہ پیش کیا۔[3][2] ابو المحاسن محمد سجاد اور مظہر الدین کا نام بھی بانیوں میں آتا ہے۔[9] ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ جمعیت کی بنیاد محمود حسن دیوبندی اور حسین احمد مدنی سمیت ان کے دیگر ساتھیوں نے رکھی تھی، تاہم یہ درست نہیں ہے؛ کیوں جس وقت تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی یہ حضرات اس وقت مالٹا کی جیل میں قید تھے۔[10]
جب جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد رکھی گئی تو کفایت اللہ دہلوی کو عبوری صدر اور احمد سعید دہلوی کو عبوری ناظم عمومی بنایا گیا۔[11] جمعیت نے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں اپنی پہلی مجلس منتظمہ تشکیل دی تھی۔[2][12] جمعیت کا دوسرا اجلاسِ عام نومبر 1920ء کو دہلی میں منعقد ہوا تھا، جس میں محمود حسن دیوبندی کو صدر اور کفایت اللہ دہلوی کو نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد (30 نومبر کو) محمود حسن دیوبندی کا انتقال ہو گیا اور کفایت اللہ دہلوی بیک وقت نائب صدر اور عبوری صدر دونوں حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے؛ یہاں تک کہ 6 ستمبر 1921ء کو انھیں جمعیت کا مستقل صدر بنایا گیا۔[11] جس اجتماع میں جمعیت کی تاسیس عمل میں آئی تھی، اس میں محمود حسن دیوبندی موجود نہیں تھے؛ بلکہ مالٹا میں قید تھے اور اس وقت دار العلوم دیوبند کی کوئی دیگر شخصیت بھی جمعیت سے وابستہ نہ تھی۔[13] اب یہ علمائے دیوبند سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے۔[14]
جمعیت کے ابتدائی اصول اور آئین کفایت اللہ دہلوی نے لکھے تھے۔ جمعیت کے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں یہ طے پایا تھا کہ ان کو شائع کرکے علما کی ایک جماعت کی آرا جمع کرکے، اس پر اگلے اجلاس میں دوبارہ بحث کی جائے۔[15] محمود حسن دیوبندی کے زیر صدارت دہلی میں منعقد جمعیت کے دوسرے اجلاس میں اصول و ضوابط کی توثیق کی گئی۔[15] وہاں یہ طے پایا کہ اس تنظیم کو جمعیۃ علماء ہند کہا جائے گا، اس کا صدر دفتر دہلی میں ہوگا اور اس کی مہر پر الجماعۃ المرکزیۃ لعلماء الھند (علمائے ہند کی مرکزی کونسل) لکھا ہوا ہوگا۔[15] اس کا مقصد کسی بھی بیرونی یا اجنبی خطرے سے اسلام کا دفاع؛ سیاست میں اسلامی اصولوں کے ذریعہ عام لوگوں کی رہنمائی اور ایک اسلامی عدالت: دار القضا کا قیام تھا۔[15]
جمعیۃ علماء ہند کی پہلی مجلس منتظمہ امرتسر میں بنائی گئی۔ جس کے ارکان میں عبد الماجد بدایونی، ابو المحاسن محمد سجاد، احمد سعید دہلوی، حکیم اجمل خان، حسرت موہانی، خدا بخش، مظہر الدین، عبید اللہ سندھی، محمد فاخر الہ آبادی، منیر الزماں خان، محمد اکرم خان، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، محمد صادق کراچوی، رکن الدین دانا، سلامت اللہ فرنگی محلی، ثناء اللہ امرتسری، سید محمد داؤد غزنوی اور تراب علی سندھی شامل تھے۔[2]
پہلی ورکنگ کمیٹی (مجلس عاملہ) 9 و 10 فروری 1922ء کو دہلی میں تشکیل دی گئی۔[2] جو نو افراد پر مشتمل تھی: عبد الحلیم صدیقی، عبد المجید قادری بدایونی، عبد القادر قصوری، احمد اللہ پانی پتی، حکیم اجمل خان، حسرت موہانی، کفایت اللہ دہلوی، مظہر الدین اور شبیر احمد عثمانی۔[12] مارچ 1922ء میں یہ تعداد بڑھا کر بارہ کردی گئی اور عبدالقدیر بدایونی، آزاد سبحانی اور ابراہیم سیالکوٹی کو ورکنگ کمیٹی ارکان میں شامل کیا گیا۔[12] مرتضی حسن چاند پوری اور نثار احمد کانپوری 15 جنوری 1925ء کو جمعیت کے نائب صدور منتخب کیے گئے۔[12]
