جگا ڈاکو | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1901/1902[1] وسطی جہلم ڈسٹرکٹ (اب ضلع قصور)، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) |
تاریخ وفات | سنہ 1931ء (29–30 سال) |
دیگر نام | جگا ڈاکو ਜੱਗ ਡਾਕੂ |
نسل | جاٹ[1][2] |
مذہب | سکھ مت[1][2] |
زوجہ | اندر کور |
اولاد | گلاب کور |
والدین | سردار مکھن سنگھ اور بھجن |
عملی زندگی | |
وجہ شہرت | امیروں سے لوٹ اور غریبوں کو دینا |
درستی - ترمیم |
جگا ایک سورما بیان کیا جاتا ہے[1][3][4][5] جس نے امرا اور ریاست کے جبر سے تنگ آخر ڈاکوؤں کی زندگی اپنائی اور لوٹ مار کے سامان اور سونے کے زیور سے علاقے کے غریب لوگوں کی مدد کی [6]۔ جگے کی کہانی ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جسے ڈاکو بننے پہ مجبور کر دیا گیا۔ اور اس طرح کی کہانیاں آج بھی عام ملتی ہیں۔ گلوکار اس کی داستان گاتے ہیں، جن میں ابرار الحق، عالم لوہارمرحوم، اس کا بیٹا عارف لوہار، شوکت علی اورگورداس مان وغیرہ نے اسے خوب گایا ہے۔
جگا انیس سو ایک یا انیس دو میں موضع بُرج سنگھ والا، تحصیل چنیوٹ ضلع قصور میں ایک سکھ جاٹ خاندان میں پیدا ہوا[1]، اس کا پورا نام جگت سنگھ تھا۔[1] of ضلع لاہور[2][7] باپ کا نام مکھن سنگھ جو اس کے جگت سنگھ (جگا جٹ) کی چھوٹی عمر میں مر گیا۔ جگے کی پرورش اس کے چچا رُوپ سنگھ اور ماں بھاگن نے کی۔ جگے کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے باپ مکھن سنگھ اور بھاگن کے چھ بچے پیدا ہوئے جو زندہ نہ رہے۔ کہتے ہیں کہ مکھن سنگھ اور بھاگن قریب کے گاؤں میں ایک سکھ بزرگ سوڈھی اندر سنگھ کے پاس گئے اور منت مراد و نذر نیاز پیش کی۔ سوڈھی سنگھ نے انھیں ایک کالا بکرا خریدنے کی ہدایت کی اور کہا کہ نوازئیدہ بچے کو اس کی پیدائیش پہ کالے بکرے سے چھوا جائے۔ اور اس کا نام ج سے مت رکھنا۔ مگر اس کا نام جگت سنگھ رکھنے کی وجہ سے کچھ دن بعد وہ کالا بکرا بیمار ہو گیااور مر گیا۔ یہ مقامی لوگوں کے عقیدے اور داستان گویوں کی باتیں ہیں۔ ساتویں نمبر پہ جگت سنگھ یعنی جگا پیدا ہوا اور اس کے بہت لاڈ اٹھائے گئے۔
جگے کی ملکیت میں دس مربع یعنی دو سو پچاس ایکڑ زمین تھیں۔ اور بے جا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا اور وہ انتہائی خود سر ہو گیا تھا۔ جگے کا باپ مکھن سنگھ مر چکا تھا۔ اور وہ اپنے چچا روپ سنگھ اور اپنی مان بھاگن کی کی زیر نگرانی پرورش پا رہا تھا۔ ایک دن اسنے بہت سا کماد کاٹ کے گنے اپنے دوستوں میں بانٹ دیا، جس پہ اس کے چچا روپ سنگھ نے اسے خوب پیٹا!۔ جس پہ جگے نے رات کے وقت اپنے چچا کے کنوئیں پہ ساری ٹنڈیں ( جو اس زمانے میں مٹی کی ہوتی تھیں ) کھول کر کنوئیں میں پھینک دی۔ کہتے ہیں اس کے چچا نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروانی چاہی تو اس کے شریکوں نے اسے یاد کروایا کہ اس کا نام جگا بھی تو اس کے چچا روپ سنگھ نے رکھا تھا شریکوں کے طعنوں سے اس کا چچا روپ سنگھ پولیس میں اس کی شکائت کروانے سے باز رہا۔ جگے کے گاؤں برج سنگھ والا میں زیادہ تر مسلمان تیلی رہتے تھے جبکہ سترہ یا اٹھارہ سندھو جٹ خاندان بھی آباد تھے اور سبھی ایک دوسرے کا مذہبی احترام کرتے تھے۔ جگا بچپن سی ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق اکھاڑے جاتا تھا اور مسلمان خاندان کا سوہن تیلی اس کے بچپن سے ہی اس کا دوست تھا اور سوہن تیلی نے جگے کا ساتھ اس کی موت تک دیا اور خود بھی مارا گیا۔ جگے کی شادی تلونڈی نامی گاؤں میں اندر کور سے ہوئی اور اس میں سے جگے کی واحد اولاد ایک بیٹی گلابو نام کی جس کی اسی سال کی عمر ہے اور مشرقی پنجاب مک تاثر میں لمبی کے نزدیک وان والا گاؤں میں زندہ ہے۔( سن دو ہزار چھ، جب یہ مضمون رقم کیا گیا)۔
انگریزی دور میں جگے کی طرح کے لوگوں کے بارے میں انگریز حکومت کے بنیادی مخبر پٹواری، نمبردار، تھانیدار، سفید پوش، ذیلدار وغیرہ معلومات اکھٹی کرتے رہتے تھے۔ اور انھیں کسی نہ کسی بہانے سے انگریز حکومت کی طرف سے مقدمات میں الجھا لیتے تھے تانکہ وہ بلیک میل ہو کر شرارت سے باز رہیں۔ جگا درمیانی قامت اور مضبوط جسم کا گورے رنگ کا جوان تھا۔ ایک دن جگا پٹواری کے پاس اپنی زمینوں کا فرد لینے کے لیے گیا اور جگا پٹواری سے عزت تکریم سے پیش نہ آیا تو پٹواری نے اسے فرد دینے سے ٹال دیا جس پر جگے نے اس کی دھلائی کر دی اور پٹواری سے فرد لے کر ہی ٹلا۔ اس واقعے نے جہاں انگریز سرکار کی نظروں میں اسے شرپسند بنا دیا وہیں عام عوام نے اسے ہیرو سمجھ لیا۔
کچا پُل جگے کے گاؤں اور اس کے سسرالی گاؤں تلونڈی کے بیچ میں تھا جسے بہاروالا نکئی اپنے استعمال میں لاتے تھے ان کی رشتے داری مہاراجا رنجیت سنگھ کے سسرالی رشتے دار تھے اور بہت اکھڑ اور شیطان لوگ تھے انھوں نے ایک دن جب جگا اپنے گھوڑے پہ سوار وہاں سے گذر رہا تھا اس کے گھوڑے کو ڈانگ ماری جس سے وہ گھوڑے سمیت الٹ گیا۔ نکئی پانچ یا چھ بھائی تھے جب کہ جگا اکیلا تھا مگر اس کے باوجود جگے نے ان کی خوب درگت بنائی۔ جس کی وجہ سے بعد میں نکئی لاہور منتقل ہو گئے۔ جگا کی مشہور ہونے کی وجہ کل مؤکل ذیلدار کی طرف سے جھوٹے مقدمے میں جگے کو چار سال کے لیے جیل بھیجنا تھا جگا جب رہا ہوکر واپس اپنے گاؤں برج پہنچا تو ایک دن بھائی پھیرو میں وہی ذیلدار اور انسپکٹر اصغر علی جو آپس میں دوست تھے انھوں نے جگے کو تھانے لے جانا چاہا تو جگے نے انکار کر دیا اور مزاحمت کی جس میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہو گئے جن میں سے کاواں گاؤں کے قہر سنگھ اور محل سنگھ اور ججال گاؤں کا دُلا سنگھ کے نام نمایاں ہیں۔ بعد میں دُلا سنگھ نے جگے کو اپنا دھرم پُتر بنا لیا۔ کچھ عرصے بعد دلا سنگھ اور اس کے خاندان نے اپنے وقت کامشہور قتل عام کیا جس میں اٹھ افراد قتل ہوئے جس کی پاداش میں دلا سنگھ وغیرہ پھانسی پہ لٹکا دیے گئے۔
