جینیندر کمار | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1905ء [1][2][3][4][5] کوریا گنج |
تاریخ وفات | سنہ 1988ء (82–83 سال)[1][2][3][4][5] |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی |
کارہائے نمایاں | مکتی بودھ |
اعزازات | |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
جینیندر کمار (2 جنوری 1905ء–24 دسمبر 1988ء) ہندی افسانہ نگار، ناول نگار اور مضمون نگار ہیں۔
سنہ 1971ء میں انھیں پدم شری سے نوازا گیا۔[8] 1966ء میں ان کی تخلیق ”مکتی بودھ“ کے لیے انھیں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز اور سنہ 1979ء میں ساہتیہ اکیڈمی فیلوشپ سے نوازا گیا۔[9]
انھوں نے پریم چند کی روایت سے متاثر ہو کر افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی کہانی "فوٹو گرافی" 1927ء میں اور دوسری کہانی "تروینی" شائع ہو چکی تھیں۔ انھوں نے ہندی افسانے کو داخلیت سے روشناس کرایا۔ ان کے افسانوں میں فلسفیانہ رنگ بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے سماج کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور ایک ماہر نفسیات کی طرح انسان کے لطیف اور نازک احساسات کو گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ ہندی ادب کے نقاد جینیندر کو ویکتی وادی کہانی کار بھی کہتے ہیں۔ ہندی فکشن میں جینیندر ہی نے وجودی فلسفے کو داخل کیا ہے۔ انھوں نے ہندی کہانی کو نئی سمت دی۔ ان کی منفرد انداز کی نشان دہی 1940ء کے بعد ہوئی۔ ان کے نئے انداز نے ہندی فکشن کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دی۔ ان کا نیا طرز فکر، نیا نظریہ اور جدید اسلوب نقادوں کے درمیان میں اختلاف کا باعث بن گیا۔ ترقی پسندوں نے ان کے افسانوں کو ناپسند کیا جن میں جنسی رشتوں کو موضوع بنایا گیا تھا۔ لیکن داخلیت اور فرد کو اہمیت دینے والے ادیبوں نے جینیندر کمار کو جدید دور کا مسیحا قرار دیا۔ ان کی کہانیاں دو طرح کی ہیں۔ پہلی قسم کی وہ کہانیاں جن میں نفسیات کو موضوع بنایا گیا ہے اور دوسری قسم کی وہ کہانیاں جن میں فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے نظر آتے ہیں۔ "داتایات"، "نیلم دیش کی راج کنیا"، "دو چڑیاں"، "دِھرو یاتر"، "پازیب"، "پھانسی"، "جے سندھی"، "کھیل"، "ایک رات"، باہوبلی" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جینیندر کمار ہندی کے اہم ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے کم و بیش پندرہ ناول شائع ہو چکے ہیں۔ "پرکھ" ان کا پہلا ناول ہے جس نے اپنی انفرادیت کی وجہ سے قارئین کی توجہ اپنی جانب کی تھی۔
جینیندر کمار ہندی مضمون نگاری میں بھی منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اب تک چھوٹے بڑے مضامین کیے کم و بیش ایک درجن مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
کھڑی بولی ہندی کو اردو کے مستقل اور معروف انداز سے جوڑ کر بات چیت کے لہجے میں پیش کرنا جینیندر کی اپنی خصوصیت ہے۔ ان کے یہاں جملے چھوٹے چھوٹے اور خوب صورت ہوتے ہیں۔ جینیندر ہندی کے فکری نقاد ہیں۔ ادب، سماج، سیاست، مذہب، تہذیب اور فلسفہ سب پر بڑی آسانی سے وہ اظہار خیال کرتے ہیں۔ موضوع کی گہرائی تک جانے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ "یہ اوروی" جینیندر کمار کی وہ مشہور یادنوشت ہے جو انھوں نے بعض اہم مجاہدین آزادی کی یاد میں تحریر کیا تھا۔