جمعیت کا ایک تنظیمی نیٹ ورک ہے جو پورے بھارت میں پھیلا ہوا ہے۔ اس میں ایک اردو روزنامہ الجمعیۃ بھی ہے۔[16] برطانوی حکومت نے 1938ء میں اس اخبار پر پابندی لگا دی تھی؛ لیکن 23 دسمبر 1947ء کو محمد میاں دیوبندی کو اس کا ایڈیٹر مقرر کر کے دوبارہ شروع کیا گیا۔[17] جمعیت اپنے قومیت کے فلسفے کے لیے ایک مذہبی بنیاد کی تجویز پیش کرتی ہے، جو یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں نے بھارت کی آزادی کے بعد سے ایک جمہوری ریاست کے قیام کے لیے ایک باہمی معاہدہ کیا ہے۔ آئین ہند اس معاہدے کی نمائندگی کرتا ہے۔ چنانچہ جیسے مسلم معاشرہ کے منتخب نمائندوں نے اس معاہدہ کی حمایت کی اور حلف لیا تھا، اسی طرح بھارتی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین ہند کی حمایت کریں۔ یہ معاہدہ مدینہ کے مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین ہونے والے میثاق مدینہ کی طرح ہے۔[16]
8 ستمبر 1920ء کو جمعیت نے ایک مذہبی اعلامیہ جاری کیا، جسے فتوی ترکِ موالات کہا جاتا ہے، جس کے ذریعے برطانوی سامان کا بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ فتوی ابو المحاسن محمد سجاد نے دیا تھا، جس پر 500 علما کے دستخط تھے۔[18] برطانوی راج کے دوران جمعیت نے برطانوی راج کی مخالفت کی اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں حصہ لیا۔[19] سنہ 1919ء میں اپنے قیام کے بعد سے جمعیت کا مقصد انگریزوں سے آزاد ہندوستان تھا۔[2] اس نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران ادارہ حربیہ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا۔[20][21]
جمعیت سے وابستہ علما کو بار بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ناظم عمومی احمد سعید دہلوی نے اپنی زندگی کے پندرہ سال جیل میں گزارے۔[22] جمعیت نے مسلم کمیونٹی سے وعدہ لیا کہ وہ برطانوی کپڑے کے استعمال سے گریز کریں گے اور نمک مارچ میں حصہ لینے کے لیے تقریباً پندرہ ہزار رضاکاروں کا اندراج کیا۔[21] جمعیت کے شریک بانی کفایت اللہ دہلوی کو سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لینے پر 1930ء میں گجرات جیل میں چھ ماہ مقید رہنا پڑا۔ 31 مارچ 1932ء کو وہ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے جلوس کی قیادت کرنے پر گرفتار ہوئے اور اٹھارہ ماہ تک ملتان جیل میں قید رہے۔[23] جمعیت کے ناظم عمومی محمد میاں دیوبندی کو پانچ مرتبہ گرفتار کیا گیا اور ان کی کتاب علمائے ہند کا شاندار ماضی کو برطانوی راج سمیت حکمرانوں کے خلاف مسلم علما کی تحریکات پر مشتمل ہونے کی بنا پر ضبط کیا گیا۔[24] جمعیت کے ایک اور عالم حفظ الرحمن سیوہاروی برطانوی استعمار کے خلاف مہم چلانے پر کئی بار گرفتار ہوئے۔[25] انھوں نے آٹھ سال قید میں گزارے۔[26]
دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور اس وقت کے معروف دیوبندی عالم حسین احمد مدنی نے کہا کہ مسلمان بلا شبہ ایک متحدہ ہندوستان کا حصہ ہیں اور ہندو مسلم اتحاد ملک کی آزادی کے لیے ضروری تھا۔ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا یہاں تک کہ تقسیم ہند ہو گئی۔[27][28] سنہ 1945ء میں جمعیۃ علماء ہند کے اندر ایک جماعت کھڑی ہوئی، جس نے تحریک پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کی۔ اس جماعت کی قیادت جمعیت کے ایک بانی رکن شبیر احمد عثمانی نے کی۔[29] جمعیۃ علماء ہند آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس کا رکن تھا، جس میں کئی اسلامی تنظیمیں شامل تھیں، جو متحدہ ہندوستان کے لیے کھڑی تھیں۔[30]