اس دن اس نے تھانے جانے سے انکار اور مزاحمت کرنے کی وجہ سے ڈاکؤں کی زندگی اپنا لی جس کا آغاز ایک سپاہی کی سرکاری رائفل اور اچارکے گاؤں کے آتما سنگھ کی رائفل چھین کر کیا۔ جگے کا پہلا ڈاکہ گھمیاری گاؤں کے کچھ سناروں کے گھر تھا۔ گھمیاری قصور اور لاہور اضلاع کے سنگم پہ واقع ہے۔ جگے ساتھ اس ڈاکے میں جھنڈا سنگھ بمقام نرمل گاؤں اور ٹھاکر سنگھ منڈیالی شامل تھے۔ انھوں نے سنیاروں کے گھروں سے سارا سونا لوٹ لیا اور غریب لوگوں کو سود اور بیاج پہ دیے گئے روپوؤں کے تمام بھی کھاتے آگ میں جلا دیے۔ جس سے غریب لوگوں کی جان سود در سود سے چھوٹی۔ بعد میں انھہوں نے جھنڈا سنگھ کے کوئیں پر سونے کا حصہ کیا جس کا وزن آدھ سیر تقریبا تھا۔ اس نے نئے ساتھی اپنے ساتھ ملائے جن میں بانٹا سنگھ، جگے کے بچپن کا مسلمان دوست سوہنا تیلی، لالُو نائی جو ایک آنکھ سے کانا تھا مگر کھانے پکانے میں ماہر تھا، بھولو اور باوا شامل تھے۔ جگا کسی جگہ ڈاکہ ڈالنے سے قبل پولیس کو پیغام بیھج دیا کرتا کہ فلاں جگہ ڈاکہ مارنے جا رہا ہے تانکہ بعد میں پولیس بے گناہ لوگوں کو تنگ نہ کرے۔ جگا انسپکٹر اصغر علی کا کچھ نا بگاڑ سکا وہ جگے کی موت تک اسی تھانے میں ڈیوٹی پہ رہا۔ جگے کو علم ھو گیا تھا کہ ایک ڈاکو کی طرح اس کی زندگی تھوڑی رہ گئی ہے اس نے اپنی بیٹی کی کاواں نامی گاؤں کے اپنے ساتھی خیر سنگھ کے سب سے چھوٹے بھائی کے بیٹے کے ساتھ منگنی کر دی اور سارا سونا اور جواہرات وغیرہ اسے دان کر دیے۔
ایک دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سدھیر کے گاؤں میں ملنگی کے گھر گیا اور اس نے لالو نائی کو سب کے لیے کھانا بنانے کا کہا، لالو نائی کا گاؤں”لاکھو کے ”نزدیک ہی تھا۔ لالو نائی نے اپنے پانچ بھائیوں سے کہا کہ وہ شراب اور کھانا لے کر پہنچ جائیں۔ لالو اور اس کے بھائیوں نے شراب کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا جب کہ ملنگی کی ماں اسی طرح خوش تھی جس طرح دوسال کے بعد اس کا بیٹا ملنگی لوٹ آیا ہو۔ جگے کا جگری دوست سوہنا تیلی اپنے دوستوں کو ملنے نزدیک کہیں گیا ہوا تھا۔ جگے اور بانٹے نے کھانا کھا کر خوب شراب پی شراب کے نشے میں دھت بوڑھ (بڑ) کے نیچے ایک بڑے چارپائی میں گرمیوں کی دوپہر کو لیٹے ہوئے تھے کہ لالو نائی اور اس کے بھائیوں نے ان پہ فائر کھول دیا۔ سوہنا تیلی فائروں کی آواز سن کر پلٹا اور چاہا کہ لالو نائی اور اس کے بھائیوں کا مقابلہ کرے لیکن اسے کمر کی طرف سے فائر مار کر لالو نائی نے ہلاک کر دیا۔ جگے کی موت نے سارے علاقے کو صدمے اور ہراس میں لے لیا۔ لالو نائی کو حکومت نے دس مربعے زمین اور ایک گھوڑی انعام میں دی۔ کچھ وقت بعد لالو نائی کسی دوسرے مقدمے مین جیل گیا تو وہاں بند قیدیوں نے اسے اس قدر پٹائی کی کہ وہ وہیں مر گیا۔ جگہ صرف انتیس سال زندہ رہا اور اس کے ڈاکو بننے کی زندگی محض تین ماہ پہ محیط ہے۔