اشتیاق احمد بیان کرتے ہیں کہ ان کی حمایت کے بدلہ میں جمعیۃ علماء ہند نے بھارتی قیادت سے یہ عہد لیا کہ ریاست مسلم پرسنل لا میں مداخلت نہیں کرے گی۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس عہد سے اتفاق کیا، تاہم ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو پہلے ان ضوابط میں اصلاح کرنی چاہیے۔[31] ان مراعات کے باوجود؛ تقسیم ہند کے زمانے میں، ملک میں فسادات عام ہو گئے اور کُشت و خون کا بازار گرم ہو گیا، جس کے نتیجہ میں فسادات بپا ہوئے اور بے شمار مسلمان شہید کر دیے گئے۔ جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کیا۔[32] سید محبوب رضوی کہتے ہیں کہ جمعیت کے ناظم عمومی حفظ الرحمن سیوہاروی نے ایسے نازک حالات میں غیر معمولی جرات و ہمت اور پامردی سے اس وقت کے سنگین ترین حالات کا مقابلہ کیا، لیڈروں کو جھنجوڑا اور حکام پر زور دے کر امن و امان کو بحال کرانے کا زبردست کارنامہ انجام دیا، خوف زدہ مسلمانوں کے دلوں سے خوف و ہراس دور کیا۔[32]
مارچ 2008ء میں جمعیت کے سابق صدر اسعد مدنی کی وفات کے بعد؛ جمعیۃ علماء ہند دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔[33][34] تقسیم ارشد مدنی اور ان کے بھتیجے محمود مدنی کے درمیان نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ہوئی،[33] جب ارشد مدنی پر جمعیت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی اس وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ الزام لگایا گیا کہ ارشد مدنی نے اپنی ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے منتخب اکائیوں کو تحلیل کر دیا ہے اور اس کے جمہوری ڈھانچہ کو ختم کر دیا ہے۔[34] چنانچہ 5 مارچ 2006ء کو ارشد مدنی کو متحدہ جمعیت کے صدر کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ایک نئی ایگزیکٹو کمیٹی (مجلس عاملہ) کی تشکیل عمل میں آئی، جس کے حقیقی جمعیت ہونے کا دعوی کیا گیا۔[34] جمعیت کا بقیہ حصہ؛ محمود مدنی کے زیرِ قیادت آ گیا اور 5 اپریل 2008ء کو اس حصے نے عثمان منصورپوری کو اپنا پہلا صدر مقرر کر لیا۔[34] جمعیت (الف) کے پہلے ناظم عمومی عبد العلیم فاروقی تھے، جو پہلے ہی 1995ء سے 2001ء تک متحدہ جمعیۃ علماء ہند کے دسویں ناظم عمومی کی حیثیت سے خدمت انجام دے چکے تھے۔[2][35]
22 جون 2022ء کو ٹائمز آف انڈیا میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جمعیت کے دونوں جماعتوں نے انضمام کا عمل شروع کر دیا ہے جو بہت جلد مکمل ہو سکتا ہے۔[36] 16 جولائی 2022ء کو دی ہندو نے یہ خبر شائع کی کہ محمود مدنی کی جماعت؛ جمعیت کے صدر کی حیثیت سے ارشد مدنی کے ماتحت کام کرنے کے لیے راضی ہے۔[37] 28 مئی 2022ء کو جمعیت (میم) نے اپنے فریق مقابل ارشد مدنی کو دیوبند میں عاملہ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔ ان کی دعوت کی قبولیت کو، مفاہمت کی طرف ان کا پہلا اقدام تصور کیا گیا۔[37] دیوبند کے اجلاس میں ارشد مدنی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے؛ تاکہ ہماری آواز مضبوط ہو سکے۔[37]
جمعیت نے نومبر 2019ء میں اپنی صد سالہ تقریب منائی۔[38] جمعیۃ علماء اسلام (ف) نے ازاخیل میں 7 سے 9 اپریل 2017ء کے درمیان جشن صد سالہ منایا۔[38] جس میں امامِ حرمِ مکی صالح بن ابراہیم آل طالب اور سعودی وزیرِ تعلیم صالح بن عبد العزیز آل شیخ نے شرکت کی۔[39]
نومبر 2008ء میں 6000 علما نے حیدرآباد، دکن میں جمعیۃ علماء ہند کی 29 ویں مجلس منتظمہ میٹنگ میں انسداد دہشت گردی کے فتویٰ کی توثیق کی۔[40] مئی 2008ء میں یہ فتوٰی دار العلوم دیوبند نے جاری کیا اور اس کے صدر مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی نے اس پر دستخط کیا۔[40] اجلاسِ عام میں محمود مدنی نے کہا کہ یہ اس ایمان کا مظہر ہے کہ علمائے دین اس فتوٰی کی اہمیت اور وقتی ضرورت پر توجہ دے رہے ہیں۔ جب یہ مندوبین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ دستخط شدہ اجلاس حیدرآباد کا اعلامیہ ساتھ لے جائیں گے، جو دار العلوم کی دہشت گردی مخالف موقف کی تائید کرتا ہے۔[40] اس میٹنگ میں روی شنکر اور سوامی اگنیویش بھی شریک ہوئے تھے۔[40] اس فتوی میں کہا گیا تھا کہ اسلام ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام – جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے – جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے آیا ہے۔[41]
سنہ 2009ء میں جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ہندو کو کافر نہیں کہا جانا چاہیے؛ کیوں کہ اگرچہ اس اصطلاح کا مطلب صرف غیر مسلم ہے، اس کا استعمال؛ برادریوں کے درمیان؛ غلط فہمی کا باعث بن سکتا ہے۔[42] جمعیت نے نومبر 2009ء میں ایک قرارداد منظور کی، جس میں وندے ماترم کو ایک اسلام مخالف گیت قرار دیا گیا اور مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینر محمد افضل نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو اس فتوی کی پیروی نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ وندے ماترم ملک کا قومی گیت ہے اور ہر ہندوستانی شہری کو اس کا احترام کرنا اور اس کو پڑھنا چاہیے۔[43]
سنہ 1934ء میں بابری مسجد کے بعض حصوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ہندو دیوتاؤں کی تصویریں – جن پر رام لکھا ہوا تھا – مسجد کے اندر رکھی گئیں۔ جمعیت کے صدر کفایت اللہ دہلوی نے ایودھیا کا دورہ کیا اور بعد میں جمعیۃ کی ورکنگ کمیٹی کو ایک رپورٹ پیش کی۔[45] ورکنگ کمیٹی نے بابری مسجد کیس کی پیروی کی اور فروری 1952ء کے ایک اجلاس میں؛ جس کی صدارت حسین احمد مدنی نے کی تھی اور جس میں ابو الکلام آزاد اور حفظ الرحمن سیوہاروی شریک تھے، یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملہ کو قانونی طریقوں سے آگے بڑھایا جائے۔[46] اس کے بعد فروری 1986ء میں فیض آباد کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کرشنا موہن پانڈے نے بابری مسجد کے دروازوں کے تالے کھولنے کا حکم دیا؛ تاکہ ہندؤوں کو عبادت کی اجازت دی جا سکے۔[47][48] جمعیت کے علما؛ اسعد مدنی اور اسرار الحق قاسمی نے بھارتی حکومت سے جج کے خلاف کارروائی کی اپیل کی اور ساتھ ہی اس حکم کے خلاف ایک عرضی بھی ڈالی۔[47] 3 مارچ 1986ء کو راجیو گاندھی کو ایک میمورنڈم پیش کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اس کیس میں ذاتی دلچسپی لیں اور معاملہ کو حل کرنے میں مدد کریں۔[49] بابری مسجد کیس کی پیروی کے لیے جمعیت نے 22 فروری 1986ء کو ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں جلیل احمد سیوہاروی، محمد متین، وکیل ظفریاب جیلانی اور محمد رائق شامل تھے۔[49] سنہ 2019ء میں جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ بابری مسجد کو رام مندر کی تعمیر کے لیے چھوڑ دیا جائے اور 5 ایکڑ اراضی مسلمانوں کو اس کی جگہ نئی مسجد کی تعمیر کے لیے دی جائے، جمعیت نے اسے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین مقام قرار دیا۔[50][51] ارشد مدنی نے کہا کہ اگرچہ مسلم تنظیمیں بابری مسجد کیس ہار گئی، جمعیۃ علماء ہند دیگر عبادت گاہوں کی حفاظت اور تحفظ کے لیے لڑائی جاری رکھے گی۔[52]
دی اکنامک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشد مدنی نے کہا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور ہمیں اپنی جگہوں پر حقوق حاصل ہیں۔ ہم مرتے دم تک ان کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ ایک کیس کی قسمت تمام کیسوں کی قسمت نہیں ہوتی۔ ہمیں اب بھی اپنے ملک کی عدلیہ پر یقین ہے۔[52] جمعیت کا موقف یہ تھا کہ بابری مسجد کے لیے کوئی متبادل جگہ قابل قبول نہیں ہے اور مسلم تنظیموں کو بدلے میں دی گئی کسی زمین کی پیشکش یا رقم قبول نہیں کرنا چاہیے۔[53]
جمعیت (میم) نے مئی 2017ء کے دوران میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں عثمان منصورپوری کے زیر قیادت، آسام معاہدہ کا دفاع کیا۔[54] انھوں نے این آر سی کی حمایت میں ایک قرارداد بھی منظور کی۔[55] تاہم جمعیت (الف) کے صدر ارشد مدنی نے کہا کہ این پی آر-این آر سی پروجیکٹ مرکزی حکومت کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کا حصہ ہے؛ تاکہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کیا جا سکے۔[56] ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دلت سمیت مسلمانوں اور بعض دوسری برادریوں کے لیے یہ ایک بڑے خطرے کی بات ہے۔[56] چنانچہ دسمبر 2019ء میں محمود گروپ نے شہریت ترمیمی قانون، 2019ء کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا کہ قانون نے تارکینِ وطن کو بغیر کسی قابلِ فہم فرق کے درجہ بند کیا اور مذہبی طور پر ستائی گئی کئی اقلیتوں کو نظر انداز کیا۔[57] جمعیت (میم) نے کشمیر کو بھی ہندوستان کا اٹوٹ انگ قرار دیا۔[55]
2020ء کے دہلی فسادات پر ارشد مدنی نے اکتوبر 2020ء میں کہا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کو جواب دہ بنائے بغیر ملک میں فسادات پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔[58] اکتوبر 2020ء کی امید کی ایک رپورٹ کے مطابق، جمعیت ان کی قیادت میں دہلی فسادات میں ملوث مسلمانوں کے مقدمات لڑ رہی تھی اور دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے ضمانت کی سولہ درخواستوں کو قبول کیا گیا تھا۔[58]
عائشہ نامی نوجوان خاتون کی خودکشی اور اس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد[59] جمعیۃ علماء پونے نے مارچ 2021ء میں جہیز کے خلاف مہم شروع کی۔[60] اس حلقے کے علما نے کہا کہ وہ جمعہ کی نماز کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں گے تاکہ لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا جا سکے۔[60] تاہم جمعیۃ علماء آسام نے بعد میں 5 جولائی 2021ء کو کہا کہ اگر حکومت اسے زبردستی نافذ کرتی ہے تو جمعیت [بھارتی حکومت کی آبادی کی پالیسی] کی حمایت نہیں کرے گی۔[61] سیکرٹری فضل الکریم قاسمی نے کہا کہ اقلیتوں پر مانع حمل پالیسیاں مسلط نہیں کی جا سکتیں اور آبادی کی پالیسی اکثریت پر نافذ ہونی چاہیے۔ اکثریت کے لیے مانع حمل قانون ہونا چاہیے۔[61]
جون 2021ء میں جمعیۃ علماء ہند کی گجرات یونٹ نے کووِڈ-19 ویکسین کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کیمپ لگائے۔ اس مہم میں ساٹھ علما کی ایک جماعت نے بھاونگر اور پالن پور سے حصہ لیا۔[62] جمعیت سے وابستہ ایک مقامی عالم عمران ڈھیری والا نے کہا کہ کمیونٹی کو ویکسین کے حوالے سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا گہرا احساس ہے؛ لیکن یہ لوگوں کے ایمان کی وجہ سے ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو کسی کی موت کے وقت کا فیصلہ کرتا ہے اور وہ حفاظت بھی کرتا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی ویکسین نہ لے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم، لوگوں سے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؛ کیونکہ اسلام کی تعلیمات انسان کو اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے ادویات کے استعمال کو ضروری بتاتی ہیں اور اسی طرح ویکسین ضروری تھی اور ہم اس پیغام کو عام کی کوشش کر رہے ہیں۔[62] جمعیت (الف) کے صدر ارشد مدنی نے کہا کہ جو چیز انسانی جانوں کو بچاتی ہے وہ جائز ہے۔ ہمیں ویکسین لگوانی چاہیے اور اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے ہر فرد کو کووِڈ 19 سے بچانا چاہیے۔[63]
جمعیۃ علماء ہند نے 1970ء میں ادارہ مباحثہ فقہیہ قائم کیا اور محمد میاں دیوبندی کو اس کا پہلا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔[17][64] ادارہ نے مارچ 2019ء میں اپنے پندرہویں فقہی سیمینار کا اہتمام کیا۔[65] سیمینار میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ گوگل ایڈسینس، پے ٹی ایم نقد رقم اور موبائل اور انٹرنیٹ سے متعلق دیگر چیزوں کی اسلامی قانون کے تحت اجازت ہے یا نہیں؟ اس میں سعید احمد پالن پوری اور شبیر احمد قاسمی سمیت کئی فقہا نے شرکت کی۔[65]
جمعیۃ یوتھ کلب جولائی 2018ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو برادری کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے مختلف دفاعی تکنیکوں کی تربیت فراہم کرنا ہے۔[66] اسے ایک ”پائلٹ پروجیکٹ“ کہا گیا اور بتایا گیا کہ جمعیت ہر سال تقریباً 1.25 ملین نوجوانوں کو تربیت دینے کی امید رکھتی ہے اور 2028ء تک جمعیۃ یوتھ کلب میں بھارت کے سو سے زائد اضلاع میں تقریباً 12.5 ملین نوجوانوں کی شمولیت متوقع ہے۔[66][67] محمود مدنی نے کہا کہ کلب نوجوانوں کو دی بھارت اسکاؤٹس اینڈ گائیڈز کی طرح تربیت دے گا، جس میں جسمانی تربیت اور ان کی ذہنی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے مختلف طریقوں پر زور دیا جائے گا۔[67]
جمعیت کی ایک حلال-اعلان کرنے والی ایجنسی ہے جسے جمعیۃ علماء ہند – حلال ٹرسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔[68] یہ 2009ء میں قائم کیا گیا تھا اور اسے شعبہ اسلامی ترقیات ملائیشیا نے 2011ء میں گوشت، گوشت کی مصنوعات اور سلاٹر ہاؤس کو حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے ایک قابل اعتماد اور مستند ادارے کے طور پر تسلیم کیا تھا۔[68] اپریل 2020ء کے مطابق اس کے سیکرٹری نیاز احمد فاروقی تھے۔[69]
نومبر 2023ء میں اتر پردیش حکومت نے جمعیت حلال ٹرسٹ اور کئی دیگر تنظیموں کے خلاف مبینہ طور پر فروخت کو بڑھانے کے لیے جعلی حلال سرٹیفیکیشن فراہم کرنے کے الزام کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کی۔[70][71][72][73] تاہم جمعیت نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے[74][75] سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی، جس کے نتیجے میں جنوری 2024ء کو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ٹرسٹ کو اتر پردیش حکومت کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی زبردستی کارروائی سے عبوری تحفظ فراہم کیا۔[76][77][78][79]
جمعیۃ اوپن اسکول فروری 2021ء میں قائم کیا گیا۔ یہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) کی طرح ہے،[80] اور طلبہ کو تربیت یافتہ عملہ اور انفراسٹرکچر فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ کمپیوٹر، ریاضی، سائنس، زبان اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) کے تحت پیش کردہ دیگر مضامین پڑھ سکتے ہیں۔ یہ اسکول طلبہ کو اعلیٰ معیار اور عصری تعلیمی تعلیم فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس لیے کہ ہر سال ہزاروں طلبہ مدارسِ اسلامیہ سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، لیکن اکثر ان میں عصری سیکولر تعلیم کی مناسب صلاحیتوں اور مہارتوں کی کمی ہوتی ہے۔[81][80]
پیشہ ورانہ کورسز جیسے بی ٹیک، ایم ٹیک، بی سی اے اور دیگر میڈیکل اور انجینئری کورسز کر رہے طلبہ کو جمعیت وظائف فراہم کرتی ہے۔[82] 2012ء کے بعد سے طالب علمی فنڈ کے ذریعے مالی طور پر کمزور طلبہ کو وظائف دیے جاتے ہیں۔[82]
جمعیۃ علماء ہند کے پاس لیگل سیل انسٹی ٹیوٹ بھی ہے، جس کے ذریعے وہ دہشت گردی کے الزام میں مسلمانوں کو قانونی لڑائی لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔[83][84] اسے ارشد مدنی نے 2007ء میں قائم کیا تھا اور اس نے مئی 2019ء تک پورے ہندوستان میں 192 بری ہونے والوں کی مدد کی ہے۔[84] ارشد مدنی نے بتایا کہ انھوں نے انسٹی ٹیوٹ اس وقت شروع کیا، جب انھوں نے دیکھا کہ بے گناہ افراد کو بھارت میں مختلف الزامات کے تحت منصوبہ بندی سے اٹھا کر قید کیا جاتا ہے، ان کے اہل خانہ اپنی بچت خرچ کرتے ہیں اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑنے کے لیے اپنے اثاثے اور گھر تک فروخت کر دیتے ہیں۔[84] دی نیو انڈین ایکسپریس کی مئی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، "قانونی سیل نے جو پہلے تین کیس اٹھائے تھے، وہ تھے: 7/11 ممبئی ٹرین دھماکے، 2006ء کے مالیگاؤں دھماکے اور ستمبر 2007ء کے اورنگ آباد ہتھیاروں کا معاملہ۔[84] جنان میں ملزمان کی نمائندگی شاہد اعظمی نے کی،[85] جنھوں نے بعد میں فہیم انصاری اور صباح الدین کا دفاع کیا، دونوں 2008ء کے ممبئی حملوں کے ملزم تھے۔[86][87] تاہم اعظمی کو 11 فروری 2010 کو قتل کر دیا گیا تھا[88] اور انسٹی ٹیوٹ نے ٹرائل کورٹ اور پھر ہائی کورٹ میں ان دونوں کی مدد کی۔ ہائی کورٹ نے ان کی بریت کو برقرار رکھا اور دونوں کو سازش کے الزامات سے بری کر دیا گیا۔[86] انسٹی ٹیوٹ نے نو مسلم نوجوانوں کا دفاع کیا جن پر 2006 کے مالیگاؤں دھماکوں کا الزام تھا[89] اور ان سب کو 2016ء میں بری کر دیا گیا تھا۔[90]
دیگر مقدمات جن میں انسٹی ٹیوٹ نے ملزمان کے دفاع میں قانونی مدد فراہم کی ہے، ان میں ملنڈ دھماکا کیس، گیٹ وے آف انڈیا دھماکوں کا کیس اور 13/7 ممبئی کے تین دھماکوں میں شامل ہیں۔[86] انسٹی ٹیوٹ کی حمایت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے، کیونکہ انھوں نے 2012ء میں ایک ہندو شخص کی مدد کی تھی جسے سزائے موت سنائی گئی تھی اور بعد میں اسے بری کر دیا گیا تھا۔[86] مارچ 2019ء میں انسٹی ٹیوٹ کی مدد سے گیارہ مسلمان جن پر ٹی اے ڈی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا؛ کو خصوصی ٹی اے ڈی اے عدالت نے 25 سال جیل میں گزارنے کے بعد بری کر دیا۔[91] جون 2021ء میں، دو افراد کو نو سال جیل میں گزارنے کے بعد یو اے پی اے کے الزامات سے بری کر دیا گیا اور انھیں طویل قانونی جنگ میں مدد کرنے پر لیگل سیل کے گلزار اعظمی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔[92]
لیگل سیل انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ گلزار اعظمی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو پھانسی دی جائے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ لیکن ہمیں اس وقت تکلیف ہوتی ہے جب بے گناہ لوگوں پر دہشت گردی کے الزام میں جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔[93] ایک تازہ ترین کیس میں، انسٹی ٹیوٹ کے دو ایسے افراد کی مدد کرنے کی اطلاع دی گئی ہے جن پر دہشت گردی کی سرگرمیوں کا الزام ہے جنھیں جولائی 2021ء میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے گرفتار کیا تھا۔ ارشد مدنی کا اس کیس کے بارے میں کہنا تھا کہ دہشت گردی کا استعمال کرنے کا عمل مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے ہتھیار کے طور پر جاری ہے۔ بے گناہ مسلمانوں کی باعزت رہائی تک قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔[94]
جمعیۃ علماء ہند کی ایک پبلیکیشنز ڈویژن بھی ہے، جس کے ذریعے اس نے اسلام میں امامت اور امارت کا تصور، ہندوستان اور مسئلہ امارت اور اسلام دی بنیولینٹ فار آل کنسٹرکٹیو پروگرامز آف جمعیۃ علماء ہند جیسی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔[95][96]
محمود حسن دیوبندی جمعیۃ علماء ہند کے پہلے صدر تھے، ان سے پہلے کفایت اللہ دہلوی نے نومبر 1920ء تک بہ حیثیت عبوری صدر خدمات انجام دے رہے تھے۔ کفایت اللہ دہلوی محمود حسن دیوبندی کے بعد جمعیت کے دوسرے صدر منتخب ہوئے اور ان کے بعد سنہ 1940ء میں حسین احمد مدنی نے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[97] اسعد مدنی نے فروری 2006ء تک پانچویں صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 8 فروری 2006ء کو ان کے بھائی ارشد مدنی نے ان کی جگہ لی۔[98] متحدہ جمعیت مارچ 2008ء میں جمعیت (الف) اور جمعیت (میم) کی شکل میں دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔[34][33] محمود مدنی کو، ان سے پہلے صدر عثمان منصورپوری کی وفات کے بعد 27 مئی 2021ء کو جمعیت (میم) کے عبوری صدر؛ پھر 18 ستمبر 2021ء کو مستقل صدر بنائے گئے۔[99] اور ارشد مدنی؛ جمعیت (الف) کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔[100][101]
جمعیۃ علماء ہند کا ایک ناظم عمومی (جنرل سکریٹری) ہوتا ہے؛ سب سے پہلے ناظم عمومی احمد سعید دہلوی تھے، متحدہ جمعیت کے آخری ناظم عمومی محمود مدنی تھے، جو بعد میں جمعیت (میم) کے پہلے ناظم عمومی بنائے گئے۔[34][11][102] جمعیۃ (میم) کے موجودہ ناظم عمومی حکیم الدین قاسمی ہیں۔[102] دسمبر 2020ء میں معصوم ثاقب قاسمی کو جمعیت (الف) کا ناظم عمومی منتخب کیا گیا۔[103]
سنہ 1920ء میں جمعیۃ علماء ہند کے شریک بانی محمد صادق کراچوی نے کراچی میں جماعت کی ایک ریاستی اکائی قائم کی اور عمر بھر اس کے صدر رہے۔[104] جمعیت کی اب پورے بھارت میں ریاستی اکائیاں ہیں۔ ان میں جمعیۃ علماء آسام، جمعیۃ علماء بہار، جمعیۃ علماء جھارکھنڈ، جمعیۃ علماء کرناٹک، جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش، جمعیۃ علماء مہاراشٹر، جمعیۃ علماء راجستھان، جمعیۃ علماء اترپردیش، جمعیۃ علماء اتراکھنڈ، جمعیۃ علماء تلنگانہ، جمعیۃ علماء مغربی بنگال اور جمعیۃ علماء اڈیشا بھی شامل ہیں۔[105][106][107] مشہور عالم اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے بانی بدر الدین اجمل جمعیۃ علماء آسام کے ریاستی صدر ہیں۔[54]
جمعیۃ علماء ہند کا قیام سنہ 1919ء کو عمل میں آیا، سنہ 1940ء کی دہائی میں تقسیم کی شدید مخالفت کی اور متحدہ قومیت کے نظریے کی حمایت کی۔
جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹر لیگل سیل میں دہشت گردی کے ملزمین کو قانونی مدد فراہم کرنے میں مصروف ایک گروپ